نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یکبئی کوہ سلیمان کی سیر۔تصویر کہانی

اس پہاڑ پر ایک سے بڑھ کر ایک کئی خوبصورت مقامات، آبشاریں ، ٹھنڈے چشمےاور جھرنے موجود ہیں جو ارباب اقتدار کی توجہ کے متقاضی ہیں۔

تحریر وتصاویر:محمد طارق قیصرانی


اتوار کو ملتان اور ڈیرہ غازی خان تعلق رکھنے والے کراس روٹ کلب کے ٹورسٹ ساتھیوں نے یکبئی اور فرورٹ منرو کوہ سلیمان کا ایک روزہ ٹور پروگرام بنایا ۔ میں نے محترم جناب ڈاکٹر سید مزمل حسین شاہ صاحب کو فون پر گزارش کی کہ میں بھی ساتھیوں کو جوائن کرنا چاہتا ہوں ۔

شاہ صاحب نے کمال شفقت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے ٹور لیڈر جناب بھائی شہباز اکبر صاحب سے رابطہ کرکے مجھے ان کا فون نمبر دیا۔ میرے رابطہ کرنے پر شہباز بھائی نے بتایا کہ بھئی ہم تیار ہیں آپ پٹرول پمپ پر آجائیں ۔ میں زرا لیٹ تھا تو میں نے انہیں کہا کہ آپ سفر شروع کریں میں بھی آرہا ہوں۔ ٹول پلازہ سے تھوڑا آگے میں بھی گروپ کے ساتھ ہو گیا۔ چلتے ہوئے دوستوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ کسی بھی دوست سے میری بالمشافہ کوئی ملاقات نہیں تھی۔ ڈیرہ سے تعلق رکھنے والے بھائی حسام خان بزدار بطور گائیڈ اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔گڑدو موڑ سٹیل پل پر ساتھی فوٹو گرافی کیلئے رکے تو کچھ دوستوں سے رسمی تعارف ہوا۔ اس سے زرا آگے پھر فوٹوگرافی کیلئے ساتھی رکے تو پھر چند دوستوں کے ساتھ مختصر تعارف ہوا۔

ساتھی فوٹوگرافی میں مصروف تھے میں اس دوران خیالات کی وادی میں پہنچ گیا اور اپنی سوچوں میں گم سوچنے لگا کہ ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کو اللہ رب العزت نے اپنی بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے اور ان پہاڑوں کا جب بھی سینہ چیرا گیا،انہوں نے کبھی اہل وطن کو مایوس نہیں کیا کبھی اس نے سیال سونے کے اپنے ذخائر لٹا دیئے تو کبھی پاکستان کو ایٹمی پاور بنانے میں کلیدی کردار اداکیا لیکن اہل وطن کے ارباب اختیار نے اس پہاڑ کی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں دیا۔

اس پہاڑ پر ایک سے بڑھ کر ایک کئی خوبصورت مقامات، آبشاریں ، ٹھنڈے چشمےاور جھرنے موجود ہیں جو ارباب اقتدار کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ جن میں گربن کی آبشاریں اور جھرنے ، نیچرل بیوٹی کا حسین امتزاج لیئےبیہو ٹاپ کا ٹھنڈا ٹھار علاقہ یکبئی کی خوبصورت پہاڑیں، غاریں اور فورٹ منرو کے ٹھنڈے پانی کے چشمےاور جھرنے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

بات صرف پہاڑوں تک محدود نہیں مقامی بلوچ قبائل کی زمینوں سے تیل اور گیس نکال کر پورے پاکستان میں اسکی سپلائی کی جارہی ہے لیکن مقامی لوگوں کے حق دار ہونے کے باوجود بھی انھیں اس سے محروم رکھا گیا ۔ سکولز نہ ہونے کے برابر ہیں، کالجز اور یونیورسٹیز کا تو تصور تک نہیں۔ انہیں ایک نعرہ مستانہ دیا گیا ہے کہ۔

بھیڑ بکری پال بلوچا

ہو جا مالا مال بلوچا

(پتہ نہیں ویٹرنری میں ترقی کا کونسا راز پوشیدہ ہے مجھے تو آج تک پتہ نہیں چلا اگر کوئی دوست رہنمائی فرمائیں تو ممنون رہوں گا)

یہ نعرہ میں نے پورے پاکستان میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ خیر کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں

ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاوں۔

کیا کبھی یہاں ترقی کے دروازے کھلیں گے، کیا کبھی ان پہاڑوں کو بہترین سیرگاہوں میں تبدیل کیا جائے گا، کیا کبھی یہاں ناردرن ایریاز کی طرح ٹورسٹ آئیں گے یا صرف میرے ایکسپلورر ساتھی ایکسپلور کرتے کرتے تھک جائیں گے اور کیا کبھی مقامی بلوچ بھی کوکنگ کیلئے گیس استعمال کر سکیں گے یا ان کے بچوں کی آنکھیں بھی لکڑیوں سے جلائی گئی آگ کو پھونک پھونک کر بینائی سے محروم ہوتی رہیں گی؟میں افسردگی کے ساتھ یہ سوچ رہاتھا کہ بھائی حسام خان بزدار کی آواز میرے کانوں میں آئی،

"دوستو آ جاو دیر ہورہی ہے”۔

تو سوچوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آیا۔ سب دوست وہاں سے اللہ کا نام لیکر چل پڑے۔ 10 منٹ کے بعد ہم فورٹ منرو کے ہوٹل( ہوٹیل) پر سستا رہے تھے۔ یہاں تھوڑی دیر آرام کیا ٹک شاپ سے لیز اور بسکٹ لیئے اور اگلی منزل یکبئی کیلئے کمر بستہ ہوئے.

فورٹ منرو سے روانگی کے وقت ساتھیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ سات احباب چھ موٹرسائیکلوں پر یکبئی کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فورٹ منرو سے آگے2 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک سنگل لنک روڈ یکبئی کی طرف مڑ جاتا ہے جس کو ایک معیاری روڈ تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا لیکن مقامی بلوچوں کیلئے یہ کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ لیڈ کرتے ہوئے بھائی حسام خان بزدار نے بائیک روڈ سے ہٹ کر روکی اور ساتھ ہی سب ساتھیوں کو بلا کر کہا ” آپ نے ڈاکٹر جناب سید مزمل حسین شاہ کی تصاویر دیکھی ہوں گی، وہ اکثر اسی لوکیشن کی ہیں” ہمارے بالکل سامنے مغربی جانب تاحد نگاہ( دھند کی وجہ سے حد نگاہ تقریبا 15 کلومیٹر تھی)صوبہ بلوچستان کی انتہائی حسین وادی رکنی دعوت نظارہ دے رہی تھی۔

یہاں چند کلکس کے بعد پھر آگے بڑھے اور خطرناک پہاڑی راستے سے ہوتے ہوئے ایک اور خوبصورت جگہ پر حسام بھائی نے ساتھیوں کو روک کر کہا ” یہ خوبصورت لیکن انتہائی خطرناک کھائیاں ہیں،ان کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلو”

بھائی حسام کی فطرت سے محبت اور بہترین لوکیشنز سیلیکٹ کرنے پر اگر ان کو خراج تحسین پیش نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی۔

” شکریہ بھائی حسام خان بزدار صاحب ” 

یہیں سے پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ راستے میں یکبیی ٹاپ پر دسترخوان کے بغیر فاسٹ فوڈز اور مینگوز کا دور چلایا اور یہیں پر ساتھیوں سے مکمل تعارف بھی ہوا۔ احباب میں جناب شہباز اکبر، صدام حسین، رضوان ستار، ڈاکٹر سلمان، رضوان ملک ملتان سے آ رہے تھے اور ڈیرہ غازی خان سے بھائی حسام خان بزدار اور راقم الحروف نے گروپ کو جوائن کیا۔ 

واپسی پر بلوچوں کی حالت زار دیکھ کر دل افسردہ ہو گیا۔ بیچارے جوہڑ نما تالاب میں جانوروں کے ساتھ پانی پی رہے تھے۔ بجلی کا تصور نہیں اور کسب معاش کے طور پر کابلی کیکر کاٹ رہے تھے۔ ان کیکر کو خشک کرنے کے بعد گدھوں پر لاد کر فورٹ منرو یا پھر رکنی کے بازار میں بیچا جاتا ہے جہاں ہوٹل والے ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوڑیوں کے مول خریدتے ہیں۔ 

1.30پرہم فورٹ منرو واپس آ گئے۔ بھائی حسام یہیں سے اجازت لیکر واپس ڈیرہ غازی خان چلے گئے۔ 

نماز کے بعد فورٹ منرو ٹاپ پر گئے پارکنگ والے 30 روپے وصول کر رہے تھے لیکن ہماری پارکنگ فری ہوئی۔ DC ہاوس،PAہاوس اور کمشنر ہاوس کیطرف پارٹیشن سے پہلے کی کچھ خستہ حال عمارات تھیں ساتھ ہی انگریزوں کا قبرستان تھااور یہ سب ممنوعہ علاقہ تھا لیکن ہمارے لیئے سیکورٹی پر مامور اہلکار نے گیٹ کاتالا کھولتے ہوئے اندر جانے کی اجازت دی جہاں ساتھیوں نے خوب انجوائے کیا اور جی بھر کے فوٹوگرافی کی ۔

فورٹ منرو ہی میں لنچ کا پروگرام بنایا لیکن بارڈر ملٹری پولیس والے ہوٹلز کو بند کرا رہے تھے کسی کو کھانا کھانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی لیکن الحمداللہ ہمارے لیئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ کھانا کھانے کے بعد ساتھی اجازت لیکر واپسی کیلئے عازم سفر ہوئے اور میں وہیں مقامی دوستوں کے ساتھ رک گیا۔ رات گئے ساتھی بخریت اپنے اپنے آشیانوں پر پہنچ گئے ۔ یوں ہمارا ایک دن کا یادگار ٹور اختتام پذیر ہوا ۔


خصوصی شکریہ۔ 

جناب مکرم ترین جہانگرد چئیرمین کراس روٹ کلب

جناب ڈاکٹر سید مزمل حسین شاہ صاحب 

جناب ڈی ایم جمیل صاحب 

وسیب ایکسپلورر 

کراس روٹ کلب ڈیرہ غازی خان چیپٹر ( تونسہ شریف )

About The Author