قبل از ضیا دور میں جیسی کیسی بھی تاریخِ عالم و تاریخِ برصغیر نچلے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی تھی، اب اس کی تدریس بھی عنقا ہے۔
اس زمانے میں میٹرک تک ہر بچے کو تاریخ کا مضمون پڑھایا جاتا، بھلے یہ بچہ سائنس کا طالبِ علم ہو یا آرٹس کا۔یوں ہر بچے کو ماضی کے بارے میں سو فیصد نہیں تو کم ازکم چالیس فیصد سچ ضرور پڑھنے کو مل جاتا اور جو تاریخی کڑیاں غائب ہوتیں انھیں بچہ غیرنصابی کتابوں یا غیر اسکولی اساتذہ کی صحبت میں بیٹھ کر جوڑ لیتا۔تاریخ پڑھنے کا فائدہ یہ تھا کہ دماغ کا روشندان کسی حد تک کھل جاتا اور اس کے ذریعے حال پر پڑنے والی ماضی کی شعاعوں میں تھوڑا بہت مستقبل ٹپائی دے جاتا۔
رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ اسکول میں تاریخ کے نام پر معاشرتی علوم، اسلامیات اور شہریت وغیرہ کا گھٹالا بنا کر طالبِ علم کو چٹانے کا رواج پڑا۔نہ یہ مضمون تیتر رہا نہ بٹیر۔ چنانچہ بچہ بھی گول گول گھومنے لگا کہ میں کون ہوں، میرے اسلاف اور ان کی روایات کیا تھیں ؟ زیادہ تر کالجوں میں قائم شعبہِ تاریخ بھی مدت ہوئی تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گیا اور اب ہر بچہ آدھے سچ ، آدھے جھوٹ، کنفیوژن، نیم جہالت و نیم علمیت کی چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ سر پر رکھے جائے پناہ کی تلاش میں ہے۔
اس کا ناقابلِ تلافی نقصان یہ ہوا کہ اسکول و کالج کی حد تک جو تاریخی معلومات ہمیں روزمرہ کی داستانیں لگتی تھیں وہی معلومات جب آج کے بچے کو تنگ نظری و نیم جہالت کے موجودہ ماحول میں رہتے ہوئے منتقل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس بچے کو ہر تاریخی حقیقت نئی اور حیرت ناک لگتی ہے۔اس کے دیدے پھیل جاتے ہیں۔ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ واقعی سچ ہے یا استاد جی اپنے من سے کہانی گھڑ رہے ہیں۔
اس نسل کو کم ازکم تین عشروں سے یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ کائنات صرف مسلمانوں کے لیے بنی ہے اور اس کی تمام نعمتوں پر پہلا حق انھی کا ہے۔باقی سب ہیچ یا ہیچمداں ہیں۔جب میں نے تین برس پہلے ایم اے پریویس کے بچوں کو رواداری کے باب میں بتانے کی کوشش کی کہ جب اسلام مستحکم ہونے لگا تو رسول اکرم کے پاس عرب کے کونے کونے سے طرح طرح کے وفود آنے لگے تاکہ مکہ اور پھر مدینہ سے اٹھنے والی نئی انقلابی تحریک (اسلام) کے بارے میں اپنے تجسس کی تسکین کر سکیں۔
ایک بار نجران سے عیسائیوں کا وفد آیا۔رسول اللہ نے ان کا استقبال کیا۔اور جب تک وہ مدینہ میں قیام پذیر رہے۔مثالی مہمان نوازی کے تقاضے نبھاتے ہوئے کمال کشادہ دلی کے ساتھ مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں انھیں عبادت کی اجازت بھی دی۔یہ واقعہ سن کر طلبا کے منہ کھلے رہ گئے۔گویا ایسا کیسے ممکن ہے۔ان بچوں کا بھی کیا قصور۔انھوں نے تو کسی بریلوی مسجد میں کسی دیوبندی یا کسی دیوبندی مسجد میں کسی شیعہ کو گھستے نہیں دیکھا چے جائیکہ کسی غیر مسلم کو مسجد میں دیکھنے کا تصور کر سکیں۔
مجھے ان بچوں کی حیرت پر یوں حیرت نہیں کہ انھیں گھر میں یا مسجد کے منبر یا دینی اجتماعات کے اسٹیج سے چند مخصوص واقعات کے سوا ایسے واقعات بتائے کب جاتے ہیں جن سے دیگر مذاہب کے پیرو کاروں سے حسن ِ سلوک، انھیں برابری کا درجہ دینے اور اپنے جیسا ہی انسان سمجھنے کی بابت نئی نسل کی تربیت ہو سکے اور ان کے ازہان کھل سکیں۔
کتنی بار علما کے منہ سے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ جب خلیفہِ راشد دوم حضرت عمر ابنِ خطاب کی افواج نے بازنطینیوں سے یروشلم چھین لیا تو اس کے بعد آپ اس حالت میں شہر میں داخل ہوئے کہ اونٹ پر غلام بیٹھا تھا اور آپ نے مہار پکڑی ہوئی تھی۔عیسائی راہبوں نے آپ کا استقبال کیا۔ نماز کا وقت ہوا تو پیش کش کے باوجود گرجے کے اندر داخل نہیں ہوئے بلکہ سیڑھیوں پر نماز پڑھی تاکہ دیکھنے والوں اور آیندہ کے مسلمانوں کو تعلیم ہو کہ غیر مسلم عبادت گاہوں کی بھی اتنی ہی حرمت ہے جتنی کسی مسجد کی۔
ایک روائیت ہے کہ راستے میں حضرت عمر کی نظر پتھروںکے ایک ڈھیر پر پڑی جو کسی عمارت کے کھنڈرات کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔آپ کو بتایا گیا کہ پانچ سو برس سے یہودیوں کو یروشلم شہر میں عبادت کی اجازت نہیں ہے اور یہ کھنڈر یہودی معبد کا ہے۔آپ پر جانے کیا کیفیت طاری ہوئی کہ روتے جاتے اور گرد میں اٹے پتھر ہٹاتے جاتے۔آپ نے حکم دیاکہ اس معبد کو استوار کیا جائے اور مزید حکم دیاکہ یہودیوں کی عبادت پر عائد پابندی ہٹائی جاتی ہے۔
جب سن چودہ سو باون میں اسپین سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا تو یہودیوں کو بھی ساتھ ساتھ ملک بدر کر دیا گیا۔ عثمانی سلطان بایزید دوم نے نہ صرف بے خانماں مسلمانوں بلکہ یہودیوں کو بھی پناہ دی۔نوے فیصد یہودی دارالحکومت قسطنطنیہ میں آن بسے۔ایک وقت میں ان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔انھیں اپنی مذہبی رسومات کے لیے معبد تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی اور اگلے پانچ سو برس کے دوران صرف استنبول میں ہی چھبیس بڑے معبد تعمیر ہوئے۔یہ وسیع المشربی ان سلاطین نے برتی جن کے نام کا خطبہ صدیوں ( پہلی عالمی جنگ کے بعد تک ) استنبول سے حجاز اور ہندوستان تک پڑھا جاتا رہا۔
ہندوستان کی بات چھڑی ہے تو یہ بھی سنتے جائیے کہ یہاں ہر مسلمان بادشاہ نے سیاسی و فوجی حریفوں اور دشمنوں کے بلا امتیازِ مذہب و ملت سر بھی اتارے مگر مذہبی اداروں کی سرپرستی بھی کی اور دیگر مذاہب کی تعلیمات جاننے میں ذاتی دلچسپی بھی دکھائی۔
مثلاً پندھرویں صدی میں کشمیر پر حکمران سلطان زین العابدین نے نہ صرف گذشتہ ادوار میں حملہ آور مسلمان سرداروں کے ستائے کشمیری مسلمانوں اور ہندوؤں کی بنیادی آزادیاں بحال کیں بلکہ سنسکرت سیکھی اور اپنشد کے کچھ حصوں کا فارسی ترجمہ کیا۔اکبرِ اعظم اور جہانگیر کے دور میں متھرا کے علاقے میں سینتیس بڑے مندروں کی دیکھ بھال کے لیے بیت المال سے پیسہ جاری ہونے لگا۔ سولہویں صدی میں جنوبی ہندوستان کی ریاست بیجا پور کے حکمراں عادل شاہ نے سرسوتی کا مندر بنوایا۔اس مندر کو بعد ازاں ٹیپو سلطان کے دور تک شاہی سرپرستی حاصل رہی۔
ٹیپو سلطان کے بارے میں ان دنوں بھارت میں بی جے پی کی زیرِ اقتدار ریاستوں کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ اس نے اتنے لاکھ ہندو ہلاک کیے اور اتنے سو مندر مسمار کیے۔البتہ کانگریس کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں ٹیپو کو جنگ آزادی کے ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
ٹیپو کا شمار ان شخصیات میں ہے جو پاکستان کی نصابی ہیرو بھی ہیں۔انگریز کے خلاف ٹیپو اور ان کے والد حیدر علی کی جدوجہد کا تو بہت تذکرہ ہوتا ہے مگر ٹیپو کی مذہبی رواداری کے باب میں بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کی درسی کتابیں خاموش ہیں۔
ریاست میسور کے علاقے بیدنور میں قائم عظیم الشان سیرنگری مندر کے پروہت ٹیپو کے اتحادی تھے۔ چنانچہ سترہ سو اکیانوے میں رگوناتھ راؤ کی قیادت میں مراٹھا فوج نے سرنگری مندر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔مندر کا خزانہ لوٹا اور شاردا دیوی کی مورتی توڑ پھوڑ دی۔ٹیپو نے پورے مندر کی فوری مرمت کا حکم دیا اور شاردا دیوی کی نئی مورتی نصب کرائی۔
ٹیپو نے ننجندیشواڑا کے مندر کو شیو بھگوان کی مورتی اور لاجورد کا بڑا سا شمعدان نذر کیا۔سرنگا پٹنم میں قائم سری رنگا ناتھ مندر کو چاندی کے چار بڑے وزنی پیالے دان کیے۔اس مندر میں آج بھی صبح کی پرارتھنا فتح علی ٹیپو کو سوریا نمسکار سے شروع ہوتی ہے۔
آج کے بھارت میں جن مسلمان حکمرانوں کی کردار کشی ہو رہی ہے، ان میں اورنگ زیب عالمگیر کا نام سب سے نمایاں ہے۔الزام یہ ہے کہ اس نے اپنے دور میں ہندو اکثریت کا جینا حرام کر دیا۔رام مندر پر بابری مسجد استوار کرا دی۔سیکڑوں مندر منہدم کرا دیے۔جب کہ سخت گیر مسلمانوں کے نزدیک اورنگ زیب کا بنیادی کارنامہ فتاویِ عالمگیری مرتب کرنا اور مملکت میں شرعی قوانین کا نفاذ تھا۔
اورنگ زیب کے بارے میں دونوں تصورات حقیقت سے بعید ہونے کے باوجود ہندوتوا اور سخت گیر مسلمانیت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں نہائیت مفید ہیں۔یہ بات درست ہے کہ اورنگ زیب نے مندر ڈھائے مگر یہ کام مذہبی نفرت کے سبب نہیں بلکہ سیاسی و عسکری مصلحتوں کے سبب ہوا۔بالکل ایسے ہی جیسے ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ ہندو مراٹھا فوج نے میسور پر حملے کے دوران سیرنگری کا مندر عسکری دشمنی میں مسمار کر ڈالا۔
جی ہاں اورنگ زیب نے بنارس کا وشوا ناتھ مندر توڑا کیونکہ فوجی پڑاؤ کے دوران اورنگ زیب کے لشکر میں شامل ہندو راجاؤں کی عورتیں جب درشن کے لیے وشوا ناتھ مندر گئیں تو ریاست کچھ کی رانی واپس نہیں لوٹی۔ چھان بین سے پتہ چلا کہ رانی کو پروہت نے اغوا کر کے ریپ کیا اور قتل کے بعد لاش مندر کے تہہ خانے میں چھپا دی۔
اورنگ زیب نے تمام پجاریوں کو قتل کرایا اور مندر زمیں بوس کر دیا۔مگر اس کے بدلے ذرا فاصلے پر ایک نیا مندر وشوا ناتھ کے نام سے تعمیر کرایا جو آج بھی آباد ہے۔لیکن جدید بھارتی تاریخ میں اس مندر کے بارے میں آدھا سچ بولا اور آدھا چھپایا جاتا ہے۔
اورنگ زیب نے فتاوی عالمگیری بھی مرتب کرائے اور آسام میں گوہاٹی کے رامانند مندر کے لیے زمین اور اخراجات کے لیے وسیع جاگیر اور چتراکوٹ میں بالا جی مندر کی توسیع کے لیے ٹیکس فری اراضی الاٹ کی۔ گجرات کی گورنری کے دوران اورنگ زیب نے جینی یاتریوں کی خانقاہوں اور قیام گاہوں کے لیے زمینیں الاٹ کیں۔اسی طرح کے اقدامات وسطی بھارت کے علاقے خاندیش ، الہ آباد اور بہار میں کیے۔
پس ثابت ہوا کہ تاریخ پڑھنی اور پڑھانی نہیں چاہیے اور نہ ہی ہمیں ایسا کوئی مطالبہ کرنا چاہیے۔ مبادا سماج میں وسیع القلبی و وسیع المشربی کا وائرس پھیل جائے۔تب تعصبی مصنوعات سے بھری رنگ برنگی بھڑکیلی دوکانوں کا کیا ہوگا ؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر