مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ 26 دسمبر 2014 کی شام تھی۔۔۔مبشرعلی زیدی

ایک کے بعد ایک کئی ای میلز آئیں اور پھر لوگ رخصت ہونے لگے۔ بڑے بڑے اینکرز گئے۔ بڑے عہدوں والے گئے۔ بیورو خالی ہونے لگے۔

مجھے تاریخ اچھی طرح یاد ہے۔ وہ 26 دسمبر 2014 کی شام تھی۔
کئی مہینوں سے پاکستان بھر میں ایک نئے چینل کا ڈھول بج رہا تھا۔ سب سے پہلے اس کا نام ہم نے تب سنا جب جیو کے ملازمین کو ایک پراسرار ای میل موصول ہوئی۔ اس طویل ای میل میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں سیٹھ کلچر نے صحافت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور صحافیوں کا استحصال کیا ہے۔
ای میل بھیجنے والے نے خوش خبری سنائی تھی کہ ایک نیا میڈیا گروپ ظہور میں آرہا ہے جس میں صحافیوں کو کئی گنا تنخواہیں اور ایسی بہت سی مراعات ملیں گی جن کے وہ حق دار ہیں لیکن سیٹھ انھیں دیتے نہیں۔
بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ای میل نام نہاد کمپیوٹر کمپنی ایگزیکٹ سے آئی تھی اور نئے میڈیا گروپ کا نام بول ہے۔ جیو کے ملازمین کے مختلف ای میل گروپس کے ایڈرس ان لوگوں نے فراہم کیے تھے جو ایگزیکٹ سے ہاتھ ملاچکے تھے لیکن ابھی استعفا نہیں دیا تھا۔
ایک کے بعد ایک کئی ای میلز آئیں اور پھر لوگ رخصت ہونے لگے۔ بڑے بڑے اینکرز گئے۔ بڑے عہدوں والے گئے۔ بیورو خالی ہونے لگے۔
میں نے اس زمانے میں فیس بک پر لکھ دیا تھا کہ نیوز چینل کو اّؤٹ پٹ کی ٹیم چلاتی ہے اور ہمارا ایک بھی کارکن بول نہیں توڑ سکا۔ اس پر ان دوستوں کو بہت برا لگ جو بول جوائن کرچکے تھے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ چونکہ مجھے آفر نہیں ہوئی اس لیے میں بول کی برائی کررہا ہوں۔
اس وقت میں نے مصلحتاً کچھ نہیں کہا کیونکہ جنھوں نے پیشکش کی تھی، وہ بول میں تھے اور میں یہ کہہ کر ان کی عزت میں کمی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ میں نے انھیں ٹال دیا ہے۔ اس عظیم شخص کا نام اظہر عباس ہے۔
میں نے کیوں آؤٹ پٹ کی ٹیم کی بات کی تھی؟ کیونکہ وہ میری ٹیم تھی۔ میں اس وقت کنٹرولر نہیں، ایگزیکٹو پروڈیوسر تھا اور پرائم ٹائم بلیٹن ہی دیکھتا تھا۔ لیکن ہماری ٹیم میں یکجہتی تھی۔ بیشتر کارکن ہم خیال تھے کہ جیو جیسا بھی ہے، اچھا ہے۔ بول نہیں جائیں گے۔
بول جانے والے دفتر کی تصاویر فیس بک پر لگاتے۔ کبھی فائیو اسٹار ماحول میں کھانا کھا رہے ہیں۔ کبھی اسنوکر کھیل رہے ہیں۔ کبھی بڑی تنخواہوں کی باتیں کررہے ہیں۔
میں نے سوچا کہ اپنے دوستوں کا دل بڑھانا چاہیے۔ میں نے اپنی ٹیم کے لوگوں کو اصرار کرکے اپنے گھر مدعو کیا۔ کھانے اور آم کی دعوت کی۔ ہلہ گلا کیا۔ باتیں کیں۔ تصویریں کھینچیں۔ بعد میں دوسروں نے شکوہ کیا کہ ہمیں کیوں نہیں بلایا۔
سب سے آخر میں انصار نقوی گئے۔ مجھے ہی نہیں، ہم سب کو ان کے جانے کا بہت دکھ ہوا تھا۔ میں نے اس رات دکھ بھری تحریر بھی لکھی تھی۔
25 دسمبر 2014 انصار بھائی کا جیو ہیڈآفس میں آخری دن تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ وہ 26 دسمبر 2014 کی شام تھی جب ہم رات 9 بجے کا بلیٹن کرکے نمٹے تھے۔ ایچ آر منیجر عدنان فہیم نے بتایا کہ میر ابراہیم رحمان مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔
ابراہیم صاحب میر شکیل الرحمان کے بڑے بیٹے ہیں۔ امریکہ سے ایم بی اے کیا۔ بعد میں ہارورڈ سے ایم اے سیاسیات کی ڈگری بھی لی۔ وہ پہلے دن سے جیو کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ جیو کے آغاز پر دنیا کے کم عمر ترین سی ای اوز میں سے تھے۔
عدنان فہیم فیس بک پر میرے ساتھ ہیں۔ وہ بتاسکتے ہیں کہ میں نے ان کی پہلی کال پر ابراہیم صاحب سے ملنے سے معذرت کی تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
عدنان صاحب نے دوبارہ کہا۔ ابراہیم صاحب چھٹی منزل پر آکر ایک کیوبیکل میں بیٹھ گئے اور مجھے بلایا۔ وہ باس تھے۔ مجھے جانا پڑا۔
انھوں نے کہا، مبشر صاحب! ادارے نے آپ کے لیے کچھ سوچا ہے۔
میں نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا، سر! ابھی چند ماہ پہلے میری پروموشن ہوئی ہے اور پیسے بڑھے ہیں۔ تب بھی میں نے اضافہ لینے سے انکار کیا تھا کیونکہ جیو میں بہت سے ملازمین کی تنخواہیں کئی سال سے نہیں بڑھیں۔ مجھے شرم آتی ہے کہ صرف اپنی تنخواہ بڑھوالوں۔ بددلی پھیلی ہوئی ہے۔ اسی لیے لوگ ایک ایک کرکے بول جارہے ہیں۔
ابراہیم صاحب نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ نہ جائیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا۔ میں نے وہ لیٹر دیکھا تک نہیں۔ ان سے کہا کہ میرے سارے دوست چلے جائیں گے تو میں اکیلا یہاں بیٹھ کر کیا کروں گا؟
انھوں نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ سب لوگوں کی تنخواہیں بڑھادیں۔ ایک آدمی کو ایک لاکھ دینے کے بجائے بیس بندوں کے پانچ پانچ ہزار بڑھادیں۔ لوگ تھوڑے پر بھی خوش ہوجائیں گے۔ انھیں لگے گا کہ ادارہ ان کی پرواہ کرتا ہے۔ لوگ ان پانچ ہزار کی خاطر بول کے پچاس ہزار کو چھوڑ دیں گے۔
ابراہیم صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ آؤٹ پٹ کے سب لوگوں کے پیسے بڑھا دیں گے۔ میں نے کہا کہ میں سب سے آخر میں لیٹر لوں گا۔
انھوں نے اصرار کیا کہ میں اسی وقت لیٹر قبول کرکے اس پر دستخط کروں۔ میں نے ایک سادہ کاغذ پر دستخط کرکے کہا، سب کو لیٹر مل جائیں گے اور مجھے نہیں ملے گا تو بھی میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ دوسروں کو لیٹر نہیں ملیں گے تو سادہ کاغذ پر دستخط کرکے بھی جیو چھوڑ دوں گا۔
اس بات کے گواہ موجود ہیں کہ اس رات گھر جانے سے پہلے لوگوں کو لیٹر ملنا شروع ہوگئے اور 24 گھنٹوں میں ان سب کو مل گئے جو چھٹی پر نہیں تھے۔ جب میں نے اپنا لیٹر لیا تو اس میں ڈبل پروموشن لکھی تھی اور تنخواہ دو لاکھ روپے بڑھائی گئی تھی۔
میں نے یہ سب سچ لکھا ہے لیکن نہایت عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابراہیم صاحب بڑے آدمی ہیں۔ وہ میرے کہنے سے پہلے سوچ چکے ہوں گے کہ سب کی تنخواہیں بڑھانی ہیں۔ اس میں میرے باس شاہد شہزاد کا بھی کردار ہوگا جو بہت عرصے سے اس کی کوشش کررہے تھے۔ میں صرف یہ بتاسکتا ہوں کہ جب میری باری آئی تو اپنے ساتھیوں سے پہلے فائدہ اٹھانا اچھا نہیں سمجھا۔
اس دن تقریباً سب دوستوں کی تنخواہیں ڈبل ہوگئی تھیں۔ ایسوسی ایٹ پروڈیوسرز کو پہلے پچاس پچپن ہزار ملتے تھے جو ایک دم سوا لاکھ ہوگئے۔ جن دوستوں کو لیٹر ملتے گئے، وہ واپس آکر مجھ سے لپٹ جاتے تھے۔ سب بہت خوش تھے۔
دبئی سے 2008 میں واپسی کے بعد ہماری عمدہ ٹیم بن گئی تھی جو میرے امریکا آنے تک یعنی 10 سال برقرار رہی۔
جیوسے رخصت لے کر میں نے تمام سرکاری واٹس ایپ گروپس چھوڑ دیے۔ صرف ایک غیر سرکاری گروپ میں شامل رہا جس میں جیو کے چند دوست شامل تھے۔ اس میں ہنسی مذاق اور آپس کی خبریں شئیر کی جاتی تھیں۔
آج ایک دوست نے بتایا کہ دفتر کے چند ساتھی میری فیس بک پوسٹس پر سخت خفا ہیں اور آزادی اظہار کے حامی ان صحافی دوستوں نے الٹی میٹم دیا ہے کہ واٹس ایپ گروپ میں مبشر رہے گا یا ہم۔
میں نے یہ سنتے ہی آستینیں جھاڑ کے گروپ چھوڑ دیا۔
وبا کے دنوں میں سوشل ڈسٹینسٹنگ ضروری ہے۔
شدت پسندی کی وبا کے دنوں میں۔۔۔

%d bloggers like this: