“ زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا، حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا، اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں” بھی کہنا جرم ہے
“کیسے” بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسّر ہے
مگر
زندہ رہنے کیلئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس “کچھ اور بھی” کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
! اے خداوندانِ ایوانِ عقائد
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیئے!
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے
احمد ندیم قاسمی جیسی بلند پایہ ہستی نے انسانی خواہشات اور ضروریات کے منہ زور دریا کو اس نظم کے ذریعے گویا کوزے میں بند کردیا۔مذکورہ بالا نظم محض زور قلم کا نتیجہ نہیں اور نا ہی لفاظی میں شمار ہوتی ہے ۔یہ نظم تو عصر حاضر کے عام انسان کا بیانیہ ہے۔اور یہ عام انسان کون ہے؟ یہ عام انسان وہ ہے جس کی فلاح و بہبود کی خاطر حکومتیں قائم ہوئیں۔جس کی بہتر زندگی کے بلند بانگ دعوے کر کے کچھ لوگ خاص انسان کا درجہ پا کر ان عام انسانوں کے مقدر ،اور ان کے سیاہ وسفید کے مالک بنے۔ترقی ہوئی اور ضرور ہوئی مگر اس ترقی سے فیض یاب خاص انسان ہی ہوئے۔زندگی کی ہر ضرورت ان خاص لوگوں کا مقدر بنی اور عام انسان کو ان خاص انسانوں کی طرف سے مقرر کیئے گئے مُلاں ، پنڈت اور پادری نے بعد از موت ایک بہترین اور شاندار زندگی کی نوید سناتے ہوئے صبر کرنے کی تلقین کی۔بد ترین زندگی کو مقدر کا نام دے کر عام انسان کے سوچنے ، سمجھنے اور سوال کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔اور ویسے بھی فکر معاش میں صبح سے شام تک سرگرداں عام انسان کے پاس سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے۔پیٹ کا جہنم بھرنے کی فکر میں پریشاں انسان کو کسی چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔اور باقی رہا سوال تو عام انسان کو ویسے بھی سوال کرنے کا اختیار کس نے اور کب دیا ہے۔
سوال بھی تو کئی طرح کے ہوتے ہیں۔کچھ سوال کسی قضیے کو سمجھنے کی خاطر ہوتے ہیں جبکہ کچھ سوال کسی معاملہ کی وضاحت کی خاطر ہوتے ہیں ۔سمجھنے کا وقت نہیں اور ارباب اختیار سے وضاحت کون طلب کرسکتا ہے۔ رعایا کا اختیار نہیں کہ وہ سوال کرئے اور جواب طلب کرئے۔عام انسان کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ مقدر کے ہارے ہوئے سوال نہیں کرتے صرف جواب دیا کرتے ہیں۔اور اسی وجہ سے زندگی کے ہر مرحلے پر جواب دہ عام انسان مرنے کی آس میں زندگی گذارے جارہے ہیں۔مقدر کے کوہلو پر رات دن چکر لگانے والے ان محنت کش بیل نما انسانوں کی آنکھوں پر مجبوری کی پٹیاں باندھ دی گئی ہیں۔یہ دن رات چل رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ رستہ کٹ رہا ہے۔نہ ہی ان کی آنکھوں سے مجبوریوں کی پٹیاں کھولی جاتی ہیں اور نا ہی ایک خاص حد سے آگے دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔عقیدے کی طاقتور رسی سے بندھے یہ سوال بھی نہیں کرسکتے کہ اگر یہ مقدر ہے تو پھر ان کا ہی ایسا مقدر کیوں ہے؟اب ان کو کون بتائے کہ یہ ان کا مقدر نہیں ہے مگر بنا دیا گیا ہے۔
کیا صرف سانس لینا ہی زندگی ہے؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر عام انسان تھک کر زندگی کی بازی کیوں ہار جاتا ہے۔منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اپنے سفر کو اپنے ہاتھوں سے ختم کیوں کردیتا ہے۔نہروں اور دریاوں میں کود کر خودکشی کرنے والوں کو کم سے کم سانس لینے کی تو آزادی تھی تو پھر خودکشی کیوں کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض سانس لینا ہی زندگی نہیں ہے۔بلکہ زندہ رہنے کے لیئے سانس لینے کے علاوہ بھی بہت کچھ ضرورت ہوتا ہے اور یہ بہت کچھ اور ہی وہ بنیادی ضروریات ہیں جو کہ عام انسان کو میسر نہیں ہیں۔اور اس بہت کچھ اور کے لیے ہی ملک بنے ، حکومتیں قائم ہوئیں، آئین اور قوانین بنے، اس ضمن میں بہت کچھ ہوا مگر سانس کے علاوہ کچھ اور دستیاب نا ہو سکا۔
آئین و سیاست اور ایوان عقائد کے خاص انسانوں اپنے گرد وپیش میں بسنے والے عام انسانوں کو سانس لینے کے علاوہ بھی کچھ دے دو۔ملک کے نام پر ، مذہب کے نام پر ، مقدر کے نام پر عام انسانوں سے کھلواڑ بند کرو۔یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ یہ سب کچھ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔گزشتہ سات دہائیوں سے ملک کی اشرافیہ نے عام انسانوں سے اچھا سلوک نہیں کیا۔عام انسان بنیادی ضروریات زندگی کو ترستا رہا۔دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا رہا۔عمر بھر اپنی چھت کی چھاوں میں بیٹھنے کے لیے بے بسی کی دھوپ میں جھلستا رہا مگر اس کو کچھ میسر نہ آیا۔ہر بار ایک نیا تماشہ کیا گیا اور ماضی کی طرح ایک بار پھر نئے تماشے کی تیاری کی جارہی ہے۔نظام کو بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔بدل دو جو چاہے بدل دو مگر اس بات کی یقین دہانی کرا دو کہ اس تبدیلی سے عام انسان کی موجودہ ابتر حالت بہتر ہوجائے گی۔اس کو سانس لینے کے علاوہ کچھ اور بھی میسر ہوگا۔وہ بھی خواب دیکھ سکے گا اور اس کو سوال کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔اگر یہ سب کچھ ہے تو ضرور بدل دو اس نظام کو اور اگر یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے تو پھر کیا فائدہ اس نظام کی تبدیلی سے۔ ایک تبدیلی تو کچھ وقت پہلے بھی لائی گئی ہے نیا پاکستان بنایا گیا ہے مگر یہ تو پرانے سے بھی بدتر نکلا۔نئے پاکستان میں بھی لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں۔نئے پاکستان میں جواب کس نے دینا ہے جب سوال کرنے کی اجازت ہی چھن گئی ہے۔
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
! اے خداوندانِ ایوانِ عقائد
زرا سوچیئے اگر عام انسان مرگئے تو خاص انسان حکومت کن پر کریں گے۔اپنے اقتدار کی خاطر عام انسان کو زندگی کے نام پر بند دروازے کھول دیجئے اور خواب دیکھنے جیسے کچھ جرائم کی اجازت دے دیجئے۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر