ہر وہ لمحہ جوگزر جاتا ہے، ماضی بن جاتا ہے ۔ ماضی کا ہر وہ لمحہ جو ضبطِ تحریر میں آجائے، تاریخ بن جاتا ہے ۔ مُردہ سے مُردہ اقوام ، ممالک، ریاستیں اور افراداس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہتے ہیں ۔ اور وہ تمام افراد، اقوام،ممالک اور ریاستیں جو حال میں زندہ ہوں مگر بے تاریخ ہوں ، جیتے جی قِصہَ پارینہ ہوجاتے ہیں ۔ بلکہ ایک ایسے ماضی کے سپرد ہو جاتے ہیں جو اپنی پہلی ساعت سے گمشدہ ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں ہمیشہ حکمرانوں کی تاریخ لکھنے اور پڑھانے کا رواج رہا ہے ۔ عہدِمُغلیہ کے تاجدار شہاب الدین محمد شاہجہان کا عہد کل ہی کی بات ہے ۔ تاج محل آج بھی زمین پر اُسی آب و تاب کے ساتھ ایستادہ ہے جس جاہ وتمکنت کے ساتھ وہ پہلے دن موجود تھا ۔ ۔۔۔ دنیا کے سات بڑے عجوبوں میں سب سے حسین عجوبہ۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حکمران کا نام زندہ ہے، کام زندہ ہے ۔ مگر کام والے بے نام و نشاں ہیں ۔ (شاید سیٹلاءٹ کے نظام میں اتنی ترقی ہوجائے کہ اُس کو زمانہ اور زمین کا کوئی ٹکڑا دیا جائے اور وہ اُس زمانے کی زمین پر ہونے والی سرگرمی کو تھری ڈی فلمی شکل میں دکھا دے تو تب جا کر پتہ چلے کہ کون تاج محل تعمیر کر رہاتھا اور کون اہرامِ مصر ۔ ورنہ تویہ گمشدہ ماضی ایک سربستہ راز کے سوا کچھ بھی نہیں ) ۔
ہمارے ملک میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ تو ہر جماعت میں پڑھائی جاتی ہے ۔ مگر پڑھنے والے کواُن کے اپنے جائے پیدائش ، جائے سکونت کی تاریخ کا کوئی پتہ نہیں ۔ کچھ دیوانے مصروف ہیں کہ پاکستان کے چپے چپے کے بارے میں جو جو صفحہ ملتا جائے اُس کو محفوظ کیا جائے ۔ اس کوشش میں ملک کے طول و عرض میں غیر سرکاری سطح پر لوگ محض اپنی علمی تشفی کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر مطلوبہ دستاویز ات اکٹھا کرنے میں جُٹے ہوئے ہیں ۔ تا کہ ہر علاقے کے تاریخی خد وخال نمایاں کئے جا سکیں ۔ یوں ماضی کی دستیاب معلومات کی روشنی میں تمام علاقے اپنے مستقبل کی راہ خودمتعین کر نے کے قابل ہو سکیں ۔
سرائیکی صوبہ تحریک کے منظرِ عام پہ آنے کے بعد پاکستان کے تمام سرائیکی علاقوں کی تاریخ اکٹھی کرنے کا ایک سلسہ شروع ہوا ۔ تا کہ پاکستان کے موجودہ صوبہ جات میں نئے اضلاع کی تشکیل کے ذریعے سرائیکی وسیب کو اُس کے جُغرافیہ سے محروم نہ کیا جا سکے جیسا کہ پنجاب میں ہوا ۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے صوبہ مُلتان کا خاتمہ کرکے ملتان کو لاہور کے طابع کر دیا ۔ تب سے لے کر آج تک لاہور ملتان پر قابض چلا آ رہا ہے حالانکہ موجودہ قابضین او ر مقبوضین کا مذہب ایک ہے ۔ مگر جو نا انصافی اور نفرت سکھوں اور انگریزوں نے روارکھی، موجودہ صاحبانِ اقتدارنے ا ُس کا ازالہ کرنے کے بجائے نہ صرف اُس تسلسل کو برقرار رکھابلکہ اُس میں مزید بگاڑ پیدا کیا ۔ موجودہ حاکموں نے اپنی مرضی سے سرائیکی خطے میں نوآبادکار بسا کر نئے اضلاع اور تحاصیل اس چالاکی سے تشکیل دیئے کہ سرائیکی پنجابی کے نئے تناسب نے سرائیکیوں کو اپنی جنم بھومی اور زمینی استحقاق سے محروم کر دیا ۔ جب اپنوں کی من مانیاں اس درجہ بڑھ جائیں تو ہر علاقے کی تاریخ مرتب کرنے کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے ۔ حکمران طبقے کی تاریخ کے بر عکس عوام کی مرتب کی گئی تاریخ حکمران طبقے کے مذموم مقاصد پر مبنی ایسی غیر عوامی حد بندیوں کے آگے عوامی شعور کی ایک دیوار چننے کا کام دیتی ہے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان سرائیکی وسیب کا ایک اہم ڈویژن ہے ۔ جس کو لارڈ کرزن نے 9 نومبر1901 میں اپنے باقی خطہ ، جو کہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ کوٹ سلطان (لیہ) سے لے کر کلورکوٹ (میانوالی) تک اور مشرق کی طرف حیدرآباد تھل (جھنگ) تک پھیلا ہواتھا،سے کاٹ کر اپنی انتظامی خواہشات کی تکمیل میں نئے صوبہ ’’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘‘ میں ضم کر دیا ۔ لاہور میں ملتان کے ادغام کے نتاءج کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈیرہ باسیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کواپنے اصل وسیب سے گم شدہ ڈویژن کی صورت میں دیکھنا شروع کر دیا ۔ لہٰذا منشی چرن جیت لال، جسونت رام ایلا وادی، قادر داد خان گنڈہ پور، غلام حسین دمانی،پروفیسر میاں اقبال ندیم اور سید حفیظ اللہ گیلانی نے مختلف ادوار میں ڈیرہ
اسماعیل خان کا تاریخی احاطہ کرکے ڈیرہ والوں کی ےاداشت کو تازہ کرتے رہے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کی تاریخ لکھنے میں جن نسخوں کی کھوج کی گئی ان میں ایک اہم نسخہ گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884بھی تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے ۔ بظاہر یہ دستاویز اس لئے مدوّن کی گئی کہ انگریز حکومت ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی عملداری کو ان اعداد و شمار کی روشنی میں مزید موَثر بنا سکے ۔ مگر آج کے دور میں اس دستاویز کا مطالعہ سوسال پہلے کے ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود اقوام، حیوانات ، نباتات، اشیائے خوردونوش، روزگار، پیشوں اور رویوں کے بارے میں ایک دلچسپ تجزیہ پیش کرتا ہے ۔ اس دستاویز میں انگریز کو تاریخی حوالے سے جو سنی سنائی داستانیں ملیں وہ بھی درج ہیں ۔ کہیں کہیں تاریخی حالات و واقعات کی درستگی بھی مطلوب ہے ۔ مگر اس کا اردو میں من وعن ترجمہ کرکے ڈیرہ باسیوں کے لئے ماضی کا وہ جھروکا وا کیا گےا ہے جہاں سے وہ اپنے علاقہ کے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں ۔
گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمہ میری دیرینہ خواہش تھی ۔ انگریزی پر پکڑ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے گزیٹئیر کا ترجمہ میرے بس کی بات نہیں تھی ۔ اس سلسلے میں میرے محترم دوست پروفیسر قیصر انور کارلونے کئی عمدہ تجاویز بھی دیں ۔ جن میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ اپنے اُن احباب سے رابطہ کرتے ہیں جنہیں انگریزی اور اردو پر یکساں قدرت حاصل ہے ۔ اس سلسلے میں شیخ ارشد عباس، امتیاز حسن بلوچ، ملک علی آصف سیال، پروفیسر انوار صفدر اور پروفیسر سید عابد حسین شاہ سے بات چیت کی جنہوں نے اپنے تعاون کا کامل یقین دلایا ۔ دریں اثنا 2007 میں غلام عباس سیال کی آسٹریلیا سے ڈیرہ اسماعیل خان آمد ہوئی ۔ عباس کے ادبی رحجان اور انگریزی پر دسترس کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کے ترجمے کی درخواست کی ۔ انہوں بصد خوشی رضامندی ظاہر کردی اور گزیٹئیرکے ترجمے کابیڑا اپنے کندھوں پہ اُٹھا لیا ۔ غلام عباس سیال نے کمالِ انہماک سے ڈیرہ اسماعیل خان کی اس اہم تاریخی دستاویز کا 2013 میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر ڈالا ۔ ہم تمام احباب غلام عباس سیال کے تہہِ دل سے ممنون ہیں کہ جنہوں نے شب وروز کی محنتِ شاقہ سے ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک بھولی بسری تاریخی یاد کو نئی ڈیرہ وال نسل تک تازہ ترین دستاویز کی شکل میں پیش کیا ۔
کمشنری نظام چونکہ پاکستان میں دوبارہ بحال ہو چکا ہے ۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ ترجمہ شدہ گزیٹیئر ڈیرہ اسماعیل خان کی انتظامیہ کے فراءض کی ادائیگی میں مشعلِ راہ ثابت ہوگا ۔ موجودہ انتظامی ، فلاحی اور رفاہی سرگرمیوں میں سمت کا جو فقدان دکھائی دیتا ہے وہ اس گزیٹئیر کی اردو اشاعت کی بدولت تحقیقی بنیادوں پر دستیاب اعدادوشمار کی روشنی میں خدمات سرانجام دینے کا باعث بنے گا ۔ اُمید ِ واثق ہے کہ گزیٹیئر ڈیرہ اسماعیل خان کی اردو اشاعت ڈیرہ اسماعیل خان کے موَرخین کے لئے اپنے علاقہ کی نئی جہتیں تلاشنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔ آخر میں انگریزانتظامیہ کواس گزیٹیئر ڈیرہ اسماعیل خان کی انگریزی تدوین و طباعت پر داد کا مستحق سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے فراءض کی بہتر انجام دہی کے لئے علاقے اور اس کی آبادیاتی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کی اورزمینی حقائق کی بنیاد پر غیر جانبدارانہ انداز میں اتنی تندہی سے اعداد و شمار اکٹھے کئے اور اس کی اشاعت کی ۔
یہ بھی پڑھیے: سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ