مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شھدائے ماڈل ٹاؤن کا لہو، مصلحتوں کی نذر ۔۔۔کلیم اختر قیصرانی

تحریک انصاف اپنے اقتدار کو بچانے کی مصلحت کا شکار ہو کر انصاف کی فراہمی کی بجائے ملزموں کو اعلیٰ عہدوں ہر تعینات کرتی چلی جارہی ہے
 سترہ جون کا دن لاہور کی تاریخ کا سیاہ باب اور اس وقت کے حکمرانوں کے چہرے پر بد نما داغ ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ وہ کون تھے، کس جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور اور کس مسئلک سے وابستہ تھے۔ لیکن اس میں کوئی درسری رائے نہیں کہ وہ بے جرم وخطا گولیوں سے بھون ڈالے گئے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ پولیس جو عوام کی زندگیوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، خود نہتے مردوں اور عورتوں کے سینوں میں برسٹ کے برسٹ اتاردے۔لیکن ایسا ہوا۔ایسا پاکستان کے دل، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں، اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر ، میڈیا کی سکرینوں کے سامنے وقوع پزیر ہوا۔چودہ کے قریب جان سے گئے اور سو کے قریب لوگ زخموں سے چھلنی ہوئے۔ شرمناک بات اس سےبڑھ کر کیا ہوگی کہ حاملہ عورتوں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں
۔ اس سانحے سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ اس دردناک واقعے کو چھ سال بیت چکے ہیں لیکن اس کشت وخون کے جرم میں مبتلا ایک شخص کو بھی قرار واقعی سزا نہیں مل سکی۔ شھدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کو تاحال انصاف میسر نہیں آیا۔اس کے پیچھے چند مصلحتیں مضمر ہیں جو انصاف کی فراہمی میں یا تو رکاوٹ ہیں یا پھر اس کی رفتار کو سست کررہی ہیں۔ یہ مصلحتیں مختلف نوعیت کی ہیں ان کا مختصراً احاطہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سب سے پہلی مصلحت پاکستانی قوم کی مختلف مذہبی ، سیاسی اور دیگر متعصبانہ وابستگیاں ہیں۔ ہم بہت سے واقعات کو محض انسانی نوعیت سے دیکھنے کی بجائے اسے فرقہ ورانہ، لسانی اور سیاسی منظر میں دیکھتے ہیں۔شھدائے ماڈل ٹاؤن کے قتل پر بھی بعض اطراف سے یہ بےحسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے بہت سے کالم نگاروں اور اینکروں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن کے قلم اور تجزیے سے کسی نہ کسی تعصب کی بدبو ضرور محسوس ہوتی ہے۔
ایسے بہت سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کے نام لیے جاسکتے ہیں، جنھوں نے محض سیاسی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے، اس بربریت کی مزمت کرنا بھی گوارہ نہیں کی۔اگر پوری پاکستانی قوم ان تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچتی اور ارباب اختیار ہر دباؤ بڑھاتی تو مقدمے کا نتیجہ اس سے مختلف ہوتا۔ یہ واحد کیس ہے جس کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے آرمی چیف کو مداخلت کرنی پڑی۔جس طرح ایف آئی آر کے اندراج میں(بقول ڈاکٹر طاہرالقادری ) اعلیٰ حلقوں کی مدد شامل تھی، اگر انصاف کی فراہمی میں بھی وہی توجہ نصیب ہوتی تو آج حالات اور ہوتے۔
موجودہ حکمران جو کہ ناصرف اس واقعے کو الیکشن کے دوران خوب کیش کراتے رہے بلکہ ان کی احتجاجی تحریک کی گاڑی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خون سے پٹرول ڈالا گیا، اقتدار میں آنے کے بعد ان یقین دہانیوں سے منہ پھیر لیا جو انھوں نے دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کو کروائی تھیں۔
تحریک انصاف اپنے اقتدار کو بچانے کی مصلحت کا شکار ہو کر انصاف کی فراہمی کی بجائے ملزموں کو اعلیٰ عہدوں ہر تعینات کرتی چلی جارہی ہے۔اگر تحریک انصاف اب تمام مصلحتوں کی بیڑیوں سے آزاد ہوکر معصوموں کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہے تو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے ۔
ایک اور رکاوٹ جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ ہماری عدلیہ کی مصلحت پسندی ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ایسا واقعہ جو کہ کئی گھنٹوں تک براہ راست ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا رہا، گولیاں چلانے والوں کے چہرے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں محفوظ ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ اس کا فیصلہ سنانے کے لیے چھ سال کا عرصہ بھی عدالتوں کو کم پڑ گیا ہے۔
اگر ملک کی عدالتیں چاہیئں اور اس کیس کو ہنگامی بنیادوں پر چلائیں(جیسا کہ بعض مقدمات میں چھٹی والے دن بھی سماعتوں کو یقینی بنایا گیا) تو شھیدوں کے بچوں کو انصاف میسر ا سکتا ہے۔ ایک اور مصلحت جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور ممکن ہے کہ بعض حضرات اس پر سیخ پا بھی ہوں۔اس مصلحت میں خود شہدا کی اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور ان کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری بادی النظر میں مبتلا ہیں۔جب سانحہ ماڈل ٹاؤن وقوع پذیر ہوا۔اس وقت پاکستان عوامی تحریک نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں تاریخ ساز تحریک چلائی۔اگرچہ یہ جماعت کبھی بھی سیاسی طور پر کوئی نمایاں کامیابی نہیں سمیٹ سکی لیکن ان کی احتجاجی تحریک اور ان کے کارکنوں نے ملک کی دیگر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ہیچھے چھوڑ دیا۔
لیکن اب اگر دیکھا جائے تو اس تحریک میں گذشتہ کئی سالوں سے کوئی دم خم نہیں رہا۔یہ بات درست ہے کہ انصاف لینے کے لیے قانونی جنگ لڑنی پڑتی ہے اور یہ جنگ عوامی تحریک جراتمندی سے لڑ بھی رہی ہے۔ تاہم اس ملک میں انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتوں کے باہر بھی ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔اب عوامی تحریک کی جانب سے عوامی دباؤ بڑھانے کی پالیسی بالکل دکھائی نہیں دیتی۔عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر
طاہر القادری شھدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف ملنے سے قبل ہی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ عوامی تحریک سڑکوں اور عزیمت کا راستہ بھول کر فیس بک اور سوشل میڈیا کی حدتک رخصت کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو ایک نہ ایک دن ان مصلحتوں کے بت پاش پاش ہوں گے اور ان بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اللہ تعالیٰ اور قانون کی گرفت میں ضرور آئیں گے ۔

%d bloggers like this: