نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ریاست کو سوال سننا پسند نہیں؟ ۔۔۔عفت حسن رضوی

گھسی پٹی کہنے کی بجائے اپنی سی کہنے والے، دیکھے بھالے راستوں کو چھوڑ کر نئی ڈگر پر چلنے والے ختم نہیں ہوئے۔

آئیں ہم اہل تذبذب سوچتے ہیں۔ اگر ساری دنیا کی طبیعت معتدل ہو جائے، سب کو سر جھکانے کی عادت ہو، سب کسی نہ کسی ڈیل کے منتظر ہوں، سب ہاں میں ہاں ملانے کو تیار ہوں تو ظلم کی لاٹھی اٹھانے والے کے ہاتھ کون روکے گا؟ کار جہاں کتنا بوجھل سا لگے گا۔

سوچیں ایک ایسی دنیا جہاں سب محتاط ہوں، سب محفوظ رستے ہی چننے لگیں، پھونک پھونک کر قدم اٹھائیں۔ سوچیں کہ حضرت آدم کے یہ بیٹے بیٹیاں وسوسوں کی زنجیر میں قید ہوں اور یہ رسک یعنی خطرے مول لینا چھوڑ دیں تو عشق و جنون کے راستے پہ کون جائے گا؟

سوچیں اگر یہی فائدے نقصان کا منطقی حساب کتاب حضرت ابراہیم نے لگایا ہوتا تو آتش نمرود کو ٹھنڈا ہوتا دیکھنے کا معجزہ کبھی ہوتا ہی نہیں۔ حضرت موسیٰ اگر یہی سوچتے رہ جاتے کہ میرے ہاتھ میں لکڑی کی یہ بےجان لاٹھی کیا کرے گی تو کبھی فرعون کے جادوگروں کو اژدھا منہ توڑ جواب نہ دے پاتا۔

ساری دنیا اگر اوسط درجے کے خیال لیے ہوتی اور بزدلی کو معاملہ فہمی کا نام دے دیا جاتا تو نہ کہیں باطل سے جنگیں ہوتیں، نہ یہاں پیغمبر آتے، نہ انکار کی جرات ہوتی، نہ اقرار کی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر دور میں جنوں کو زندہ رکھنے والے آتے ہیں، زمانہ انکار کرنے والوں کو دیکھتا آ رہا ہے، وقت نے سوال پوچھنے والوں کو بھی مہلت دی ہے۔

آپ سائنس کو ہی لے لیجیے۔ عجیب علم ہے کہ صرف اسی کو جواب دیتا ہے جو پہلے سے موجود، مستند اور رائج حقیقت کو چیلنج کر دے۔ ہزاروں ادیب و شاعر لفظوں سے کھیلتے رہتے ہیں مگر جو لفظوں کو خیال کی بلندی دے زمانہ اسے یاد رکھتا ہے۔ زندگی کے ہر رنگ ہر ڈھنگ میں جدت کی کوئی روشنی ہے تو وہ اسی انکار، چیلنج اور سوال کی وجہ سے ہے۔

معلوم ہے منطق میں نوجوانوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ سوال اور انکار جیسے موضوعات زمانہ قدیم سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں مگر پھر بھی اظہار کرنا ضروری ہے، یہ کہنا ضروری ہے کہ جو مختلف سوچتا ہے اسے جینے دیں، جو سوال پوچھے اسے جواب نہیں دے سکتے تو نہ دیں مگر آوازیں خاموش نہ کرائیں۔

یہ ہتک عزت، یہ توہین عدالت، وطن فروشی کے نعرے، یہ غداری کے طعنے اگر اتنے ہی کارآمد ہوتے تو دنیا آج بھی یہی سمجھ رہی ہوتی کہ زمین اس کائنات کا مرکز ہے۔ وہ تو بھلا ہو اطالوی سائنسدان گلیلیو کا جس نے بتایا کہ ہماری زمین جیسی اور بھی دنیائیں ہیں۔ گلیلیو کا نام آج بھی زندہ ہے، اسے غداری اور توہین مذہب کے جرم میں عمر قید سزا دینے والے چرچ و سیاست کے کرتا دھرتا ایسے گمنام ہوئے، جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔

آج اگر ریاست، حکومت، عدالت اور نظام کو یوٹیوب سے مسئلہ ہے، کل کوئی اور ایپ آ جائے گی، کوئی دوسری ویب سائٹ حشر سامانیوں کے ساتھ وارد ہو جائے گی۔ وہ دور جس میں معلومات تک رسائی سیکنڈز کا کام ہو، آپ زبانیں کہاں تک روکیں گے؟

آج اگر صحافیوں میں مطیع اللہ جان یا ججز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کھٹک رہے ہیں تو سوال کرنے والے یہ پہلے یا آخری افراد تو نہیں۔ شخصی آزادی اور شعور و آگہی پر اگر جسٹس مقبول باقر نے علمی بحث ایک فیصلے میں چھیڑ دی تو یہ بھی اس کتاب کا آخری ورق نہیں۔

نوجوان وکلا اب اگر آئین کے آرٹیکل کو بنیاد بنا کر ریاست سے کچھ پوچھ لیں تو اس میں برا کچھ بھی نہیں۔ کوئی فزکس کا پروفیسر عمر بھر اپنے طالب علموں کو صرف سوال کرنے کی ہمت دلاتا رہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟

جبکہ ہم جانتے ہیں کہ قومیں ایسے ہی جی دار لوگوں سے بنتی ہیں جو رسک لینا جانتے ہیں، تاریخ ہمیشہ انکار کرنے والوں کو جھک کر سلام کرتی ہے، ایک سوال دنیا کی سمت بدل دیتا ہے پھر کیوں بضد ہیں کہ متضاد یا مختلف کوئی نہ سوچے؟ کیوں یہ اصرار ہے کہ قومی سلامتی اسی میں ہے اگر ہم اوسط سوچ والے مشینی پرزے بن جائیں؟ ایسے بے جان پرزے جنہیں بس حالات کو ناپ تول کر، دبے قدموں چلنے کا ٹاسک دیا گیا ہو۔

میرے پیارے پاکستان کا صحن اتنا تنگ نہیں کہ جہاں مختلف سوچ، نظریات اور تضادات والے ایک ساتھ جی نہ سکیں، ساتھ کھیل نہ سکیں اور ہار جیت میں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکیں۔

قوم اطمینان رکھے کہ سوال کرنے والے کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انکار کرکے خمیازے بھگتنے والے اب بھی ہم میں پائے جاتے ہیں۔

گھسی پٹی کہنے کی بجائے اپنی سی کہنے والے، دیکھے بھالے راستوں کو چھوڑ کر نئی ڈگر پر چلنے والے ختم نہیں ہوئے۔

About The Author