دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ۔۔۔ ظہوردھریجہ

عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی 28 اگست 1949ء کو عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے
دریائے سندھ کے کنارے میانوالی شعر و نغمے کی سرزمین ہے ۔ اس خطے نے بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا ، ان میں سے عمران خان اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی بھی ہیں ۔ عمران خان کرکٹ کے حوالے سے پوری دنیا میں شہرت پانے کے بعد اس وقت پاکستان کے 22 کروڑ عوام پر حکومت کر رہے ہیں جبکہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کروڑوں دلوں کے حکمران ہیں ۔
’’ عمران خان اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ‘‘میرے اس عنوان کا مقصد دونوں شخصیات کا موازنہ نہیں مگر عمران خان کے سیاسی مخالف میاں شہباز شریف مولانا فضل الرحمن اور بلاول زرداری ان کو نیازی کہہ کر چڑانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ نیازی بہت بڑا قبیلہ ہے اور اس قبیلے میں بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ۔
عطا اللہ خان کے والد انکی گائیکی کو نیازی قبیلے کی توہین سمجھتے تھے ، اس لئے عطا اللہ خان نے اپنے نام کے ساتھ نیازی کی بجائے عیسیٰ خیلوی لکھوایا ۔
گائیکی میں عطا اللہ خان نے اتنا بڑا نام کمایا کہ اب ہر نیازی کی خواہش ہے کہ میں بھی ایک عطا اللہ خان بنوں ۔ عمران خان 25نومبر 1952 ء کو اکرام اللہ خان نیازی کے گھر پیدا ہوئے ۔ کرکٹ کی دنیا میں نام کمایا ۔
1986-87 میں بھارت کی سرزمین پر بھارت اور انگلستان کو شکست دی ۔1991-92 میں پاکستان کو ورلڈ کپ دلایا ، کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا کر پوری دنیا سے داد و تحسین وصول کی ۔ رفاعی کاموں کے تمام عمل میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ان کے ساتھ رہے ۔
مرحوم دلدار پرویز بھٹی کی زندگی شوکت خانم ہسپتال کے کام آ گئی ۔ کیا یہ تمام باتیں عمران خان کو یاد ہیں؟ اگر نہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عمران خان کی حکمرانی عارضی ہے جبکہ جو لوگ دل کے حکمران ہوتے ہیں ، انکی شاہی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔
عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی 28 اگست 1949ء کو عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے ‘ خاندان کے دوسرے افراد ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے مگر انہوں نے خاندان کی مرضی کے خلاف آبائی پیشے سے بغاوت کی اور موسیقی کی دنیا میں آ گئےجو شروع سے ہی ان کے وجود میں بسی ہوئی تھی ۔ اسکول میں ترانے، نعت شریف اور نظمیں کہتے تھے ۔
کالج میں تعلیم کے دوران بھی اپنا سارا وقت موسیقی کے پرستاروں میں گزارا ۔1972ء میں ریڈیو پاکستان بہاولپور میں گانے کا موقع ملا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریڈیو بہاولپور سے ملنے والا 25 روپے کا چیک میں نے محفوظ کر رکھا ہے ‘ اگر اس کا کوئی مجھے 25 لاکھ بھی دے تو تب بھی نہ دوں گا۔لالہ کو پوری دنیا سے لاتعداد ایوارڈز ملے مگر لالہ نے ہمیشہ کہا میرا اصل ایوارڈ میرے لوگوں کی محبت ہے۔
ایک غیر ملکی صحافی نے آواز میں درد کے بارے میں پوچھا تو لالہ نے کہا میرے سرائیکی میں دکھ ہی دکھ ہیں ، پانی تک نہیں تو پھر آواز میں درد نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ جھوک سرائیکی کی طرف سے عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی عظیم خدمات پر تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں انہوں نے کہا کہ میں خود کو بڑا گائیک نہیں سمجھتا ، ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔
تقریب پذیرائی کا انعقاد مورخہ 18 اپریل 2017ء کو ہوا ، اس موقع پرانہوں نے کہا کہ’’ نہیں محتاج زیور کا ، جسے خوبی خدا نے دی ‘‘ ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی دھنوں پر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ساتھ انڈیا کے فنکاروں نے بھی گایا
۔ ان کے آنے کے بعد سرائیکی کے فنکاروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی ہے اور شعر و نغمے کی سرزمین میانوالی میں نیازی خاندان سے تعلق رکھنے والے لاتعداد فنکار پیدا ہوئے ۔ لالہ عطا اللہ نے سرائیکی شاعری اور شاعروں کو بھی نام دیا ۔ فاروق روکھڑی ‘ سونا خان بے وس ‘ ملک آڈھا خان ‘ مجبور عیسیٰ خیلوی ‘ افضل عاجز ‘ مہجور بخاری ،مظہر نیازی اور ان جیسے ہزاروں شاعر عطا اللہ خان کی وجہ سے وسیب میں مشہور ہوئے ۔
عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی وسیب کے واحد فنکار ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ، کتابیں شائع ہوئیں ، اخبارات اور رسائل میں بھی بہت مضامین آئے ، دنیا میں جہاں بھی فوک موسیقی کا تذکرہ ہوگا تو لالہ کا نام سر فہرست ہوگا اور ریسرچ سکالر ان پر پی ایچ ڈی کریں گے ۔
لالہ نے 1975ء میں ٹیلی ویژن پر طارق عزیز کے پروگرام ’’ نیلام گھر کو اپنی درد بھری آواز کے ذریعے چار چاند لگائے۔ اس کے بعد شہرت ان کے تعاقب میں ہوئی ۔ 1977ء میں چار کیسٹ ریکارڈ کرائے جو ملک میں زیادہ تعداد میں فروخت ہونے والے البم بن گئے۔
اس کے بعد کیسٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ آڈیو اور ویڈیو کیسٹ ریلیز ہوئے ، ان کے البمز کی تعداد 400 سے زائد ہے اور وہ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئے ۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سات زبانوں میں پچاس ہزار سے زائد گیت ریکارڈ کرائے مگر 90 فیصد سے زائد گانے سرائیکی میں ہیں ۔ 1994ء میں آپ کو سب سے زیادہ آڈیو البم ریکارڈ کرانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ، لالہ نے کیسٹ ٹیکنالوجی کو بام عروج تک پہنچایا ، یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی گائیکی کی وجہ سے لالہ کو اور لالہ کی وجہ سے سرائیکی کو بہت شہرت ملی ۔
بلوچ رہنما رؤف ساسولی نے کہا کہ سرائیکی لیڈروں سے عیسیٰ خیلوی کا کام بڑھ کر ہے۔ سرائیکی فوک کے عظیم گائیک عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی پاکستان کے طول و عرض ہی نہیں پوری دنیا میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں‘ اسرائیل و فلسطین کے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے اپنے فن کا مظاہرہ نہ کیا ہو ۔
عطا اللہ خان نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کے شعبے میں بھی کام کیا اور کئی فلموں زندگی ، قربانی ، دل لگی ، سناول اور ترازو میں ادکاری کی مگر فلموں کی ناکامی کے بعد انہوں نے اپنی توجہ گیتوں پر مرکوز کر دی ۔ فلم ٹھگ بدمعاش اور منڈا بگڑا جائے میں پلے بیک سنگر کی حیثیت سے گانے ریکارڈ کرائے ۔
1991 ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی آپ کو مل چکا ہے، لالہ نے ملکہ برطانیہ کوئین الزبتھ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور ایوارڈز دیئے گئے ۔ حال ہی میں 23 مارچ 2019 ء کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے فن کے شعبے میں بہترین خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز عطا کیا ۔

About The Author