مئی 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‏لاہور لاہور اے ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

‏لاہور شہر ایک وجہ شہرت اس کے بارہ دروازے بھی ہیں لیکن ان دروازوں میں سے بیشتر دروازے اب موجود نہیں ان کا صرف نام ہی باقی ہے۔

پاکستان میں کرونا کی وجہ سے ملنے والی والی خبروں نے طبیعت کو کافی بوجھل اور اداس کر رکھا ہے۔ اس لئے سوچا کہ آج سیاست سے ہٹ کر کسی موضوع پر لکھا جائے تو خیال آیا کیوں نہ لاہور شہر کے بارے لکھا جائے۔ لاہور ہمیشہ سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ تاریخی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو لاہور ایک وسیع موضوع ہے جس پر بہت زیادہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے کوشش کروں گا کہ گاھے بگاھے سیاسی موضوعات سے وقت بچا کر لاھور پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں۔

‏لاہور دریائے راوی کے کنارے ٹیلے پر آباد ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ ٹیلہ جس پر لاہور آباد ہے پرانے شہر کا ملبہ ہی ہے کیونکہ لاہور کئی دفعہ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ آخری دفعہ کوئی تقریباً ایک ہزار سال پہلے محمود غزنوی کے گورنر ایاز نے لاہور کی تعمیر کی۔ لاہور کے گرد فصیل تعمیر کی گئی اور فصیل کے اردگرد خندق بنائی گئی جس میں دریا کا پانی بہتا تھا، لاہور چونکہ بیرونی حملہ آوروں کے راستے میں آتا تھا اس لئے بیرونی حملہ آور دلی جاتے ہوئے لاہور میں پڑاؤ کرتے، آرام کرتے، زاد راہ لیتے اور دلی کی طرف نکل جاتے۔ بہت سے حملہ آور لاہور سے ہی مار کھا کر واپس لوٹ جاتے لیکن جو لاہور پر قبضہ کر لیتا اس کو پھر دلی نہ روک پاتا۔ شیر شاہ سوری نے اپنے زمانے میں لاہور کو کافی تباہ و برباد کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ لاہور جیسا امیر شہر حملہ آوروں کے راستے میں نہیں ہونا چاہیئے۔

‏مغلیہ دور میں بھی لاہور کی اہمیت برقرار رہی اور کئی مغل بادشاہ لاہور میں قیام پذیر بھی رہے۔ شہنشاہ اکبر کو تو لاہور اتنا پسند تھا کہ وہ چودہ برس یہاں مقیم رہا۔ شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ بھی لاہور میں ہی ہے۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں شہر کی فصیل پکی اینٹوں سے دوبارہ تعمیر کی گئی اور بارہ دروازے بنائے گئے۔ ان دروازوں میں ایک اکبری دروازہ اکبر بادشاہ کے نام پر ہی ہے۔

‏دروازوں کا ذکر کیا جائے تو شہر سے قلعے کو ملانے والا دروازہ مسجدی دروازہ کہلاتا تھا جو بعد میں بگڑتے بگڑتے مسیتی دروازہ اور پھر مستی دروازہ بن گیا۔ دوسرا دروازہ قلعے اور بعد میں بننے والی بادشاہی مسجد کے درمیان سے دریا میں اترنے والی سیڑھیوں کے شروع میں بنایا گیا۔ یہاں رات کو روشنی کی جاتی تھی اس لئے اس کا نام روشنائی دروازہ رکھا گیا۔ لاہور کی ٹکسال بڑی مشہورِ تھی اس لئے راوی روڈ کے شروع میں بننے والے دروازے کا نام ٹکسالی دروازہ رکھا گیا۔ اس سے تھوڑا آگے داتا دربار کی طرف جائیں تو بھاٹی دروازہ آ جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں بھٹی قوم آباد تھی۔ اس سے آگے چلیں تو موری ہے جس کو دروازہ تو نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ شہر کا کوڑا کرکٹ باہر نکالنے کے لئے استعمال ہونے والا راستہ تھا۔ اس سے آگے آئیں تو لوہاری دروازہ آ جاتا ہے۔ یہاں شائد لوہار کام کرتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس کانام لوہاری دروازہ پڑ گیا، آگے چلتے جائیں تو شاہ عالمی دروازہ آ جاتا ہے جس کا نام علم دوست بادشاہ شاہ عالم کے نام پر رکھا گیا۔ شاہ عالم آخری مغل بادشاہ تھا جو لاہور آیا اس کے بعد کسی مغل بادشاہ کو لاہور آنے کا موقع نہ ملا۔ چلتے جائیں تو موچی دروازہ آتا ہے اسکے بعد اکبری دروازہ اور پھر دلی دروازہ اور یکی دروازہ۔ یکی دروازے کو خزری دروازہ بھی کہا جاتا تھا۔ سرکلر روڈ کی طرف مڑیں تو شیراں والا دروازہ آتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں شیر رکھے جاتے تھے۔

‏لاہور شہر ایک وجہ شہرت اس کے بارہ دروازے بھی ہیں لیکن ان دروازوں میں سے بیشتر دروازے اب موجود نہیں ان کا صرف نام ہی باقی ہے۔

%d bloggers like this: