مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئی نسل بمقابلہ پرانے لوگ۔۔۔ گلزار احمد

ہم سب گاوں کے دوست سر جوڑ کر بیٹھے اور منصوبہ بندی شروع ہوئی کہ پانچ روپے کی ایک بڑی رقم کا کیسے بندوبست کیا جاۓ

میں جب چھوٹا تھا تو ماں کو کوئی کھلونا لینے پر مجبور کرنے یا قلفیوں فالودہ کے پیسے لینے کے لیے اپنی طرف سے خوب ہوشیاری دکھاتا مگر ٹیکنیکلی اتنا کودن تھا کہ میری تمام چالاکی ماں کو پتہ چل جاتی اور پیسے تو مل جاتے مگر یہ دکھ رہتا کہ ماں کو دھوکہ دینے میں ناکام ہو گیا۔بس بچپن میں ماں کو دھوکہ دے کر پیسے لینے کا مزہ  کجھ ھورتھا۔

ایک دفعہ ہم دوستوں نے ایک چھوٹی فٹ بال خریدنی تھی۔ چنانچہ مجھے رقم کا بندوبست کرنے کا کہا گیا۔ اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ میں بابا کو کہتا اور اس نے بغیر دوسرا سوال کرنے کے ایک اچھی فٹ بال خرید کے دے دینی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ گاوں کے لڑکوں کی ہماری مخالف ٹیم کے پاس جو فٹ بال تھی ہم وہ خریدنا چاہتے تھے اور خطرہ یہ تھا کہ بابا شاید ہماری پسند کی بجاۓ اس سے بھی اچھی فٹبال خرید دیں اور ہماری ٹیم کو یہ نامنظور تھا۔

ہم سب گاوں کے دوست سر جوڑ کر بیٹھے اور منصوبہ بندی شروع ہوئی کہ پانچ روپے کی ایک بڑی رقم کا کیسے بندوبست کیا جاۓ۔دیہاتی لڑکے اگرچہ اتنے سوشل تو نہیں ہوتے مگر بلا کے سیانے ہوتے ہیں ۔ طرح طرح کی تجاویز سامنے آئیں اور آخر ایک تجویز کی منظوری دی گئی۔

دوسرے دن ہم دو لڑکے اپنے گاوں سے تین کلومیٹر دور ایک جگہ پہنچے جہاں کوچی افغانیوں نے اپنی قلقیاں یا خیمے لگا رکھے تھے اس وقت ان کو پوندے کہتے تھے مگر یہ پاوندہ قوم والے نہیں تھے۔ ان کُوچیوں کے پاس ایک خاص قسم کے کتوں کی نسل ہوتی ہے جو گولڈن بف مرغی کی طرح زرد ہوتے ہیں اور گھر کی خوب حفاظت کرتے ہیں۔ یہ ان کتوں کے آدھے کان کاٹ دیتے تھے یہ پتہ نہیں اس میں کیا حکمت تھی۔

تقریبا” پندرہ دن عمر کے دو خوبصورت پلے اس جگہ ہم نے تاڑ رکھے تھے اور ایک کو اٹھانا تھا تاکہ کسی بہانے پیسے حاصل کیے جا سکیں۔دن کو کوچی مرد بھیڑیں چرانے دور نکل جاتے انکی عورتیں یا خیرات مانگتی یا پانی بھرنےاور لکڑیاں چننے دور چلی جاتیں۔ ہم ایک دو دن ان پلوں کو روٹی کھلا کر دوست بنا چکے تھے اور ان میں سے ایک کو اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا کر واپس گاوں آ گیے۔

خیر اب میں اپنی بغل میں چھوٹا پیارا کتا دباۓ گھر کے صحن میں داخل ہوا اور ماں سے کہا کہ پانچ روپے میں خریدا ہے اور روپے دیں۔ماں نے کہا کیوں خریدا ہمیں تو ضرورت نہیں۔۔میں نے بتایا کہ گھر کی حفاظت کے لیے کتا بہت ضروری ہے گاوں میں اور لوگوں کے پاس بھی ہیں ہمارے گھر اس کا ہونا ضروری ہے۔خیر میں نے کتا چھوڑا تو وہ میری ماں کے پاوں چاٹنے لگا ویسے بھی کتے کے چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ماں کو کتے پر یا مجھ پر ترس آ گیا۔ ماں نے اس کو ایک پیالے میں دودھ اور روٹی کے ٹکڑے ڈال کر کھلا دیے وہ خوشی خوشی گھومنے لگا مجھے پانچ روپے دیے اور باھر ہم دوستوں نے نعرہ لگایا اور شام کو فٹ بال آ گئی جو ہم نے دریا سندھ کی ریت کے بیٹ پر جا کر خوب کھیلی۔

دوسرے دن کوچی افغانی خیرات لینے آئی تو اس نے اس پلے کو دیکھا تو ماں کو بتایا کہ یہ ان کا ہے بہرحال اگر بچے خوش ہوتے ہیں تو رکھ لیں ہمارے پاس دوسرا بھی ہے۔ خیر یوں سمجھیں اب وہ کتا ہماری قانونی ملکیت ہو گیا۔ماں بھی خاموش رہی اسے پتہ چل چکا تھا کہ لڑکوں نے فٹبال لینی تھی مجھے کچھ نہیں کہا کیونکہ اگر کوچی کتا واپس لینا چاہتے ماں نے کہ دیا لے جاو مگر وہ بھی خوش تھے کہ ان کا کتا اچھی دیکھبال میں آ گیا۔

اب نئی نسل کی گیم دیکھیں ۔میرا پوتا سکستھ روڈ راولپنڈی کے صدیق پبلک سکول میں جب دوسری کلاس میں پڑھتا تھا ایک دن شام کو گھر آئس کریم لینی تھی میرے پاس آیا کہ بابا آپ یہ بتائیں آپ کو بجلی چلی جانے اور بجلی آنے کی دعا آتی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کبھی یہ دعا پڑھی نہیں تھی۔

بتایا نہیں آتی۔کہنے لگا ہمیں مِس نے سکھائی ہے میں آپ کو سکھاتا ہوں۔جب بجلی آ جاے آپ کہیں الحمدوللہ۔۔اگر اچانک بجلی چلی جاے تو کہیں ۔۔استغفراللہ۔ مجھے ہنسی آ گئی ۔پوتے نے کہا اس سبق سکھانے کی کوئی فیس نہیں بس آپ ایک پیک آئس کریم دلوا دیں۔ آئس کریم والے کا میوزک گلی میں بج رہا تھا وہ رقم لے کر گیا اور آئس کریم انجاے کرنے لگا۔میں ا س کے انداز استادی پر عش عش کر اٹھا۔

گزشتہ ہفتے ڈیرہ میرے گھر میری بیٹی اور اسکے دو بچے یہاں آے اور شام کو واپس جانے لگے تو میں نے ان دو بچوں کے ہاتھ سو سوروپے کے کچھ نوٹ تھما دیے کہ گھر آئس کریم لے کر کھانا۔میرے پوتے کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔جونہی وہ لوگ چلے گیے میرے پوتے ون بائی ون میرے پاس آۓ اور ہاتھ پھیلا کر مجھے لپٹتے ہوۓ کہنے لگے بابا عید مبارک۔۔۔ یار عید کو تو ایک مہینہ گزر گیا یہ کیا؟ بچوں نے کہا..

عیدی تو ہر وقت دی جا سکتی ہے اور اُتنی ہی رقم وصول کر کے سکور برابر کر دیا جتنے نواسوں نے لی تھی۔ اس کو کہتے ہیں ٹیکنیکل ناک آوٹ۔۔پروین شاکر نے ایسے تو نہیں کہا تھا؎ بچے ہمارے عھد کے چالاک ہو گیے۔ میں بیوی کو کہ رہا تھا کہ چائے بناٶ تو بیگم نے کہا دودھ نہیں ہے۔

میرا ڈیڑھ سال کا پوتا مجتبی حسن یہ گفتگو سن رہا تھا۔وہ باتیں تو کرنا نہیں سیکھا مگر سمجھ جاتا ہے اس نے دودھ کا برتن جو اس کے قد کے برابر تھا اٹھایا اور میری چائے کے لیے دودھ لینے چلا گیا جس کی آپ وڈیو دیکھیں۔میں سمجھتا ہوں ہم پرانے لوگ جسمانی طور بہت محنت کر لیتے تھے مگر اتنے creative نہیں تھے جتنے ہماری نئی نسل ہے۔اللہ تعالے اس نئی نسل کو نیک اور ملک و قوم و ماں باپ کے لیے خوش بخت بنائے آمین

%d bloggers like this: