صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل بنچ نے سماعت کی ۔
وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے سوالات سے مجھے بہت معاونت فراہم کی ،27 ایسے قانونی نکات ہیں جن پر دلائل دونگا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت کے سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں ،عدالت نے اے آر یو کے کردار پر قانونی سوال کیے ہیں، شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یوکو پذیرائی کیوں دی گئی۔
فروغ نسیم نے کہا عدالت کے سوالوں پر بھی آؤنگا ،پہلے مجھے حقائق بیان کرنے دیں اس میں مقدمے کو سمجھانے میں آسانی ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہے ہیں؟
فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت کی ڈپٹی اٹارنی جنرل سھیل محمود اور وزیراعظم کی وکالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کریں گے،
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا فروغ نسیم آپ اپنے انداز سے دلائل دیں اور آگے بڑھیں ،
جسٹس مقبول باقر نےپوچھا صدر مملکت نے ریفرنس کے مواد پر اپنی رائے کیسے بنائی؟
فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں،وزیراعظم کرکٹر رہے اور سیاست کی، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے، اس قسم کی سمریوں پر اسٹیدیز اور متعلقہ وزارتوں سے رائے لی جاتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرٹیکل 209 کے اختیارات بڑے منفرد ہیں،صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہ آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں ہے، آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے،ریفرنس کے موادپر صدر کو اپنا ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے،ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے،صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں،صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں، صدر مملکت ایڈوائس پر ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے پابند ہیں یہ غلط دلیل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فروغ نسیم اے آر یو کے بارے میں ہمیں کچھ بتا دیں؟اے آر یو کی انکوائری پر مواد صدر مملکت کے سامنے رکھا گیا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا فروغ نسیم آپ کے پاس سوالوں کی قطار ہے جنکے جوابات دینے ہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے پہلے دیگر اہم چیزوں کو ایڈریس کریں ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا یہ بتا دیں کہ عدالت عظمی نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا؟
فروغ نسیم نے کہا اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو کا قانون کے تحت بنے اداروں پر تھرڈ پارٹی اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟
فروغ نسیم نے کہا میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پر اے آر یو کو بنایا گیا ، اثاثوں کو غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جانا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
فروغ نسیم نے کہابیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانا اے آر یو کے قیام کی وجہ بنی۔ بیرون ممالک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، شہزاد اکبر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب ہیں۔ وفاقی کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہااب تک اے آر یو کی کار کردگی کیا ہے؟
فروغ نسیم نے کہاٹاسک فورس بنانے کے فیصلے کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا۔ کابینہ نے ہی ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا شہزاد اکبر کی اہلیت اور صلاحیت باقی جگہوں پر بھی نظر آنی چاہیے تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے، 28 اگست کو ہی ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے،ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہوگیا؟
فروغ نسیم نے کہاشہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملے پر مکمل عبور ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا وزیر اعظم کو معاون خصوصی لگانے کا اختیار ہے،شہزا اکبر کو اے آر یو کا سربراہ کیسے لگا دیا؟
فروغ نسیم نے کہا وزیر اعظم رولز آف بزنس کے تحت اے آر یو جیسا ادارہ یا آفس بنا سکتے ہیں،اے آر یو کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے، اے آر یو کے قیام میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا۔ اے آر یو کا کام مختلف ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں ہے،اس صورت میں اے آر یو کسی بندے کو چھیڑ نہیں سکتا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا اے آر یو انکوائری کے لیے نجی ایجنسی کی خدمات کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایف بی آر اور ایف آئی اے قانون کے تحت بنے ادارے ہیں،اے آر یو قانون کے تحت بنا ادارہ نہیں ہے تو پھر کسی معاملے کی انکوائری کیسے کر سکتا ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا اے آر یو کو وزارت داخلہ کے ماتحت ہونا چاہیے تھا ،ایف آئی اے کے پاس کرپشن کی تحقیقات کا اختیار ہے۔
فروغ نسیم نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف آئی اے کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے،
جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ کیا پھر اے آر یو کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا وزیر اعظم ریاستی اداروں کو کرپشن کی تحقیقات کا نہیں کہہ سکتے،وزیر اعظم ایک نجی شخص کو بلا کر ذمہ داری دے دیتے ہیں ،
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا یہ تاثر نہ دیا جائے کہ جج احتساب سے بالاتر ہے۔ ایف بی آر قانون کے تحت اپنی کارروائی کا مجاز تھا۔
فروغ نسیم نے کہا ایک سوال ہو تو میں جواب دوں ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اصل میں آپ کی دلیل سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کاروائی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ یہ کس کے دماغ میں بات آئی کہ یہ کیس جج کے مس کنڈکٹ کا بنتا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا اے آر یو نے جج کے خلاف 209 کی کارروائی کا نہیں کہا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا پھر حکومت پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے اس معاملےکے نتائج بھی ہونگے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم آپ کے حقائق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، آپ بھی ہمارے سوالوں کو انجوائے کرتے اور انکی تعریف بھی کرتے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا اے آر یو نے وحید ڈوگر کی درخواست پر لندن سے معلومات لینا شروع کر دیں؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا اے آر یو کے قواعد کے مطابق ٹیکس کے معاملات ایف بی آر کو جانے تھے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو عام لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کیسے اکٹھی کر سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون، فارن ایکسچینج اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا ہے ،اے آر یو نے معاملہ کی تحقیقات کیں،اے آر یو نے ایف بی آر اور ایف آئی اے سے مدد لی۔ اے آر یو اپنے قواعد کے مطابق یہ مقدمہ نیب یا ایف بی آر کو بھیجنے کا مجاز تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا اس ساری کارروائی کے سنگین نتائج ہونگے ،اے آر یو نے نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا 2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشن ہوئی ، اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی۔ میرے خیال سے اس معاملے پر مس کنڈکٹ کا ریفرنس بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔صدر مملکت کو اپنی رائے بنانے میں بھی قانون کا حوالہ یا قانون کی سپورٹ ہونی چاہیے،صدر مملکت کو کسی ایڈوائس پر اتفاق کرنے یا نہ کرنے پر وجوہات بتانا ہوتی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ روشن آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنایا جائے؟ پہلے دن سے آپ احتساب کی بات کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے، آپ کے مطابق کارروائی کے لیے جواز مناسب ہے، اے آر یو کی ایف بی آر اور ایف آئی اے سے خط و کتابت ہو رہی ہے احتساب کی بات کی جا رہی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل نے پڑتال کرنے کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا۔ صدر مملکت کو جو معلومات ملیں انھوں نے جوڈیشل کونسل کو بھیج دیں۔
یہ بھی پڑھیں:صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سماعت کا احوال
سپریم کورٹ:جسٹس قاضی فائز عیسی نے جواب الجواب میں کیا کہا؟
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں بدنیتی ہوئی یا نہیں؟ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں نقائص ہیں؟
فروغ نسیم نے کہاریفرنس کی تیاری میں کوئی نقص نہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نےکہا بتا دیں معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی؟ آپ یہ بتا دیں ریفرنس میں جرم آپ نے کونسا بتایا ہے؟ 10 ہزار کی ٹیکس عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا لندن کی جائیداد پر متعلقہ حکام نے نوٹس لیکر کارروائی کیوں نہیں کی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو،جو سوالات اٹھائے گئے انکے جوابات دیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جج کے مس کنڈکٹ کا تعین کیسے کر لیا؟
فروغ نسیم نے کہا اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جج کے مس کنڈکٹ کی بات نہیں کی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا اُس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے تعین کیا کہ جسٹس فائز عیسی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ ذہن میں رکھیں کہ اس اقدام کے نتائج بہت سنجیدہ ہونگے،روزہ نہ رکھنا بھی غلط کام ہے کیا اس پر بھی اے آر یو کارروائی کا کہہ سکتا ہے؟
کیس کی سماعت پیر تک ملتوی
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ