دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ میں جمہوریت اور قومی سوال کے امتحان ۔۔۔ اسلم خواجہ

دسمبر 2007 کے آخری ہفتے میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت بالخصوص سندھ کی جدید سیاسی تاریخ میں ایک اہم پڑاؤ ہے۔ اس شہادت کے بعد کے تین روز تک سندھ کی عوام کی جانب سے ریاست پاکستان کی املاک کا گھیراؤ جلاؤ انکی ریاست سے لاتعلقی کا ایک بھرپور مظہر ہے۔ تاہم بے نظیر صاحبہ کے سوئم کے موقع پر سیاسی قیادت کی جانب سے “جمھوریت بہترین انتقام ہے” کے نقطہء نظر کو سندھ کی عوام کی جانب سے پزیرائی ملنے کی ایک اہم گواہی فروری 2008 کے اوائل میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں سندھ کے لوگوں کی جانب سے بھرپور شرکت سے ملتی ہے۔
میں ذاتی طور پر 2008 سے 2020 تک سندھ کی سیاست میں تین اہم تبدیلیاں دیکھتا ہوں۔ 2008 میں عبدلخالق جونیجو کی سربراہی میں جیئے سندھ محاز نے سندھو دیش کی آزادی کے حصول سے متعلق جی ایم سید کے اختیار کیے گئے اپنے پارٹی پروگرام کی جگہ قومی حق خود ارادیت کے پروگرام کو اختیار کیا، جس نے سندھ کی قومی حقوق اور قومی آزادی کی تحریک کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی۔
جناب آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2010 میں اپنے پہلے پارٹی سربراہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مضبوط مرکز کی پالیسی کو ترک کرکے پارلیمنٹ سے آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی، جس نے صوبوں کے لیے قدرے زیادہ خودمختاری کو یقینی بنایا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہی صدر زرداری کے دورہ افغانستان کے موقع پر سندھی ٹوپی پہننے پر ٹی وی چینلز پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں سندھیوں نے اپنی روایتی ایجی ٹیشن کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنی ثقافت کا جشن مناتے ہوئے اس کو سالانہ تقریب کا روپ دے دیا، جس کے نتیجے میں سندھی ثقافت نہ صرف اندرون اور بیرون ملک متعارف ہوئی اور سندھیوں کی اپنی ثقافت سے وابستگی سامنے آئی بلکہ ٹوپی اور اجرک سمیت تمام ثقافتی عناصر کی کھپت کے نتیجے میں مقامی معیشت اور کاریگروں کو مالی فوائد بھی حاصل ہوئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل بارہ سالہ حکومت اور بالخصوص اٹھارویں ترمیم کے تحت حاصل کچھ اختیارات کے باعث کئی ایک شعبہ جات میں 2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلاب کے باوجود ترقیاتی کام ہوئے ہیں جن میں سے کرونا کی وبا کے دوران شعبہ صحت میں سندھ کی بہتر صورتحال واضح طور پر نظر آتی ہے جبکہ تاریخ، ثقافت، آثار قدیمہ، روڈ نیٹ ورک اور قانون سازی کے امور میں بھی قابل رشک ترقی دیکھی جاسکتی ہے۔
سماجی اور قانون سازی کے ضمن میں محنت کشوں، کسانوں، خواتین، بچوں اور دیگر محروم طبقات اور پرتوں کے حوالے سے سندھ میں ہونے والا کام یقیناً مستقبل میں دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
سندھ میں باقی صوبوں/وفاق کے مقابلے میں زیادہ ترقی پسند اور سیکولر حکومت ہونے کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی اور جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی حکمران پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو سے لیکر سول سوسائٹی کے عام اراکین کی جانب سے یکساں طور پر مذمت اور مزاحمت نے سندھ میں مذہبی انتہا پسندی کو تاحال بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا ہوا ہے تاہم اس ضمن میں زیادہ منظم انداز میں سیاسی طور پر اس عفریت سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران سندھ میں سیاسی، علمی اور سماجی پیش رفت نظر آتی ہے، جس میں سندھ کے سیاسی مسائل، انتہا پسندی، سندھی سماج کے تنقیدی جائزے سمیت کئی ایک معاملات زیر غور آتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اپنے معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیکر خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش ہوتی ہے بلکہ اس عمل نے ایک مرتبہ پھر سندھ کے نوجوانوں کو مطالعے کی جانب راغب کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک سندھ کے مخصوص لوگ ہی سوشل میڈیا پر موجود تھے تاہم کرونا کی وبا کے دوران جب عملی سماجی زندگی پر قدغن لگ گئی ہے تو سندھی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا ہے۔ وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں سندھ حکومت کے اقدامات کی حمایت میں کچھ سؤ افراد کی شروع کی گئی مہم نے ان دنوں جی ایم سید کی برسی، مرکزی حکومت کے اتحادی جی ڈی اے سے سندھ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے، بھاشا ڈیم کی مخالفت، کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کی مخالفت، جعلی ڈومیسائلز رد کرنے کی حمایت نے سوشل میڈیا پر لاکھوں سندھی صارفین کو متحرک کیا ہے۔ اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ نوجوان صارفین نہ صرف اپنی سیاسی قیادت کو سیاسی پوزیشن واضح کرنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ ان کی جانب سے زبان کی لغزش کو بھی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔
اس تمام تر تحرک اور سیاسی بیداری سے پریشان قوتیں اپنی کارستانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں قرائن بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اضافہ ہی ہوگا۔
اٹھارویں ترمیم اور سندھیوں کے ووٹ سے منتخب سندھ حکومت کے خاتمے کی کوئی آئینی اور قانونی صورت نہ ہونے کی وجہ سے ریاستی ادارے سندھ میں نسلی فسادات کراکے یا سندھ کی قیادت کو جسمانی طور پر منظر سے ہٹا کر سندھ کو فسادات کی آگ میں دھکیل سکتے ہیں جس کو ناکام بنانے کے لیے سندھ کی عوام سمیت تمام تر جمہوریت پسند اور ترقی پسند قوتوں کو آگے آنا ہوگا۔
مستقبل میں سندھ کے سامنے آنے والے مسائل اور ان سے نبردآزما ہونے کے ضمن میں میرے خیال میں بنیادی نکتہ سندھ کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے جس کی بنیاد ہم اٹھارویں ترمیم پر رکھ سکتے ہیں۔ اس دوران سندھ کے وسائل، روزگار اور نصاب کے امور پر میرے خیال میں سندھ کے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو دیگر اقوام کے افراد کے ساتھ ایک نتیجہ خیز اور مثبت ڈائلاگ شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کے بنیادی نقاط میں بوجۂ روزگار دیگر علاقوں سے سندھ آنے والے افراد کی قانونی اور آئینی حیثیت کا تعین، دریائے سندھ کے پانی کی ازسرنو تقسیم کا فارمولا، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عوامی لڑائی میں ایک دوسرے سے تعاون، صوبوں کے مزید مالیاتی اور دیگر فوائد کو یقینی بنانے کی غرض سے اٹھارویں ترمیم پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور اس میں مزید وسعت لانا شامل ہیں۔
میرے خیال میں ملک کو حقیقی معنوں میں وفاقی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کا یہی واحد راستہ ہے، بصورت دیگر مستقبل میں انارکی کے منڈلاتے ہوئے خطرات سے نبردآزما ہونا ممکن نہیں ہوگا۔


نوٹ:یہ مضمون سرائیکی لوک سانجھ کے ورچوئل سیمینار یعنی ویبنار میں پڑھا گیا

About The Author