نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری

یہ آمر وزراء اعلیٰ لازمی ہے بزدار صاحب تو ہو ہی نہیں سکتے، جام کمال کے لیے ایسا تصور کرنا اپنے آپ کو شرمندہ کرنے کے برابر ہے

ملکی وفاق کے اندر صوبوں کی مظلومیت کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی تاریخ۔ وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کے وزیر اعظم سے لے کر وفاقی وزرا تک سب وفاق کی مظلومیت کا ماتم کر رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد وفاقی ماڈل ہوگا، جہاں صوبائی خود مختاری اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کے لیے چاروں صوبوں ( تخت لاہور کو استثنا حاصل ہے، باقی سرائیکی وسیب پڑھا اور سمجھا جائے ) میں سے ہر ایک صوبے میں چار سے زیادہ سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں اور ان کا بنیادی نکتہ وفاق سے صوبوں کو حقوق دلانا ہے۔

ان حقوق کے لیے کچھ سیاسی جماعتیں نئے عمرانی معاہدے کی بات کرتی رہی ہیں، اور ان میں سے کچھ 1940 کی قرارداد کے تحت صوبائی اکائیوں کے حقوق چاہتی ہیں۔ قوموں اور صوبائی اکائیوں کے حقوق پر مبنی نیا عمرانی معاہدہ تو دور کی بات ہے یہاں ”عمرانی حکومت“ کے اس سنہری دور میں صوبوں کو 1973 کے آئین میں کی گئی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد جو حقوق ملے ہیں ان میں وزیراعظم پاکستان کو آمرانہ بو آ رہی ہے۔ وزراء اعلیٰ، جناب وزیر اعظم کو آمر لگتے ہیں۔

ایم کیو ایم۔ پاکستان سے ویسے تو بدین۔ سندھ سے الیکشن لڑنے والے مرزا خاندان کے بڑے اختلافات ہیں مگر وفاق کی مظلومیت کے اس ماتم میں وہ بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے قائد مصطفیٰ کمال بھی دکھ کی اس گھڑی میں مظلوم وفاق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وفاق کی مظلومیت کا پنڈی والوں کا لکھا نوحہ ابھی دیکھیں اور کس کس کو پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ الطاف حسین کے سابقہ وکیل بیرسٹر فروغ نسیم، ایم کیو ایمی سینیٹر بیرسٹر سیف علی خان اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا وفاق کی مظلومیت پر لکھا نوحہ پڑھتے نہیں تھکتے۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی وہ قوم پرستانہ قسمیں، ان کے وہ سندھی قوم کے لیے سر دینے کے دعوے، ان کے وہ سندھ کے بچوں اور بچیوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑنے والے وعدے اب سب اس قوم کے بھولپن کی نظر ہو گئے۔ تاریخ کا جبر تاریخ کا جبر ہوتا ہے۔ آج بیرسٹر فروغ نسیم، بیرسٹر سیف علی خان ایم کیو ایم پاکستان کے دیگر رہنما اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی زبان ایک ہے، ان کی بات کا متن ایک ہے اور ظالم صوبوں کے خلاف پارلیمانی لڑائی لڑنے کا مشن ایک ہے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ وفاق کی مظلومیت کا نوحہ مزید دیکھیں سندھ سے پنڈی والے اور کس، کس سے پڑھاتے ہیں۔

عمرانی حکومت نے سرائیکی صوبہ بنانا تھا، نیا سرائیکی صوبہ تو اس بدترین جمہوری حکومت میں کیا بننا تھا، موجود صوبائی اکائیوں کے جو آئینی حقوق ہیں وہ بھی اب خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ میڈم ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے فرمایا ہے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں وفاق کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں۔ اور جناب فلسفی وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ دفاعی بجٹ میں صوبے وفاق کی مدد کریں، وفاق کے ہاتھ خالی ہیں۔ مظلوم وفاق کا کیس اب ظالم صوبوں کے عوام کے پاس ہے۔

یہ آمر وزراء اعلیٰ لازمی ہے بزدار صاحب تو ہو ہی نہیں سکتے، جام کمال کے لیے ایسا تصور کرنا اپنے آپ کو شرمندہ کرنے کے برابر ہے، خیبر پختونخوا کو تو اس دور حکومت میں آمرانہ اختیار مل نہیں سکتے، تو کہیں یہ بات پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے لیے تو نہیں کہی گئی؟ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کا تنازع بھی اس وفاق میں نیا نہیں۔ آبادی کے بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم پر بلوچوں اور سندھیوں کو سخت اختلاف رہا ہے۔ ایک بار بلوچ لیڈر ثنا بلوچ سینیٹ پاکستان میں کہہ رہے تھے اگر این ایف سی ایوارڈ آبادی کے بنیاد پر دینا ہے تو گولیاں اور لاشیں بھی آبادی کے بنیاد پر دینی چاہییں، اس میں بھی برابری کی ضرورت ہے، بلوچوں کے ساتھ اس تقسیم میں بھی امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔

اب جب انصافی، ایم کیو ایمی اور بدینی مرزا مظلوم وفاق کا ایک ساتھ ماتم کر رہے ہیں تو صوبائی حقوق کے نام پر بنی سیاسی جماعتیں اس ضمن میں مکمل خاموش ہیں۔ کم سے کم سندھ اور بلوچستان کی صوبائی و قومی حقوق کے نعرے کی سیاست کرنے والی جماعتوں کی آواز تو برملا سنائی نہیں دے رہی، کہیں انہوں نے بھی مظلوم کا ماتم تو جوائن نہیں کر لیا؟

About The Author