مطیع اللہ جان ہمارا قائداعظم یونیورسٹی کے زمانے کا دوست ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی میں وہ ڈیفنس اینڈ سٹریٹجی کا طالب علم تھا اور میں بین الاقوامی سیاست کا۔ یہ نوے کی دھائی کی بات ہے، تب جنرل حمید گل، جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا اسلم بیگ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ افواج پاکستان کے سینئر افسران کا ڈیفنس اینڈ سٹریٹجیک سٹڈیز میں کوٹہ ہوتا اور وہ دوران سروس یہاں تعلیم حاصل کرتے۔ ہماری استاد محترمہ شیریں مزاری ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھیں بہت سے نامور پروفیسر فیکلٹی کا حصہ ہوتے تھے۔
پاکستان کی افغان پالیسی افغانستان میں امن پاک امریکہ تعلقات پر سیمنار ہوتے جہاں اعلی عسکری اور سول شخصیات ان موضوعات پر اظہار خیال فرماتی اس زمانے میں پاکستان کی افغان پالیسی کو جغرافیائی گہرائی کے تناظر میں قومی سلامتی اور قومی مفاد میں ضروری خیال کیا جاتا اور جو چند آوازیں ان پر تنقیدی نقطعہ نگاہ سے بلند ہوتیں انہیں غیر محب وطن قرار دیا جاتا۔ ایسے میں یونیورسٹی انتظامیہ کے لئے بڑا مسلئہ مطیع اللہ جان کے تنقیدی سوالات کو کنٹرول کرنا ہوتا تھا مطیع طلبہ سیاست میں بھی سرگرم تھے۔ اس زمانے میں جمعیت کو جن نظریاتی طلبہ کے اثر و رسوخ سے خطرہ محسوس ہوتا مطیع کا شمار ان میں ہوتا۔
آج ہماری اعلیٰ عدلیہ کے منصفوں نے مطیع اللہ جان کے ٹوئٹس جو کہ ایک عدالتی فیصلے سے متعلق تھے کا نوٹس لیتے ہوئے مطیع اللہ جان کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدلیہ کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منصفوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ بادشاہوں اور منصفوں کے بارے میں گلی محلوں چوک چوراہوں میں کیا تبصرے ہوتے ہیں۔ اس پر منصفوں اور بادشاہوں کو بے نیازی اختیار کرنی چاہیے اور سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیئے۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو سن تو سہی تیرا فسانہ ہے جہاں میں کیا کہ مصداق عوامی جزبات امڈ آئیں گے اور جہاں تک مطیع اللہ جان کا معاملہ ہے مجھے اس کی حق گوئی اور بیباکی سے ڈر لگتا ہے اور اسے یہ اپنے والد کرنل ر عباسی سے ورثہ میں ملی ہے جنہوں نے مطیع کو جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی تربیت کو بنیادی اوصاف میں قرار دیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر