جون 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک دلچسپ پروپیگنڈا۔۔۔قانون فہم

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے آج تک پانچ ہزار لوگوں کو پندرہ لاکھ روپے ماہوار سے زیادہ کی نوکریاں دی جا چکی ہیں ہیں۔

ایک دلچسپ پروپیگنڈا ہے ۔ اور زوروں پر ہے کہ پی پی پی کی حکومت پی آئی اے میں زیادہ بھرتیاں کرتی ہے ۔ 2008 میں جب
پی پی پی کی حکومت اقتدار میں آئی تو پورے پاکستان میں یہ پالیسی بنائی گئی کہ عارضی یا کنٹریکٹ کے ملازمتیں ختم کی جائیں گی اور ان سب کو مستقل کیا جائے گا ۔ پی پی پی کنٹریکٹ ملازمت کو افراد اور انسانوں کا استحصال سمجھتی ہے اور اس کی پالیسی یہ ہے کہ یہ غلط عمل ہے کہ آپ کسی کی جوانی کو کشید کر لیں اور بڑھاپے میں اسے بے یارومددگار چھوڑ دیں۔ اسی پالیسی کے تحت لاکھوں لوگوں کی ملازمت کنفرم کی گئی ۔
2008 میں جس وقت پی پی پی اقتدار میں آئی ۔ اس وقت
پی آئی اے میں سات ہزار لوگ ڈیلی ویجرز اور کنٹریکٹ ملازم تھے۔
صدر آصف علی زرداری نے حساب لگایا کہ ان کو کنفرم کیا جائے ،
یاد رہے کہ وہ سب تنخواہ پہلے سے لے رہے تھے ، تو کس قدر زیادہ اخراجات پیدا ہوں گے۔ ڈیلی ویجرز اور کنٹریکٹ ملازم کو صرف تنخواہ دی جاتی ہے ۔ میڈیکل اور ٹریولنگ وغیرہ کی سہولت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ صدر آصف علی زرداری نے یہ بھی پوچھا کہ اس وقت بھی آئی اے میں دس لاکھ روپے ماہوار سے زیادہ تنخواہ لینے والے کتنے ملازم ہیں ۔ معلوم ہوا کہ پی آئی اے میں جنرل منیجر کی سیٹ پر 48 لوگ کام کر رہے ہیں جو 15 لاکھ + کے قریب ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے جنرل منیجر کی سیٹیں کم کر کے 24 کرنے کا فیصلہ کیا اور سات ہزار لوگوں کو مستقل کر دیا گیا۔ آپ تصور کریں کہ اس فیصلہ سے کم ازکم دس کروڑ روپے ماہانہ بچت ہوئی ۔
عوام دوست حکومت 30000 یا 40000 ماہوار پر سینکڑوں لوگوں کو بھرتی کرتی ہے ۔کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرتی ہے۔ تاکہ عوام کو سہولیات دی جا سکیں ۔ جبکہ عوام دشمن جماعتیں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی ہے۔ دونوں نے نے پی آئی اے میں کم از کم 50/50 نئے لوگ 15 لاکھ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کیے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ مشاہد اللہ خان کے خاندان کے پانچ لوگ لوگ پی آئی اے میں ہمیشہ 15 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ پر تعینات رہتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز یا پی ٹی آئی کو کبھی عام لوگوں کو نوکریاں دینے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ان کی توجہ کا مرکز ہمیشہ خاص لوگ ہوتے ہیں۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے آج تک پانچ ہزار لوگوں کو پندرہ لاکھ روپے ماہوار سے زیادہ کی نوکریاں دی جا چکی ہیں ہیں۔ اور یہ سب غیر پیداواری شعبہ کے لوگ ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے اپنے اداروں پر محض بوجھ ہیں۔ آج یہی لوگ پی آئی اے کی زیادہ بھرتی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
آپ پھر سمجھ لیں کہ پی آئی اے نجی ایئرلائن کی طرح کا ادارہ نہیں ہے ۔ یہ بلیو ایئر اور سیرین ایئر سے کافی مختلف ادارہ ہے۔
پی آئی اے کراچی لاہور اور دیگر ایئرپورٹ پر دیگر نجی ایئرلائنز کو مختلف طرح کی سروسز بھی مہیا کرتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مسلم لیگ نواز کے دور میں پی آئی اے نے لاہور سے لندن پریمیئر سروس شروع کرنے کے لیے سری لنکا سے ایک جہاز لیز پر لیا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک غلط اور غیر پیشہ ورانہ ، غیر منافع بخش فیصلہ تھا۔ لیکن اگر پی آئی اے کے پاس ملازمین کی تعداد تھی یا زیادہ ہے ، تو انہیں کون روکتا ہے کہ ایک ہی بار دس نئے جہاز لیز پر لے کر اپنے اپنے کاروبار کو بڑھائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کی جا سکے۔ تجربہ کار افرادی قوت یا ہیومن ریسورس کسی بھی ادارے کے لیے ایک نعمت ہوتے ہیں۔ کیا ہی وقت آگیا ہے کہ احمق اور گاودی لوگ فیصلہ کن سیٹوں پر براجمان ہو گئے ہیں ۔ جو تجربہ کار افرادی قوت کو نکال کر اداروں کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ پی آئی اے میں ایک بھی انسان یا ملازم فالتو یا فارغ نہیں ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے پہلی بار پیشہ ور پائلٹ کو پی آئی اے کا چیئرمین لگایا تھا اور وہ اس طرح کی پالیسیاں بنانا چاہتے تھے اور بنا رہے تھے جن سے پی آئی اے کو ایک جدید ترقی یافتہ اور منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا۔
جو بھی لوگ فلائنگ کے شعبہ سے واقف ہیں انہیں یقینی طور پر یاد ہوگا کہ صدر آصف علی زرداری نے پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لیے کس قدر جدوجہد کی تھی۔
مگر بدقسمتی سے اس وقت پالپا اور پی آئی اے کی لیبر یونین ز کرپشن کی بنیاد پر ہڑتال پر مجبور کروادی گئیں۔ اور نتیجہ کے طور پر انہیں آج یہ دن دیکھنے کو ملا کہ جب پی آئی اے کو بالکل ختم کیے جانے کی سازش کی جارہی ہے۔
پی آئی اے کو منافع بخش بنانا دنوں کی بات ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ حکومت اس میں پیشہ ور تربیت یافتہ لوگوں کو آگے لائے۔ پروفیشنل اپروچ یا کاروباری تجربہ کار لوگ ہی اداروں کو چلا اور اٹھا سکتے ہیں۔ پی آئی اے کے اوپر غیر پیشہ ور لوگ بٹھانے کی بجائے پی آئی اے کی انتظامیہ کو خود اپنے معاملات چلانے کے لئے فری ہینڈ دیا جائے۔ اور پی آئی اے کے سائز یا حجم کو کم کرنے کی بجائے پی آئی اے کے لیے کم از کم ایک درجن بڑے جہاز لیز پر لیے جائیں تاکہ پی آئی اے کو ایک منافع بخش ادارہ بنایا جاسکے۔
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پی آئی اے کو دوبارہ منافع بخش بنانا ممکن ہے۔ سیاسی مداخلت کو گالی دینا ایک فیشن بن چکا ہے۔
غیر پیشہ ور لوگوں کو پی آئی اے پر نصب کرنا ہر گز سیاسی یا غیر سیاسی عمل نہیں ہے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے۔

%d bloggers like this: