مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معذورخواتین اور بچیوں کے ساتھ ہمارے معاشرتی رویے۔۔۔جام وسیم اکبر

ہمارے ہاں ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری ہے انکی تعداد بہت کم ہے جو تعلیم حاصل کر پاتی ہیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ایسے افراد جنہیں کوئی معذوری ہے کی کل تعداد تین کروڑ سے بھی ذیادہ ہے اور ان میں خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے انکی تعداد کل تعداد کا نصف ہے ۔اقوام متحدہ نے ان خواتین اور بچیوں کے حقوق کے بارے میں ء2008میں ایک کنونشن کا قیام عمل لایا گیا جس میں ان خواتین اور بچیوں کے حقوق متعین کیے گئے ۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق حکومت پاکستان نے ان خواتین اور بچیاں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا سامنا ہے کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔اگرچہ حکومتی ادارے اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے میں رہنے والی ان خواتین اور بچیوں کو بہت سے امتیازات کا سامنا رہتا ہے ۔ہمارے معاشروں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معذور بچے والدین کے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔آپ سوچیں کہ اس طرح کی غیرذمہ دارانہ سوچ سے جہاں ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کی دل آزاری ہوتی ہے وہیں بہت سے لوگوں کا ان کے ساتھ رویہ بھی غیر مناسب ہوتا ہے۔معاشرے کے ذمہ دار شہری ہونے کی حثیت سے یہ ہم سب پر لازم ہے کہ اس قسم کی سوچ کی مذمت کریں۔ہمارے ملک میں بہت ذیادہ تعلیمی فقدان ہے،آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے والدین بھی اسے مافوق الفطرت کی مرضی سمجھتے ہیں اور انکے ساتھ ناروا سلوک برتتے ہیں ۔پاکستان میں پولیو کا خاتمہ ابھی تک نہیں ہوا اور ہر سال اس پولیو وائرس کی وجہ سے بہت سے بچے معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں بہت سے والدین ان معذور بچیوں کے علاج کے لیے اسپتالوں کی بجائے پیروں اور درباروں کا رخ کرتے ہیں بلکہ بہت سے والدین انہیں مستقل طور پر درباروں پر چھوڑ آتے ہیں جو کہ ان معذور بچیوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک ہے ۔
ہمارے ہاں ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری ہے انکی تعداد بہت کم ہے جو تعلیم حاصل کر پاتی ہیں ،بہت سے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانا ضروری ہی نہیں سمجھتے جو کہ انتہائی غیر مناسب رویہ ہے اور ایسی خواتین اور بچیاں گھر کے کسی کونے میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہوتی ہیں ۔ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین اور بچیوں کو ان کے نام کی بجائے انکو لاحق معذوری سے مخاطب کرتے ہیں اس سے ناصرف انکی دل آذاری ہوتی ہے بلکہ یہ ایک غیر انسانی عمل بھی ہے ۔ان خواتین اور بچیوں کے نام ہوتے ہیں انہیں انکے ناموں سے پکارا جائے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی لڑکیاں جنہیں کوئی معذوری ہوتی ہے اور وہ شادی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن کوئی ان سے شادی نہیں کرتا اگر کوئی کر لے تو اسے معذوری کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور کئی طرح سے انکی تضحیک کی جاتی ہے ، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اگر آپ اپنے اردگرد کسی کے ساتھ اسطرح ناروا سلوک ہوتے دیکھیں تو اسے روکیں۔ان خواتین اور بچیوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں کسی بھی طرح کا کوئی امتیازی سلوک نہ کریں ۔ ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نرم لہجہ اپنائیں ۔انہیں آپکی شفقت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں وقت پر کھانا دیں اور انکے لیے پانی پینے کا ایسا انتظام کریں جس سے وہ بہ آسانی جب چاہیں بغیر کسی کی مدد کے پی سکیں یا پھر گھر میں کسی نہ کسی فر د کو ان کی نگرانی کے لیے موجود رہنا چاہئیے۔گھر میں موجود واش روم کی رسائی کو ان کے لیے آسان بنائیں ۔
معاشرے میں ایسے افراد جنہیں کوئی معذوری ہے ان کے بارے میں بہت سے غلط رویے پائے جاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان رویوں کو درست کیا جائے آپ کے ایسے رویے معذور افراد کی دل آزاری اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں ، سب سے پہلے تو یہ کہ معذوری ایک منفرد طرز زندگی ہے اور اس طرز زندگی میں جس چیز پر کام کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہر جگہ کی رسائی کو ان کے لیے آسان بنایا جائے اور معاشرہ ان کے اس طرز زندگی کو قبول کرے دوسرا یہ کہ معذور ی کوئی بیماری نہیں انکو علاج معالجہ کے طریقے کار بتانے سے گریز کریں اور تیسرا یہ کہ معذور افراد کو بھکاری نہ سمجھا جائے آپ اکثر دیکھتے ہوں گے مختلف چوکوں،مارکیٹس اور ٹریفک سگنلز پر بہت سی خواتین اور بچیاں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری ہوتی ہے وہ بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں اس سے بہت سے لوگ انہیں بھکاری سمجھ لیتے ہیں اور پھر غیر مناسب رویے سے پیش آتے ہیں۔حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے ایسے لوگ جو ان خواتین اور بچیوں کو استعمال کر کے بھیک منگواتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اور ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ حقوق کی آگاہی مہیا کریں۔
ہم اپنے رویوں میں بہتری لا کر ان خواتین اور بچیوںکی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں بہت سے لوگ معاشرے میں یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذور ی ہے کوہر وقت آپکی مدد کی ضرورت ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر کوئی آپ سے مدد کا کہے تو اس کی مدد کریں۔ آپ کسی شخص میں معذوری ڈھونڈنے کی بجائے اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھیں کے کیا چیز بہتر ہو سکتی ہے جس سے انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو اور جب آپ ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے سے گفتگو کریں تو آپ کا انداز گفتگو ایسے ہو جیسے آپ کسی بھی شخص سے بات چیت کرتے ہیں اور ہائے ببچاری جیسے الفاظ استعمال نہ کریں اور ضرورت سے ذیادہ ہمدردانہ رویہ بھی انکے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔بہت سی بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے آپ انہیں تفریحی سرگرمیوں میں برابر شامل کریں اور کسی قسم کا کوئی فرق نہ کریں ،انہیں مارکیٹس ساتھ لے جائیں انکی پسند کا خیال رکھیں ۔ تمام والدین اپنے بچوں کو بتائیں کہ معذوری ایک منفرد طرز زندگی کا نام ہے تاکہ وہ مستقبل میں ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کے ساتھ مل جل کر بغیر کسی منفی رویے کے ساتھ تعاون جاری رکھیں ۔ عوامی مقامات جیسے پارکنگ جو ان خواتین اور بچیوں کے لیے مختص ہیں ان کو اپنے استعمال میں نہ لائیں۔
آئیں ہم سب مل کر معاشرے میں ایسی تمام خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کے ساتھ بہتر رویے اپنائیں اور معاشرے کے اندر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں معذوری والدین کے گناہوں کی سزا نہیں بلکہ یہ ایک جینیاتی مسئلہ ہے۔ ان خواتین اور بچیوں کے ساتھ نہ صرف مناسب رویہ اپنائیں بلکہ انکے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔

%d bloggers like this: