اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان حکومت کی تبدیلی کیلئے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) متحرک

سابق صدر آصف زرداری نے جوڑ توڑ کے لئے ایک بار پھر قریبی ساتھی قیوم سومرو کو ٹاسک دیدیا

بلوچستان حکومت کی تبدیلی کیلئے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) متحرک

سابق صدر آصف زرداری نے جوڑ توڑ کے لئے ایک بار پھر قریبی ساتھی قیوم سومرو کو ٹاسک دیدیا

بلوچستان عوامی پارٹی سے سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سمیت بعض اراکین بھی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے ناخوش

30اراکین کی حمایت موجود ہے،حکومت کی تبدیلی کیلئے مزید 3اراکین بھی جلد شا مل ہو جائیں گے،اپوزیشن جماعتوں کا دعوی

مسلم لیگ (ن) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک ووٹ بھی ملے گا، ایک آزاد رکن کا ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اے این پی کے چار اراکین پہلے ہی ہمیں تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں،پی پی پی،جے یو آئی ف

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 10اراکین بھی اب اپوزیشن کی حمایت کریں گے، ذرائع

 بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سردار اختر مینگل گروپ کو دی جائے یا پھر اختر مینگل خود قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور وزارت اعلیٰ سنبھالیں،زرداری نے مولانا کو آمادہ کرلیا

 اپوزیشن جماعتیں بلوچستان سے آئندہ سینیٹ کے انتخابات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گی
بلوچستان حکومت کی تبدیلی کے لئے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) متحرک ہو گئی ہیں

اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جوڑ توڑ کے لئے ایک بار پھر اپنے قریبی ساتھی قیوم سومرو کو ٹاسک دیدیا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے

سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سمیت بعض اراکین بھی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے خوش نہیں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کی کراچی میں

جو ملاقات ہوئی تھی اس میں بلوچستان حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے فیصلہ ہوا تھا اور اسی فیصلے کے تناظر میں آصف زرداری نے اپنے قریبی ساتھی قیوم سومرو کو اب بلوچستان میں ڈیرے ڈالنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ

ان کے پاس 30اراکین کی حمایت موجود ہے جبکہ حکومت کی تبدیلی کے لئے مزید 3اراکین بھی جلد ان کے ساتھ مل جائیں گے۔جے یو آئی (ف) اور پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک ووٹ بھی انہیں ملے گا، ایک آزاد رکن کا ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ

اے این پی کے چار اراکین پہلے ہی ہمیں تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 10اراکین بھی اب اپوزیشن کی حمایت کریں گے، اس حوالے سے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو آمادہ کرلیا ہے کہ

بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سردار اختر مینگل گروپ کو دی جائے یا پھر اختر مینگل خود قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور وزارت اعلیٰ سنبھالیں۔جمہوری وطن پارٹی کا ایک رکن اور متحدہ مجلس عمل کے 11اراکین بھی جام کمال کے

خلاف متحرک ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو اوربلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے تین اراکین کو بھی توڑا جائے تاکہ اپوزیشن کو 35سے 36اراکین کی حمایت حاصل ہو اور بلوچستان کی حکومت گرائی جاسکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت حکمران اتحاد تحریک انصاف کو 36اراکین کی حمایت حاصل ہے جس میں تحریک انصاف کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے 24، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے تین اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو اراکین شامل ہیں۔

دوسری طرف ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بھی وزیراعلیٰ بلوچستان سے خوش نہیں ہیں

اور ان کی سولو فلائٹ کی وجہ سے خاموشی کیساتھ وہ بھی چاہتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کا امیدوار تبدیل ہو۔آصف زرداری مولانافضل الرحمن کو یہ بھی یقین دلا چکے ہیں کہ

اپوزیشن کی جماعتیں بلوچستان سے آئندہ سینیٹ کے انتخابات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گی تاکہ ان کی سینیٹ میں نمائندگی برقرار رہے۔

%d bloggers like this: