ڈیرہ کی دھاونیاں ۔۔قدیم ریت
مقامی زبان میں دھاونیں در اصل دریا کے کنارے پکنک کو کہتے ہیں۔ جس کے لیے ڈیرہ کی شھری گرمیوں کے موسم میں دریائے سندھ کے کنارے چھٹی کے دن ٹینٹ وغیرہ لگا کر کھانا پکاتے۔نہاتے۔ ڈھول۔میوزک۔دریس ہوتی اور گپ شپ لگاتے ہیں۔ دریا کے ٹھنڈے پانی میں نہانے سے شدید گرمی سے بچت ہو جاتی ہے اور دوستوں سے ملنے کا پروگرام نکل آتا ہے۔ دھاونیں کی ریت صدیوں پرانی ہے اور اس کا بڑا پروگرام تھلہ بالو رام پر ہوتا تھا۔ تھلہ بالو رام ایک امیر بزنسمین سیٹھ بالو رام نے بنوایا تھا جو 1901ء میں انتقال کر گیا۔اس جگہ باغات۔کنویں ۔ہال اور ہندووں کا مندر وغیرہ تھا جہاں سادھو فقیر دریا کے کنارے بیٹھ کے عبادت کرتے۔ہر اتوار کو یہاں خوب رش اور رونق ہوتی اور پکنک دھاونی ہوتی اور لوک فنکار گیت گاتے۔لوگ ورزش بھی کرتے۔تھلہ بالو رام اب دریابرد ہو چکا ۔ یہ نیشنل کلب ڈیرہ کے مشرقی طرف دریا کی طرف تھا۔ بدقسمتی سے دریا میں سیوریج کا پانی ڈال کر اسے آلودہ کر دیا گیا اس طرح دریا کے کنارے دھاونی کی ریت ماند پڑ گئی۔ آجکل اس مقصد کے لیے دریا کے کنارے بڑے سویمنگ پول بن گیے ہیں لیکن پھر بھی بعض منچلے دریا کے کنارے جمع ہو کے دھاونی مناتے ہیں۔ ڈیرہ وال شغل میلہ کے شوقین ہیں اس لیے وہ دھاونی کو بورنگ اور سوئمنگ پول لے گئے مگر اس ریت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
سرائیکی زبان کا پِڑ ۔۔
مجھے پِڑ کے صحیح معنے تو نہیں معلوم مگر عام لوگ جب کبڈی۔کُشتی۔میلہ ۔تماشا دیکھتے تو اس کے گرد منظم ہو کر جمع ہو جاتے یا تو اس کو پِڑ کہتے یا وہ میدان یا جگہ جہاں مقابلہ ہوتا مگر پِڑ ہماری ثقافت کا حصہ تھا۔ پڑ کی سب سے بڑی مثال میلہ اسپان کا ڈیرہ اسماعیل خان میں میلہ تھا۔موسم بہار کے مہینے میں ہر سال چار دن کے لیے یہ میلہ منعقد ہوتا جس میں ملک کے چاروں صوبوں کے لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے۔ میلے میں نیزہ بازی۔رسہ کشی۔PTشو۔دودہ۔کشتیاں۔اعلی نسل کے جانوروں کے مقابلے۔اور زرعی ٹکنالوجی متعارف کرانے کے سٹال لگتے۔ہمارے بچپن کے ۔زمانے یہ ڈاکخانے کے سامنے پولو گراونڈ میں لگتا۔ قسم قسم کے کھانے پینے کے سٹال بھی لگاۓ جاتے۔آجکل یہ میلہ رتہ کلاچی شفٹ ہو گیا ہے۔ اس میلے کے ھزاروں شائقین پورے نظم و ضبط کے ساتھ ایک دائرے کی شکل میں اس طرح بیٹھتے کہ تمام ایونٹس سب کو نظر آتے۔آپ ماضی کی اس پرانی تصویر میں شائقین کے میلہ دیکھنے کا پِڑ دیکھیں۔ اس دفعہ کرونا وائرس اس میلے کو بھی کھا گئی۔
ڈیرہ اور ثوبت کی منفرد ڈِش ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جتنی زیادہ ثوبت کی ڈش استعمال کی جاتی ہے شاید ہی کوئی اور ڈش استعمال ہوتی ہو۔یہ ہماری سیکڑوں سال پرانی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ کچھ علاقوں میں اسے پینڈا کہتے ہیں۔عربی میں ثرید کے نام سے یاد کی جاتی۔ثوبت پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور جس ہاتھ سے پکائی جاتی ہے اس کا علیحدہ ذائقہ ہوتا ہے۔ ثوبت پکانے کی Recipe ریسیپی میں بھی تھوڑا فرق ہے۔البتہ اس کے لیے جو روٹی استعمال ہوتی ہے وہ کاغذ کی طرح پتلی ہوتی ہے جسے یہاں مانے کہتے ہیں۔ کلاچی کی ثوبت ۔دامان کی ثوبت ۔شھر کی پکی ثوبت اپنا اپنا علیحدہ منفرد ذائقہ اور خوشبو رکھتی ہے۔ ثوبت بنانا ایک ہنر skill ہے ۔ ڈیرہ کے دوست کمنٹس میں بتائیں گے کہ مختلف علاقوں میں یہ کیسے بنتی ہے۔
ہمارے گاٶں کے چراغ اور لوڈشیڈنگ۔
جب گاٶں میں بجلی نہیں آئی تھی تو ہم گھروں میں مٹی کے چراغ روشنی کرتے جو سرسوں کا تیل ڈال کر جلائے جاتے۔یہ چراغ ہم لڑکے مل کر رمضان کی ستائسویں کی رات اپنی مسجد کی چھت پر بھی روشن کرتے جو دور سے نظر آتے۔ سنا ہے ہندو دیوالی کے تہوار پر یہ چراغ روشن کرتے ہیں۔پھر ایک ٹین کا بنا گول چراغ آیا جو کیروسین آئل سے جلایا جاتا۔ اس کے بعد چمنی والا لیمپ آیا۔یہ جرمنی کا بنا ہوا تھا اور بہت پسند کیا جاتا ۔میں جب پشاور سروس کرتا تو گاٶں کے لوگ فرمائش کر کے مجھ سے منگواتے جو باڑہ سے ملتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پریشر لیمپ ایجاد ہوا جس کا ایلیمنٹ ریشم کا تھا جو بہت زیادہ روشنی دیتا۔ یہ اکثر ہم شادیوں پر کرائے پر حاصل کرتے۔ چراغوں کی دنیا کے دو فائدے تھے ۔ایک تو چراغ کی روشنی میں کتاب کے جو چیپٹر پڑھے وہ آج تک یاد ہیں۔ قمقموں کی روشنی میں اب ہمیں سبق یاد نہیں رہتا۔دوسرا چراغوں کے وقت لوڈشیڈنگ نہیں تھی بلکہ اس کا نام بھی نہیں سنا تھا۔
چراغوں پر بہت زیادہ شاعری کی گئی وہ اب ہمارے دوست کمنٹس میں لکھیں گے۔
تیتر پالنے کا انوکھا شوق ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تہزیب وثقافت کے عجیب رنگ ہیں۔ اکثر ڈیرہ وال گورا تیتر اس طرح پالتے ہیں کہ وہ آگے آگے چلتے اور تیتر پیچھے ساتھ آزاد چلتا۔البتہ کالا مشکی تیتر ایک پنجرے میں بندپ ساتھ رکھتے۔ پھر ان تیتروں کے مقابلے بھی کرائے جاتے جسے تیتر چکری کہتے ہیں جس میں سیکڑوں لوگ دوسرے شھروں سے اپنے تیتر لے کر آتے۔ ۔اب آپ پاکستان کے لوگوں کی ڈیرہ والوں کے شوق میں دلچسپی دیکھیں کہ پورے ملک سے گزشتہ سال اس گرمی میں شوقین سات سو سے زائد تیتر لے کر ڈیرہ پہنچے اور مقابلے میں شرکت کی۔ یہ آل پاکستان کالا تیتر ٹورنامنٹ رتہ کلاچی سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا۔ پہلے دھشت گردی کی وجہ سے ایسے میلے ٹھیلے اور ٹورنامنٹ ملتوی رہے اس سال کرونا وائیرس نے سب کو گھر قید کر دیا۔ ڈیرہ وال تیتر پالنے اور ان کے مقابلے کرانے میں ملک بھر سے سب سے آگے تھے اور یہ مقابلہ ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا تھا۔ ٹورنامنٹ میں تیتر کے مقابلے میں آوازیں گنی جاتی ہیں اور ہر تیتر پر ایک ریفری انکی آوازیں گننے پر مقرر ہے جو تیتر سب سے زیارہ دفعہ آوازیں دیتا رہے وہ ٹورنامنٹ جیت جاتا ہے۔تیتر کو بادام۔پستہ۔زعفران۔مشک۔اور قیمتی جواھرات کھلانے کے ساتھ ساتھ کثرت کرائی جاتی ہے۔تیتر کی قیمت بیس ھزار سے انیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ تیتر کے مقابلے کی وجہ سے ہر صوبے کے لوگ آپس میں قریب آتے ہیں اورتیتر کے پنجرے کے ذریعے دوستیاں بنتی ہیں۔
نوٹ ۔۔تصاویر گزشتہ سال رتہ کلاچی سٹیڈیم ڈیرہ میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کی ہیں۔
مَکَھنڑ دا پیڑا ۔۔
گاٶں کی زندگی میں گائے ۔بھینس۔بکریاں پالنا بہت اہمیت رکھتا ہے تاکہ گھر خالص تازہ دودھ ملتا رہے۔ جو دودھ بچ جاتا پھر اسے ایک مٹکی میں ڈال کر دہی کی جاگ لگا دی جاتی۔ صبح خواتین اٹھ کر نماز و ذکر کے بعد پہلے چکی سے تازہ آٹا پیستیں پھر دہی کو بلو کر لسی اور مکھن نکالتیں۔ اس مٹوری میں تازہ مکھن تیرتا نظر آ رہا ہے۔خواتین روٹیاں پکا کر چنگیر میں رکھ دیتیں ایک کٹوری مکھن اور لسی کسی برتن میں ڈالکر کھیتوں میں اپنے گھر والوں کو پہنچاتیں جہاں کھلی فضا میں ناشتہ ہوتا ۔اسی مکھن کے پیڑے پر لطیفہ مشھور ہے جہاں عورتیں اپنے خاوند کا نام لینا گناہ سمجھتی ہیں ایک عورت جس کے خاوند کا نام مکھن تھا سے کسی نے پوچھا یہ کیا چیز ہے خاتون نے کہا یہ منے کا ابا تیر رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر