نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریکارڈ ساز طارق عزیز ۔۔۔ نصرت جاوید

میں بہت اشتیاق اور تجسس سے ایسی ریہرسل دیکھتا۔ ان دنوں کے نامی گرامی اداکار بہت شفیق ہوا کرتے تھے۔

طارق عزیز صاحب سے آخری ملاقات اسلام آباد کے پارلیمانی لاجز میں غالباََ 1998میں ہوئی تھی۔ وہ ان دنوں قومی اسمبلی کے رکن ہوا کرتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ 1997کے انتخابات کے ذریعے اس ایوان میں آنے کے لئے انہوں نے لاہور کے ایک حلقے سے آج کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کو شکست سے دو چار کیا تھا۔

بہرحال یہ آخری ملاقات لاہورہی سے آئے ایک اور رکن اسمبلی میاں منیر صاحب کے لئے مختص فلیٹ میں ہوئی تھی۔ میاں صاحب کا تعلق مزنگ کی ایک معروف آرائیں فیملی سے تھا۔ ان کے ایک بزرگ چودھری محمد حسین طویل عرصے تک ایوب خان کے دور میں ہمارے شہر کے مئیر رہے تھے۔ میں اور میاں صاحب جب بھی یکجا ہوتے تو لاہوری ’’تھڑے بازی‘‘ میں مصروف ہوجاتے۔ طارق صاحب خاموش بیٹھے ہم دونوں کی جگت بازی پر زیرلب مسکراتے رہتے۔

اس ملاقات سے چند ہی دن قبل مسلم لیگ (نون) کے متوالوں نے سپریم کورٹ پر یلغارکی تھی۔ میاں منیر اور طارق عزیز حملہ ا ٓوروں میں سب سے نمایاں رہے۔ میاں صاحب کو اس واقعہ کے حوالے سے میں کافی تلخ اور بے ہودہ زبان میں تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔ میاں صاحب ’’ڈھیٹ ہڈی‘‘ بنے مجھے ’’ٹھنڈ جگر ٹھنڈ‘‘ کا مشورہ دیتے رہے۔ میاں صاحب کی جند چھڑانے کے لئے طارق صاحب نے بہت مان سے مجھ سے پوچھا:’’آپا جان دا کی حال اے‘‘۔ غضب سے مغلوب ہوا میں پکاراُٹھا کہ میری ساس کو درمیان میں لاکرگفتگو کا رُخ کسی اور جانب موڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔ طارق صاحب نے میری گستاخی کو کمال بردباری سے نظرانداز کردیا۔

’’آپا جان‘‘ کا ذکر اس لئے آیا تھا کہ ان کا خاندان بھی طارق صاحب کے والد کی طرح قیام پاکستان کے بعد ساہی وال میں آباد ہوا تھا۔ ہم شہر ہونے کے ناطے وہ میری بیوی کے ماموں ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کے بہت قریبی دوست بھی رہے۔ اپنے اپنے شعبوں میں نام کمانے کی جدوجہد کے دوران وہ دونوں لاہور میں ایک ساتھ کئی برسوں تک کرائے کے مکانوں میں بھی رہتے رہے۔ میں مگر اس دن بہت بدلحاظ ہوچکا تھا۔

بدھ کی صبح ان کے انتقال کی خبر آئی تو بہت تواتر سے مجھے انتہائی ندامت سے کئی ایسے واقعات یاد آئے جہاں ان کے ساتھ میں نے ہمیشہ بدلحاظی برتی۔ ان واقعات اور اپنے رویے پر غور کیا تو شدت سے احساس ہوا کہ اپنے ’’مغرور‘‘ دِکھتے چہرے مہرے اور رویے کے باوجود وہ کم از کم میرے ساتھ ضرورت سے زیادہ شفقت فرمایا کرتے تھے۔ حالانکہ ہماری ملاقاتوں کے ابتدائی برسوں کے دوران ہمارے مابین ’’آپا جان‘‘ جیسا کوئی حوالہ موجود نہیں تھا۔

کہانی 1967سے شروع ہوتی ہے۔ میں ہر جمعہ ریڈیو پاکستان لاہور کے سکول براڈ کاسٹ کے لئے نشر ہوتے کوئز پروگرام میں حصہ لینے کے بعد منہ اٹھائے ریڈیو سٹیشن کے پچھواڑے میں واقعہ پی ٹی وی کے اسٹوڈیوز کی طرف چلاجاتا۔ ان دنوں ٹی وی پروگرام براہِ راست نشر ہوا کرتے تھے۔ ڈراموں یا موسیقی کے پروگراموں کو نشرکرنے سے قبل مگر ان کی ’’کیمرہ ریہرسل‘‘ ضروری تھی تاکہ براہِ راست نشریات میں کوئی گڑبڑنہ ہوجائے۔

میں بہت اشتیاق اور تجسس سے ایسی ریہرسل دیکھتا۔ ان دنوں کے نامی گرامی اداکار بہت شفیق ہوا کرتے تھے۔ میں شکل سے بھی کافی معصوم اور مہذب نظر آتا تھا۔ وہ مجھے بہت توجہ دیتے۔ ان ہی دنوں ہر مہینے کی آخری اتوار’’بچوں کا تھیڑ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ بھی ہوا کرتا تھا جس میں ہر عمر کا کردار جو عموماََ بادشاہوں کی کہانیوں سے متعلق ہوتے بچے ہی ادا کرتے تھے۔ آغا ناصر مرحوم کو ریڈیو والوں سے خبر ہوئی کہ میری یادداشت بہت اچھی ہے۔ لاہوری ہوتے ہوئے بھی قینچی والے ’’قاف‘‘ کو درست ادا کرتا ہوں۔ ان ’’صلاحیتوں‘‘ کی بنیاد پر مجھے سب سے لمبی لائنیں بولنے والے شخص کا کردار ’’زبردستی‘‘ تھمادیا جاتا۔ میں بجائے ریہرسل پر توجہ دینے کے ٹی وی نشریات کے لئے نصب آلات کی ’’سائنس‘‘سمجھنے میں مشغول رہتا۔

طارق عزیز صاحب پی ٹی وی کے پہلے انائونسر ہونے کی وجہ سے ان دنوں بھی اساطیری شہرت حاصل کرچکے تھے۔ لوگوں سے عموماََ فاصلہ رکھتے۔ مجھے لیکن کئی بار خود بہت محبت سے اپنے ساتھ بٹھایا۔ بہت شفقت سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں کیمرے سے گھبراتا نہیں ہوں۔ میرے اندر بے پناہ اعتماد ہے۔ تلفظ حیران کن حد تک درست ہے۔ میں اگر ڈرامے کے ہنر پر بھرپور توجہ دوں تو بہت کامیاب ثابت ہوسکتا ہوں۔ میں ان کے ’’لیکچر‘‘ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا۔

میٹرک کا امتحان دیا تو میری آواز میں وہ تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں جوہر مرد کو بلوغت کے ساتھ ملتی ہیں۔ ان دنوں بھی طارق صاحب ایک ریہرسل کو دیکھنے کے بعد مجھے ایک درخت کے نیچے رکھی کرسیوں پر لے گئے۔ سموسے کھلواتے ہوئے انہوں نے مجھے کئی Tipsدیں جن پر عمل کرتے ہوئے میری آواز بلوغت کے مراحل سے گزرکر ’’مائیک کے لئے‘‘ بہت ہی توانا ثابت ہوسکتی ہے۔ بلوغت کی طرف بڑھتے ہوئے لیکن میں اقبالؔ کے اتباع میں ’’اپنی دنیا آپ پیداکر…‘‘ والے جنون میں مبتلا ہوچکا تھا۔ انتہائی رعونت سے طارق صاحب کو آگاہ کیا کہ میں ’’راگ درباری‘‘ گانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ بدلحاظ ہوئے گویا انہیں پیغام یہ دیا کہ وہ اپنے قیمتی مشورے کسی اور کے لئے سنبھال رکھیں۔ میری ان سے بدلحاظی کے اوربھی کئی واقعات ہیں۔ انہیں دہراتے ہوئے شرمسار ہی ہوں گا۔

اپنی ’’بدلحاظی‘‘ یا دکرنا آپ کو یہ بتانے کے لئے ضروری تصور کیا کہ طارق صاحب کا فن کی دُنیا میں محض ’’تکا‘‘ ہی نہیں لگا تھا۔ انہوں نے جنونی لگن سے اپنی آواز کو بے پناہ لگن اور مشقت کے بعد اس قابل بنایاکہ ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں‘‘ کو مخاطب کرتے ہی ان کی بھرپور توجہ حاصل کرلیتے۔ بہت لوگوں کی آواز دل موہ لیتی ہے۔ صدا کاری کے شعبے میں آئیں تو Stress/Pause کی گرائمر سے کھیلتے ہوئے وہ انسانی جذبات کی بے تحاشہ پرتوں کا بھرپور اظہار کردیتے ہیں۔ کیمرے کے سامنے آتے ہی مگر میں نے ایسے کئی صداکاروں کو ’’پھس‘‘ ہوتے دیکھا ہے۔ براہِ راست ٹی وی نشریات میں فقط آواز ہی نہیں چہرے کے تاثرات کو بھی اپنی کامل کمانڈ میں رکھنا جان جھوتھم میں ڈالنے کے برابر ہوتا ہے۔ طارق صاحب ان سب حوالوں سے بے نظیر تھے۔

ان جیسے فن کاروں کو تکنیکی زبان میں Stylish کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں میں ’’اداکار‘‘ بننے کی گنجائش معدوم تر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی ذات اور شخصیت کو مصنف کے لکھے کسی کردار میں کھودینے کے قابل نہیں رہتے۔ اپنے منفرد انداز ہی کی وجہ سے طارق صاحب ’’انسانیت‘‘ جیسی کامیاب فلم میں رونما ہونے کے باوجود فلمی دنیا میں نمایاں مقام حاصل نہیں کر پائے۔ ان کے اندر موجود تڑپ نے مگر انہیں بالآخر یہ دریافت کرنے میں مدد دی کہ ٹیلی وژن اپنے تئیں ایک جدا میڈیم ہے۔اس میڈیم کی اپنی گرائمر ہے۔ اس کے ذریعے ہی خود کو Entertainer ثابت کرنا ہوگا۔

ٹیلی وژن کی منفرد اور جداگانہ مبادیات کو جبلی طورپر جانتے ہوئے طارق عزیز صاحب نے فلموں میں ’’ناکام‘‘ ہوجانے کے باوجود غالباََ 1975سے ’’نیلام گھر‘‘ کاآغاز کیا تو لاہوری زبان والے ’’چھاچھو‘‘ گئے۔ اس پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں اس کے مرحوم پروڈیوسر عارف رانا کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ رانا صاحب کا تعلق بھی ساہی وال سے تھا۔ ان دونوں کی یکساں لگن سے ’’نیلام گھر‘‘ کھڑکی توڑ ہوا۔

اس شو نے لوگوں کو فقط Entertainہ ی نہیں کیا۔ علم ،کتاب اور شعر سے محبت بھی سکھائی۔ تفریح اور علم کا ملاپ بالآخر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے پُرجوش نعرے سے ہوتا۔ وطنِ سے بے پناہ محبت کے جذبات بھی ’’نیلام گھر‘‘ کے ناظرین میں کم عمری ہی سے جاگزین ہوجاتے۔

طارق صاحب کے انتقال کے بعد بہت سے لوگوں نے ٹویٹر وغیرہ پر ان کی ’’سیاست‘‘ بھی زیر بحث لانا چاہی۔ ان کی پنجابی شاعری کا ذکر بھی ہوا۔ نہایت دیانت داری کے ساتھ میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ طارق صاحب فقط ٹیلی وژن کے آدمی تھے۔ ان کی شخصیت ٹی وی میڈیم کے ہنر سے متعلق تمام تر ’’باریکیوں‘‘ کا مجسم اظہا ر تھی۔ اسی تناظر میں دیکھیں تو شاید Larry King کے علاوہ دُنیا بھر میں کوئی ایسا Showman نہیں ہوا جو تقریباََ چالیس برس تک ایک ہی Format میں سکرین پر رونق لگارکھنے کے قابل ہو۔ طارق صاحب اس لئے بھی منفرد رہے کہ وہ ایک یا دو مہمانوں سے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان کا شوعام شہریوں کے تمام طبقات کی نمائندگی کرتے ہجوم کے روبرو ریکارڈ یا براہِ راست نشرہوتا تھا۔ اتنی بڑی Audience کے ساتھ اپنے شو کو پہلے سے طے شدہ ٹائم لائن پرچلائے رکھنا بڑے سے بڑے Entertainer کے بس کی بات نہیں۔ طارق عزیز اس ضمن میں ایک ہی تھے۔ ان جیسا کم از کم میری عمر والوں کو آنے والے دنوں میں دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ ان کی روح کے ایصال ثواب کی دُعا مانگتے ہوئے میں ان کے ساتھ برتی بدلحاظیوں کے بارے میں بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شرمندہ محسوس کررہا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author