نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملکی معیشت اور پیپلزپارٹی ۔۔۔قانون فہم

کرونا کی آمد سے پہلے پاکستان کی معیشت 2009 کی معیشت میں تبدیل ہو چکی ہے۔

ملکی معیشت کو ماپنے کیلئے چار چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔
1: ایکسپورٹس / امپورٹس کا فرق
2: ریمیٹینسز ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی جو رقوم پاکستان بھجواتے ہیں۔
3: فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری
4: ایسٹ انکم ۔ مطلب سرکاری ۔ ریاستی اداروں کمپنیوں کا کل نفع یا نقصان ۔
2013 میں ان سب کا ٹوٹل منافع میں تھا۔
یعنی معیشت بیلینس میں تھی ۔
پھر مسلم لیگ نواز آئی اور
2018 میں یہ خسارہ 22 ارب ڈالر سے بڑھ چکا تھا۔
اب آپ کچھ چیزیں یاد رکھیں 2008 میں جب پی پی پی کی حکومت کو کو اقتدار منتقل ہوا تو پوری دنیا میں مالیاتی کسادبازاری تھی امریکی معیشت کو چین نے قرضہ دے کر بچایا تھا۔ پورا یورپ بری طرح معاشی طور پر غیر مستحکم تھا تمام ترقی یافتہ دنیا کی معیشت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔
پاکستان میں ایک تہائی ملک دہشت گردوں کے مکمل کنٹرول میں جا چکا تھا۔ روز خبریں آتی تھی کہ دہشت گرد آج یا کل اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔ جی ایچ کیو پر قبضہ کی کوشش دو بار ناکام ہوچکی تھی۔ سوات مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضہ میں تھا اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گرد روزانہ بم دھماکے اور کارروائیاں کر رہے تھے۔ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے برباد ہو چکے تھے۔
پٹرول کی بین الاقوامی قیمت بلند ترین سطح پر تھی ۔ پی پی پی
کے پانچ سالوں میں پٹرول کی اوسط قیمت 95 ڈالر فی بیرل رہی۔
پورے پانچ سال پی پی پی کی حکومت کو پٹرول کی قیمت اور بجلی کی قیمت پر بھاری سبسڈی دینا پڑی ۔
پی پی پی حکومت نے متبادل کے طور پر گیس امپورٹ کرکے بجلی گھر اور گاڑیاں چلانے کی کوشش کی جیسے مسلم لیگ نواز اور افتخار چوہدری کی گٹھ جوڑ نے ناکام بنا دیا۔
2010 اور 2012 میں تاریخ کے بدترین دو بڑے سیلاب آئے۔
پی پی پی کے کم از کم 100 ترقیاتی منصوبوں کو سپریم کورٹ نے بلاک کیا اور احکام امتناعی جاری کئے۔
سنگاپور کی کمپنی سے سے گوادر کی بندرگاہ خالی کرواتے کرواتے چار سال ضائع ہوگئے جس کی وجہ سے سی پیک معاہدہ جو بہت پہلے ڈیزائن کیا جا چکا تھا اس پر باقاعدہ دستخط 2013 میں جاکر ہو سکے ۔
عدلیہ میڈیا یا مسلم لیگ نون ن اور تمام سرکاری اداروں نے پی پی پی کے ہر قدم کی ہر موڑ پر مزاحمت کی۔
اس سب کچھ کے باوجود پی پی پی نے تاریخ میں سب سے زیادہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔
برآمدی انڈسٹری کو مستحکم کیا اور برآمدات کی جو شرح پی پی پی 2013 میں پہنچا گئی تھی وہ دوبارہ کبھی حاصل نہ کی جاسکی۔
کپاس، چاول اور گندم کی پیداوار کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ جو آج تک توڑنا ممکن نہیں ہوئے۔ آپ پھر یاد رکھیں کہ 100 سے زائد ترقیاتی منصوبے سپریم کورٹ کی نظر ہوئے اور کم از کم ایک ہزار سے زیادہ احکامات امتناعی سپریم کورٹ نے مختلف انتظامی امور میں جاری کیے تھے۔
اس سب کچھ کے باوجود 2013 میں جب اقتدار منتقل کیا گیا تو ملک میں امن و امان کی صورتحال 90 فیصد تک بہتر ہو چکی تھی۔ صنعتیں چل رہی تھی۔ امن و امان تھا ۔ ریل گاڑیاں چلنا شروع ہوگئی تھیں۔ تجارت صنعت اور زراعت سے متعلقہ لوگ مطمئن اور مسرور تھے۔ 2013 میں مسلم لیگ نواز کے اقتدار میں آتے ہی دہشت گردی مکمل طور پر ختم ہوگئی پیٹرول کی بین الاقوامی قیمت ایک تہائی گی یعنی 32 ارب ڈالر فی بیرل تک آ گئی ۔ مسلم لیگ نون کے پانچ سالوں میں پیٹرول کی اوسط قیمت 60 ڈالر فی بیرل رہی ہیں۔
یعنی مسلم لیگ نون کی حکومت کو پانچ سال 4 ارب ڈالر سالانہ بچت صرف پٹرول کی امپورٹ کی مد میں ہوتی رہی۔
اس سب کچھ کے باوجود مسلم لیگ نون کی حکومت ایک مستحکم پاکستان اگلی حکومت کو نہ دے سکی۔ نہ نئی سرکاری ملازمتیں پیدا کی گئیں۔ اور نہ پرانے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کیا گیا۔ بجلی اور پٹرول کی بلندترین قیمتیں مقرر کی گئی اور ریاست ان میں بھاری منافع کماتی رہی ۔ بجلی کی قیمت میں 4 روپے فی یونٹ تھی وہ پٹرول سستا ہونے کے باوجود 22 روپے فی یونٹ تک مہنگی کی گئی اور پورے ملک کی صنعتوں کو بند کرکے لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کا ڈرامہ کھیلا گیا۔
اس کے بعد صاف چلی شفاف چلی یعنی تبدیلی آگئی۔
آج عمران خان اور اسد عمر کی نوٹنکی کھیلنے کی پوری کارکردگی سامنے آ چکی ہے۔
کرونا کی آمد سے پہلے پاکستان کی معیشت 2009 کی معیشت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاست میں درآمد شدہ ٹاؤٹ اور دلال ملکوں کو چلانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
یہ سادہ ترین جمع تفریق اور کاروباری معاملات کو بھی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ملکی معیشت مکمل طور پر برباد ہو چکی تھی پھر ان کی قسمت سے کرونا کی وبا آگئی اور انہوں نے کرونا کو اپنی ڈھال بنا کر کھیلنا شروع کر دیا۔
کرونا کی وجہ سے حکومت پاکستان ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ امداد وصول کر چکی ہے۔ پاکستان کو پٹرول کی قیمت کی کمی کی وجہ سے چھ ارب ڈالر کا منافع متوقع ہے۔ 12 ارب ڈالر جو سالانہ پاکستان نے سابقہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف کرنا ہوتے ہیں وہ بھی اڑھائی سال کے لئے موخر کئے جا چکے ہیں۔
اس کے باوجود ان چوروں ڈاکوؤں بےایمانوں اور دلالوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
یہ ہے پاکستانی معیشت کا مختصر خلاصہ
سب مسائل کا حل عوام راج۔

About The Author