مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گاٶں کا عجیب رواج ۔۔۔ گلزار احمد

ہمارے گاوں میں ایک واردات کے لیے کتے لاے گیے میں بھی ان کے ساتھ یہ کرتب دیکھنے کے لیے گھومتا رہا مگر کامیابی نہیں ہوئی۔

ایک دفعہ ہمارے گاوں میں کسی کے گھر سے کپڑے سینے والی مشین چوری ہو گئی۔پہلے تو کُھرا دیکھنے والے کو بلایا گیا جو پیروں اور جوتوں کے نشان پر چور پکڑتا مگر ناکامی ہوئی۔پھرایک دارے والے کو بلا بھیجا۔

دارے والے عامل نے کہا پانچ سال کا سیانہ بچہ لاو جس کے انگوٹھے پر سیاہی لگا کے کچھ پڑھونگا تو چور ٹی وی کی طرح نظر آے گا۔ اتفاق کی بات ہے میری عمر کے گاوں کے سارے بچے کودن تھے اور ایک میں افلاطون کی طرح سیانہ بچہ تھا اور گاوں والوں نے پکڑ کر عامل کے آگے بٹھا دیا۔ عامل نے میرے انگوٹھے پر کالی سیاہی اس طرح لگائی کہ وہ ٹی وی سکرین بن گئی اور کچھ کلام دہرانے کا کہا وہ کلام یہ تھا۔۔۔

کالی گنجی واسطہ سلیمان پیغمبر دا چور کوں حاضر کر۔۔۔ یہ بار بار کہنا ہوتا اور انگوٹھے کی سکرین پر یہ دیکھنا تھا کہ گاوں کا کونسا آدمی مشین چراتا نظر آ رہا ھے۔ ایک گھنٹے کی لا حاصل دارے کی کوشش میں مجھے کچھ نظر نہ آیا اور چور صاف بچ گیا۔ ابھی پچھلے دنوں ڈیرہ میں چور پکڑنے کے لیے سدھاے ہوے کتوں کے استعمال کا رواج شروع ہوا ہے وہ شاید اب بھی ہے۔

ہمارے گاوں میں ایک واردات کے لیے کتے لاے گیے میں بھی ان کے ساتھ یہ کرتب دیکھنے کے لیے گھومتا رہا مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ دس ھزار روپے ان کی فیس تھی۔۔ گزشتہ روز میرے کمرے میں میرا برش اور دوائی کی ڈبی نہیں مل رہی تھی تو میری بیوی سے گرمی ہوگئی۔

میری بیوی نے غصے میں کہا مجھ پر مت برسو خود گم کیے ہونگے اگر اعتبار نہیں تو کتے لے آو وہ تمھیں چور ڈھونڈ دینگے۔میں نے کہا ٹوٹل 136 روپے کا سامان نہیں مل رہا تو دس ھزار کے کتے کیوں لاوں ۔ تو کہنے لگی چور کا تو صحیح پتہ چلے گا۔۔ مطلب تم خود پکڑے جاو گے۔

سچ بھی یہی ہے کہ میں چیزیں رکھ کے بھول جاتا ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ میرے گاوں کے اکثر لوگوں پر جن کا سایہ تھا اس کے لیے رات کو ہارمونیم اور ڈھولکی والے آتے اور ڈھولک کی تھاپ پر سر کو دائیرے کی شکل میں ہلا ہلا کر ناچتے ہوۓ جن کھیلے جاتے اس کو جاتر کا نام دیا جاتا۔

بہت سے لوگ بلوٹ شریف میں بھی جن کھیل کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ گاوں کے لوگوں نے کئی دفعہ چڑیل بھی دیکھی اور اس کا حلیہ بیان کرتے تھے۔ایک بزرگ پر پریاں عاشق تھیں وہ چلتے پھرتے بولتے رھتے جیسے کوئی اسکے ساتھ چل رہا اور محو گفتگو ہو۔ہمارے گاوں کی خواتین میں وہ طاقت تھی کہ طوفانوں کو روک سکتی تھیں مثلاً جب گرمیوں میں سرخ آندھی کا طوفان بننا شروع ہوتا اور آسمان پر تاریکی چھانے لگتی تو عورتیں جھاڑو اٹھا کر چارپائی کے پاے کے نیچے دے دیتیں ان کا خیال تھا آندھی بدھیج گئی یعنی رک گئی مگر آندھی تو آ کے رہتی تھی۔

پھر ہمارے جیسے بچے سوال کرتے تو جواب ملتا کہ اس کا زور توڑ دیا گیا۔ ہمارے مہمان اس وقت تک نہیں آتے تھے جب تک کوا ہماری منڈیر پر بیٹھ کر کائیں کائیں کر کے اطلاع نہ دیتا۔ہماری آنکھ پھڑکنے کا علیحدہ فال تھا ہتھیلی میں خارش سے دولت ملنے کا اشارہ ہوتا جو کبھی نہ ملی۔۔

میرے بھائیو زندگی اور ماحول کی ان بھل بھلیوں میں رہ کر اللہ کی توحید کا تصور اگر میرے دل میں پیوست ھے تو یہ اللہ کا کرم اور فضل ھے ۔

%d bloggers like this: