دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

ضلع راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے،اور تجزیے۔

 جام پور

(آفتاب نواز مستوئی )

ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقار علی نے کہا ہے کہ ضلع بھرمیں چار مختلف مقامات(روجھان،کوٹلہ نصیر ،محمد پور دیوان ،جام پور) پر مویشی منڈیاں لگائی جائیں گی۔

مویشیوں کی خریداری کے لیے منڈیوں کے اوقات صبح 6 بجے سے شام 7 بجے تک ہوں گے۔کویڈ19 ایس او پیز کی سخت مانیٹرنگ کی جائے گی۔

یہ باتیں انہوں نے مویشی منڈیوں کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ گائیڈ لائنز کا اجرا ہو چکا ہے۔

خریداروں کی سخت سکریننگ کی جائے گی۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ ماسک کا استعمال یقینی بنائیں اور حکومتی ایس او پیز کی مکمل پاسداری کریں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت اور لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ مویشی منڈیوں میں اپنے اپنے کیمپ لگائیں گے۔

طے شدہ سیل پوائنٹس کے علاوہ دیگر جگہوں پر جانوروں کی خرید و فروخت کے لئے مجمع لگانے کی ممانعت ہو گی۔ منڈیوں میں پولیس کی جانب سے سیکورٹی کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہاکہ پچاس سال سے زائد عمر کے افراد اور پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کو مویشی منڈی میں آنے کی اجاز ت نہیں ہو گی۔

اس موقع پر ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک ڈاکٹر مختیار احمد نے بتایا کہ ضلع کے داخلی ،خارجی راستوں اور مویشی منڈیوں میں محکمہ لائیو اسٹاک کی جانب سے جانوروں پر چچڑ اور کانگو وائرس سے بچاو کے لئے اسپرے کا انتظام بھی کیا گیا ہے

اور ساتھ ساتھ موبائل لیبارٹریز میں بھی ٹسٹ کی سہولیات دستیاب ہوں گی تاکہ عوام الناس کو صحت مند جانور خریدنے میں آسانی ہو۔


پشاور تا حیدر آباد چار رویہ سڑک کا ٹینڈر ۔۔تحریر ۔ عبدالروف خان لنڈ ایڈوکیٹ ۔۔۔۔۔

اور مفادات کی گماشتگی کے مینڈکوں کی اچھل کود میں تیزی۔ مگر ایک حساب ھے کہ جو ٹلنا نہیں اور جسے ہو کے رہنا ھے۔۔۔۔۔

ھم سابقہ ضلع ڈیرہ غازیخان جو شمالاً ڈیرہ اسماعیل خان (کے پی کے) سے شروع ہو کر جنوباً کشمور (سندھ ) چلا جاتا تھا اور اب دو اضلاع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور میں تقسیم ہو چکا ھے

کے باسی جو ہر دور میں ہر بنیادی سہولت اور ہر بنیادی ضرورت سے محروم رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ھماری محرومیوں اور ذلت بھری زندگیوں کو عظیم کالم نگار اور انقلابی شاعر جناب منو بھائی نے اپنے

ایک کالم کے ایک مصرعے میں اس طرح سمویا تھا کہ ” چودہ سو سال پہلے مکہ و مدینہ سے انسانیت کا اور انیس سو سنتالیس کی تقسیم سے آزادی کا جو پیغام چلا تھا۔

ابھی تک یہاں نہیں پہنچ پایا ھے۔۔” ہمیں کہیں سے کچھ ملتا بھی ھےتو تب جب ھم مانگ مانگ کر تھک جاتے ہیں۔ اور اپنی ہر ذلت کو مقدر کا لکھا سمجھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ سب ذلتیں جو ھمارے سرداروں ، تمنداروں اور جاگیرداروں کی خباثتوں کی دَین ہیں مگر ہمارے مقسوم کا روپ دھار چکی ہیں۔ ان میں ایک یہی انڈس ہائی وے بھی شامل ھے۔

یہ کراچی سے پشاور تک کے سفر کرنے والوں کی ایک اھم بین الصوبائی روڈ ھے۔ اس کی حالت گذشتہ کئی سالوں سے لفظ روڈ کی توہین بن چکی ھے۔ اور اگر اسے کسی نے اس حالت عجائب گھر میں رکھنے کی تجویز دی

تو اسے ھمارے ان لاامتناہی/بے شمار نوجوان جگر گوشوں، ضعیف والدین ، جوان بہنوں بھائیوں، نوکری کی تلاش میں نکلے ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے دوستوں اور سہرے سجائے دولہے

دلہنوں کے ناموں کی فہرست بھی رکھنی پڑے گی کیونکہ ان کی لاشیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں، لوتھڑوں اور قیمے میں بدل کر اسی سڑک میں رچی بسی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔

اب جب چین ، ایشین ڈویلمنٹ بینک، سنٹرل ایشیاء ریجنل اکنامک کارپوریشن جیسے سرمائے کے ان داتاؤں نے اپنی ترجیحات کی اخیر میں اس سڑک کا ٹینڈر لگایا ھے

تو اس وسیب کے انتہائی معتبر انسان جناب سرور کربلائی کی طرف سے لقب یافتہ یہاں کے تمنداروں اور سرداروں کی نحوست کی وجہ سے منحوس دھرتی کہلانے والے اضلاع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے انہی منحوسوں کے گماشتے اپنی اپنی بِلوں سے باہر نکل اودھم مچائے ہوئے ہیں کہ

یہ ٹینڈر فلاں سردار کی مہربانی و کاوش کا عطیہ ھے۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد ھے کہ جوں جوں یہ سڑک جس سردار کے حلقہ انتخاب میں داخل ہوتی ھے اسی کے نام کے جھومری آہا، آہا کی ہاہا کار مچائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔

ڈیرہ غازیخان سے لیکر کشمور تک اس وقت یہاں کی نسلوں کے چھ سات قاتل مسیحاؤں بزدار، خواجے، کھوسے، لغاری، دریشک اور مزاری کی کاوشوں کی دوڑ میں ہر ایک کو سب سے آگے آگے دکھایا جا رہا ھے ۔۔۔۔۔۔۔

عظیم فلسفی ، انقلابی فاقہ مست کارل مارکس نے کہا تھا کہ ” بالادست طبقہ جو کچھ دیتا ھے وہ نیچے سے موجود محنت کش طبقے کے اچانک ابھر کر سب کچھ برباد کر دینے والے

غصے کے ڈر سے دیتا ھے مگر وہ اس دَین کو احسان بنا کے پیش کرتا ھے۔ تاکہ جن کو اپنی طاقت کے بلبوتے پر جو کچھ مل رہا ھے

وہ اسے بھول جائیں اور پھر بالادست طبقے کی احسانمندی کے بوجھ تلے دبے رہیں۔۔۔۔”

سو اخباروں کی زینت اس ٹینڈر کے نتیجہ میں بننے والی چار رویہ اس سڑک کی تعمیر کسی کا احسان نہیں ھے۔

یہ ایک تو ضرورت ھے سی پیک کے عالمی مالیاتی و سامراجی مفادات کے تیز ترین حصول کی۔ ایسے مفادات جن کے ذریعہ ہماری نسلوں کی رگوں سے ابھی لہو کشید کرنا باقی ھے۔۔۔

دوسری وجہ وہ خوف ھے جو ان سرمایہ داروں ، تمنداروں، سرداروں، جاگیرداروں اور ان کے گماشتوں کے کرتوتوں سے محنت کشوں ، محروموں اور مظلوموں نے اپنی اذیتوں، دکھوں اور ذلتوں کا حساب لینا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رھے کہ سڑک کی تعمیر شروع ہونے سے ھم کسی طور بھی اپنے ان بے شمار رشتوں کے لہو کو فراموش نہیں کر سکتے اور نہ بیچ سکتے ہیں

جو کئی سالوں سے بہہ بہہ کر اس سڑک میں شامل ہو چکا ھے۔۔۔۔ اسی طرح ھمیں اپنی آنے والی نسلوں کی شریانوں سے استحصالی منصوبوں کے ذریعہ نچوڑے جانے والے لہو کی قیمت کا بھی احساس ھے۔۔۔۔۔۔۔

سو اس چار رویہ جدید سڑک بننے سے ایک طرف جہاں منافعوں کے بھیانک کھیل نے تیز ہونا ھے دوسری طرف وہاں ظلم ، جبر، لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کے خلاف ھم محنت کشوں کی جڑت،

اس طبقاتی نظام سے نجات کی خواہش اور جدوجہد نے بھی شدت اور تیزی سے بڑھنا ھے۔ میدان سجے گا ، خبیث قوتوں اور سچے جذبوں کا ٹکراؤ ہوگا۔۔۔۔۔

پھر تاریخ دیکھے گی کہ ہمیشہ کی طرح ظلمت کو شکست ہوگی اور جیت سچے جذبوں کا مقدر بنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔

About The Author