مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کے ٹائی ٹینک (ایس ایس جہلم)کی کہانی۔۔۔ عباس سیال

انیس تئیس میں برطانوی حکومت نے متحدہ ہندوستان میں پاکستانی پنجاب کے علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا منصوبہ ترتیب دینے کا فیصلہ کیا

کہا جاتا ہے کہ بھاپ سے چلنے والے دُخانی جہاز (پیڈل اسٹیمرز) اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں متعارف کروائے گئے تھے جبکہ ابتداء میں بھاپ سے چلنے والی پیڈلر کشتیاں بنائی گئی تھیں جن میں دوطرفہ پیڈل نصب تھے مگر بعد میں بڑے جہازوں کو بھی پیڈلر کر دیا گیاتھا مگر کھلے سمندر وں میں پیڈلر جہازوں کی رفتار سست پڑ جاتی تھی، لہٰذا گہرے پانیوں میں چلنے کیلئے پروپیلرز ”پنکھے“ ایجاد کئے گئے تھے اور کم گہرے پانیوں (دریاؤں)کیلئے پیڈلر جہازوں پر ہی اکتفا کیا گیا۔
دنیا کا پہلا بھاپ سے چلنے والا دُخانی جہاز(پیڈل اسٹیمر) 1774 ء میں فرانس میں تیار کیا گیا تھا جس کے بعد امریکہ میں بھی اسی ساخت کے کئی جہاز بنائے گئے اور بعد میں کئی یورپین کمپنیاں جہاز رانی کے میدان میں اتریں، دھڑا دھڑ سٹیم(پیڈلرز اور پروپیلرز) جہاز بنائے جانے لگے، وقت کے ساتھ یہی اسٹیمرز بین البراعظمی معاشیات اور انسانی سفر کا بہترین ذریعہ بنتے چلے گئے۔کچھ ہی عرصہ بعد گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) نے جہاز رانی کی صنعت میں جست لگادی جس نے جنگ عظیم اول سے قبل کئی پیڈلر اور پروپیلرز جہاز بنادئیے۔ کوئین میری اور کوئین ایلزبتھ جیسے شاہکار بحری جہاز گلاسگو کے شپنگ یارڈز میں ہی تیار ہوئے تھے۔
1917ء میں گلاسگو کی ایلسا شپنگ کمپنی کا ”آئر، ٹرون“ کے ساحلی میدانوں میں تیار کردہ 451 ٹن وزنی ایس ایس جھیلم (ڈیرہ کا ٹائی ٹینک)بھی ایک پیڈلر جہاز تھاجسے برطانوی حکومت نے جنگ عظیم اول کے دوران سلطنت عثمانیہ(ترکی) کے خلاف دریائے دجلہ (عراق) میں تعینات کیا تھا جہاں دوران جنگ اسے موبائیل ڈسپنسری، راشن پہنچانے اور فوجیوں کو محاز جنگ تک پہنچانے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔
ایک سو پچاس فٹ لمبے، چونتیس فٹ چوڑے عرشے، لمبی چمنی، عقب میں لگی چوڑے پھل والی چرخی سے چلنے والے اس بادبانی جہاز کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔
جنگ عظیم اول بندوقوں، بحری جہازوں اور بحری آبدوزوں کے سہارے لڑی گئی تھی اور اس وقت تک ہوائی جنگی جہاز متعارف نہیں ہوئے تھے۔لہٰذا بحری آبدوزوں اور بحری جہازوں نے جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ خصوصاً ترکی کے زیر اثر (دجلہ، فرات اور نیل کے پانیوں) پر قبضہ جمانے کیلئے بر طانیہ کوکم گہرے پانی میں چلنے والے جہا زوں کی اشد ضرورت تھی جن کے اندر فوجیوں اور ساز و سامان کو پہنچایا جا سکے اور وہ دریا کی سخت لہروں اور موسم کا بھی مقابلہ کر سکیں۔ دوران جنگ 1914ء میں دجلہ میں برطانیہ کے پاس صرف تین بحری جہاز تھے چنانچہ برطانوی فوج نے ہنگامی بنیادوں پر اپنی حکومت کو ٹیلی گرافی پیغام بھجوایاکہ جلد از جلد مزید بحری جہاز بھجوائے جائیں۔اس وقت برطانیہ کے زیرِ تسلط (نو آبادیاتی ممالک) میں سے چند جہاز بمبئی، برما اور کچھ دریائے نیل کے محازوں پر کام سر انجام دے رہے تھے، لہٰذا برطانوی حکومت نے اسکاٹ لینڈ کے علاقے گلاسگو میں قائم جہازران کمپنیوں کو بحری جہازوں کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ فوجی سازو سامان کو محاز جنگ تک پہنچایا جا سکے۔کچھ جہازوں کا مٹیریل گلاسگو سے لاد کر بمبئی، بصرہ کے ساحلوں تک پہنچا کر انہیں اسمبل کیاگیاجہاں رائیل انجینئر ز پر مشتمل ”اِن لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ“ میں پچاس ہزار کاریگر موجو دتھے جن میں سے زیادہ تر ہندوستانی رجمنٹ، نائجیریں میرین، موریطانیہ بٹالین، مصری لیبر کارپ کا حصہ تھے، جن کا کام بحری جہازبنا کر بغداد کو فتح کرنا تھا۔ گلاسگو میں اس وقت ایس سیریز کے کئی جہاز بنائے گئے تھے جیسا کہS46, S47 وغیرہ۔
ڈیرہ کا ایس ایس جھیلم بھی اسی سیریز کا ایک جہاز تھا جو 150فٹ طویل، 34.10 فٹ چوڑا، چار فٹ موٹا، تقریباً 46ٹن ایندھن، ایک سو ٹن کارگو(سامان)، ایک سو پچاس فوجی(سواریاں) لے جا سکتا تھا۔
کلاسگو میں S40سیریز کے کئی بحری جہاز تیار کئے گئے تھے۔ جن میں سے چارماڈلز (S44, S45, S46, S47) نمایاں تھے جنہیں ایلسا شپ بلڈنگ کمپنی نے تیار کرکے ان کے اندر ”رینکن اینڈ بلیک مور کمپنی“کے 63 ہارس پاور کے انجن نصب کئے تھے۔S48,S49,S50 سیریزکے جہاز”بو میک لیک لین اینڈکمپنی آف پیسلے“کے اشتراک سے بنائے گئے تھے جبکہS51,S52 کو جارج براؤن اور گرینا ک کمپنیوں نے مل کر بنایا تھا اور ساری سیریز کے یہ جہازسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کے کھلے ساحلی علاقوں (ٹرون اور آئر) میں دریاے کلائیڈ کے مقام پر تیار کئے گئے تھے۔

جنگ عظیم اول کے بعد بحری جہازوں کا کیا بنا؟
سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد جنگ عظیم اول بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ اب برطانوی حکومت کو بحری جہازوں کی چنداں ضرورت نہ تھی، خصوصاً بصرہ، عراق اور مصر کے محازوں پر جن بحری جہازوں نے حصہ لیاتھا، برطانوی حکومت نے ان جہازوں کو میسوپوٹیمیا سے نکال کر اپنے نو آبادیاتی علاقوں میں بھیجنا شروع کر دیا، جن میں سے9 جہازوں کو روس بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں کی بالشویک حکومت کو کچلنے میں حصہ لے سکیں، ساتھ ہی S سیریز کے باقی بحری جہازوں کی نیلامی کا اعلان کر دیا گیا۔ا سٹیمر شپ برٹش انڈین نیوی گیشن کمپنی نے S51,S46 کو 1920میں اور S44,S45 کو 1923میں نیلامی میں خریدا اور انہیں بمبئی اورکراچی کے ساحلوں تک لایا گیا۔S47 کوعراق کی اسٹیمر نیوی گیشن کمپنی نے برطانیہ سے خرید کر اس کانام بدل کر احسان رکھ دیا جسے 1951ء میں بصرہ کی پرائیویٹ حنا شیخ ٹرانسپورٹ کمپنی نے خرید کر دریائے دجلہ میں اپنے زیر استعمال کرنا شروع کر دیا جبکہ S48, S49, S50کو مصر کی حکومت نے دریائے نیل کیلئے خرید لیا، جہاں پر وہ آج بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ایس ایس جہلم ڈیرہ کیسے پہنچا؟

ہم اس کے بارے میں تصدیق سے کچھ نہیں کہہ سکتے مگر کچھ اندازوں کے مطابق یا تو یہ جہازجنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد S51 کے ساتھ کراچی لایا گیا ہو گا یا پھر،,S45 S44 کے ساتھ بمبئی آیا ہو گا۔
انیس تئیس میں برطانوی حکومت نے متحدہ ہندوستان میں پاکستانی پنجاب کے علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا منصوبہ ترتیب دینے کا فیصلہ کیا جس کے مطابق دریائے سندھ میں روہڑی کے مقام پر لائیڈ بیراج(موجودہ سکھر بیراج) تعمیر کرکے وہاں سے سات نہریں نکال کر پنجاب اور بلوچستان کی زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ 1923میں بیراج کی کھدائی کیلئے د و بڑے جہاز،پانچ اسٹیمرز،کئی کشتیاں لائی گئیں جن کا کام ڈیم کی تعمیر میں حصہ لینا تھا مثلاً کھدائی کروانا، گارا مٹی، کیچڑ ہٹانا، تعمیراتی سازو سامان اورعملے کو سائٹ تک پہنچانا وغیرہ۔بیراج میں حصہ لینے کی غرض سے ایس ایس جھیلم (S46) کو بمبئی یا کراچی سے دریائے سندھ میں لایا گیا تھا۔1932 میں بیراج کامنصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتے ہی اسے دریائے سندھ میں شمال کی جانب (کالا باغ) بھیج دیاگیا، وہیں 1935ء میں صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت نے اسے پنجاب حکومت سے خرید لیا۔
Jean Fairley کی کتاب The Lion Riverکے مطابق ایس ایس جھیلم کچھ سال دریائے سندھ میں کالا باغ کے مقام پر چلتا رہا مگر جب1946ء میں وہاں جناح بیراج مکمل ہو گیا تو اسے جنوب میں ڈیرہ اسماعیل خان کی سمت بھیج دیا گیا۔ ان دنوں دریا ئے سندھ میں ایک لانچ چلا کرتی تھی، جو تقریباً ناکارہ ہو چکی تھی، لہٰذا ایس ایس جھیلم نے اس کی جگہ سنبھال لی۔
ایس ایس جھیلم کو (جانوں کپتان) چلایا کرتے تھے اور یہ جہاز ڈیرہ کے باسیوں اور جانوروں کو کچے، دریا خان تک پہنچایا کرتا تھا۔1980میں آخری بار اس پر رنگ و روغن کیا گیا تھا، بدقسمتی سے 1982ء میں اس کے انجن نے آگ پکڑ لی تھی اور جہاز کے کئی کل پرزے تباہ ہو گئے تھے، مرمت کے قابل اسے دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیا گیا تھااور1985تک یہ سندھ کے پانیوں پر راج کرتا رہا تھامگرڈیرہ دریاخان پل کی تکمیل کے بعد اسے سندھ کنارے کھڑا کر دیا گیا تھا، جہاں پر یہ اپنی قسمت کا رونا رو رہا تھا کہ 25 جولائی 1999ء کے دن 150کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہواؤں اور 18ملی میٹر موسلا دھار بارش کے سبب اس کے اندر پانی بھرگیا، جس کے سبب اس کا توازن بگڑا اور یوں ڈیرہ اسماعیل خان کا ثقافتی ورثہ سمجھا جانے والا یہ جہاز انتظامیہ کی نا اہلی اور بے بسی کے سبب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ریت کا رزق بن گیا۔
یہ سچ ہے کہ ڈیرہ دریا خان پل کی تعمیر کے بعد مسافروں کی منتقلی کیلئے ا س جہاز کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی مگر اس کی تذئین و آرائش پر تھوڑا سا خرچہ کرکے اسے ایک خوبصورت ٹوریسٹ پوائنٹ میں بھی تبدیل کیا جاسکتا تھا۔اس وقت ا س قیمتی تاریخی ورثے کو دریا برد ہونے سے بچاکر اور اسے دوبارہ سے فعال کرکے سیاحت کے فروغ کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ا سے سیاحت کی غرض سے سندھو دریا میں بھی چلایا جا سکتا تھا، مگر افسو س کہ دریا ریت میں دھنسا یہ جہاز کئی سالوں تک اپنی بے بسی کا رونا روتے روتے بالآخر ریت کی آغوش میں لیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گم ہو گیا۔ ذرا سوچئے اگر اتنا عظیم الشان جہاز پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوتا تو آج وہاں کے جگمگ کرتے پانیوں میں چلتا ایک خوبصورت بوٹنگ ریسٹورنٹ ہوتا۔
اسکاٹ لینڈ کے دریائے کلائیڈ سے بحیرہ روم، نہر سوئیز، بصرہ، بحیرہ عرب(بمبئی،کراچی) کے نیلے گگن پر تیر کر سندھو کے مٹیالے پانی تک پہنچنے والا ایس ایس جھیلم کب کا قصہ پارینہ بن چکاہے۔
ترجمعہ: عباس سیال
Refrence: From Scotland to Maesopotamia & Pakistan: The Story of a veteran paddle steamer” By: Tim Willasey-Wilsey.

%d bloggers like this: