مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بننا تھا پائلٹ بن گئے جہاز۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

چند دن پہلے میرے ایک جاننے والے کا نوجوان بیٹا اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا اور اسے اسلام آباد کے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔
چند دن پہلے میرے ایک جاننے والے کا نوجوان بیٹا اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا اور اسے اسلام آباد کے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ محلہ داروں سے معلوم ہوا کہ پہلے مرحلے میں وہ دوستوں کی محفل میں فلمی انداز سے شوقیہ سگریٹ سلگاتا تھا پھر ایک آدھ بار "پکی سگریٹ ” کا کش لگایا اور پھر پکی سگریٹ کا کش پکا ہوگیا، پھر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور چھوٹی عمر میں علاقے کا نامی گرامی نشئی قرار پایا۔ کچھ عرصے بعد ”پکی سگریٹ“ پینے والا اقبال کا یہ شاہین ہیروئین، کوکین اور آئس کے نشے میں مبتلا ہو گیا۔صرف یہی نوجوان نہیں بلکہ نشے میں مبتلا ہونے والا ہر شخص اسی طرح ”جہاز“بنتا ہے۔


تحقیق طلب بات ہے کہ انسان نے نشہ آور چیزوں کا علم اور استعمال کب اورکیوں کر شروع کیا؟ اس سلسلے میں بشریات کے عالموں کا خیال ہے کہ جب سے انسان نے اس کرہ ارض پرآنکھ کھولی اس نے اپنے آپ کو درپیش دکھوں، مصیبتوں، ذہنی پریشانیوں اور جسمانی تکلیفوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ابتدا میں اپنے ارد گرد ماحول میں پائے جانے والی”سحری نباتات“ کو استعمال کرنا شروع کیا، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان نے خودکسی پودے کی جڑوں یا پتوں کو منہ میں چبایا ہو اور اس چبانے کے دوران اسے کسی پودے، بوٹے میں پائے جانے والے نشے کا سراغ ملا ہو اور وہ اس طرح کہ شاید اسے کوئی چکر آیا ہو یا اس پودے کے چبانے، اس کے پتوں کوکھانے سے اس پر نیندکا غلبہ آیا ہو جس نے بعد میں پھر ان نشہ آور پودوں اور بوٹیوں کو اس خاطر استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ اس کے ذریعے اپنی اکتاہٹ اور پریشانی کی جڑکوکاٹ سکے اور زندگی کے تلخ حقائق سے ہویدا بے چینی، اضطراب اور کرب کا مقابلہ کرسکے۔ کیوں کہ ابتداء سے انسان کی یہ ایک فطری اور نفسیاتی کمزوری رہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خوش و خرم اور پرسکون رکھنے کیلئے مختف ذرائع ڈھونڈتا چلا آتا ہے جس کی خاطر آج کی طرح ماضی میں بھی ہزاروں سال پہلے کے انسان نے کسی نہ

کسی صورت میں نشہ آور چیزوں کا استعمال جاری رکھا۔
ویسے تو پوست (افیون) بھنگ، چرس، پان، شراب، معجون اور بانڈ ہر انسان نے کہیں نہ کہیں ان کا ذکر سنا اور شکل دیکھی ہوئی ہے۔ خصوصاً شراب کے بارے میں تو دنیا کی ہر زبان و ادب میں بے شمار اشعار موجود ہیں اورآج بھی اس نشے کے بارے میں ہمارے شعراء کرام اپنی شاعری میں کچھ نہ کچھ ضرورفرماتے ہیں۔”جام جمشید“ اور ”جام جم“ کی تلمیح آج بھی دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں بکثرت استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے صوفی شعراء نے شراب، پیمانہ، ساقی، میخانہ اور سرورکو حقیقت اور معرفت کے مضامین باندھنے کے لئے بطور علامت اور استعارہ استعمال کیا ہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔


بہرحال ہماری نوجوان نسل میں چرس، افیون، ہیروئن، شیشہ، برشاشا، شراب، کوکین، نشہ آورامپورٹڈ چیونگم،نشے کے انجکشن لگانے کے ساتھ ساتھ آئس جیسی جان لیوا زہر کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ آئس مختلف کیمیکلز کو ملا کر بنا ئی جاتی ہے جو کہ سو فیصد جان لیوا ہے۔ آئس کی تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوس کیمیکلز باآسانی مل جاتے ہیں اور یہ اجزاء پاکستان بھر میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے ہیں جن پر کوئی پابندی عائد نہیں اور نہ ہی لگائی جا سکتی ہے۔دوسری طرف کرسٹل میتھ یا آئس کے استعمال سے نیند کے غائب ہو جانے، طاقت کے احساس، اور خوشی کے جذبات کے ساتھ ساتھ متعلقہ فرد کے جارحانہ رویے میں شدت بھی آ جاتی ہے جبکہ بلڈ پریشر میں اضافہ اور ہارٹ اٹیک بھی ان منشیات کے استعمال کے طویل المدتی نتائج میں شامل ہیں۔


منشیات فروش ہماری نوجوان نسل کو نشے کی دوزخ میں دھکیل رہے ہیں۔ جس طرح حکومت آج کل خفیہ اکاونٹس اور بے نامی جائیدادیں آشکار کر ہی ہے اگراسی طرز پر حکومت اُن خفیہ ہاتھوں کو بھی قانون کی گرفت میں لے آئے جو ہمارے سماج میں منشیات کا زہر پھیلا رہے ہیں تو یقیناً کئی گھروں کے چراغ گل ہونے سے بچ جائیں گے۔
ویسے تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت صحت مند تفریح اور روزگار کے مواقع پیدا کرے تا کہ تعلیم یافتہ نوجوان مایوس اور ڈپریشن کا شکا ر ہو کر نشے کی بھینٹ نہ چڑھیں۔ کیونکہ کسی بھی قوم کے لیے اصل قوت اِن کے نوجوان ہوتے ہیں۔ نئی نسل کا جذبہ ہی کسی بھی قوم کو بھرپور ترقی سے ہم کنار کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں نئی نسل کو ملک کی بہتر خدمت کے لیے بھرپور انداز سے تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔صرف معاشی ترقی کے لئے ہی ضروری نہیں ہوا کرتی بلکہ ملک کے دفاع میں بھی اس کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو سرحدوں پر رات دن جاگ کر ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں۔ ملک کی آزادی اور خود مختاری کا حقیقی تحفظ نئی نسل ہی کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔ اگر نئی نسل متحد اور چوکس ہو تو دشمن اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ کسی بھی طور نہیں پہنا سکتا.لیکن آج نشے کے تاجروں کے ذریعے نئی نسل کو مختلف نشوں کی عادت میں مبتلا کرنا اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔کسی ملک کی نئی نسل منشیات کی عادی ہوجائے نتائج انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں۔

%d bloggers like this: