زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے – کئی بار موت کے منہ سے واپس آیا-دو انتہائی خوفناک حادثات میں شدید زخمی بھی ہوا-مخالف طلباء تنظہم کے قاتل ہرکاروں سے گولیاں بھی کھائیں اور موت کو عین سامنے پایا- لیکن کبھی خود کو بے بس نہیں محسوس کیا- لیکن یہ جو 24 رمضان المبارک سے میرے ساتھ ہوا یہ بہت بے بس کردینے والا تجربہ ہے- گردے، مثانے،معدے، جگر، گلے اور بڑی آنت کی متعدد انفیکشن، ساتھ ساتھ انتہائی کمزور ہوتا ہوا مدافعتی نظام(اب بھی انگلیاں کپکپا رہی ہیں)، ڈوبتا دل اور بے تحاشا ٹھنڈے پسینے اور شدید بے چینی کی ایک ایسی کیفیت جس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں- اس دوران کم از کم آدھ درجن ڈاکٹرز اور 30 سے اوپر مختلف قسم کے ٹیسٹ ان سب نے مل کر میرا وہ حال کیا کہ میں سدھ بدھ بھول گیا-
اس دوران مجھے ایک بار پھر سرکاری ہیلتھ سسٹم کی کمزوریوں اور پرائیویٹ ہیلتھ بزنس والوں کی بے رحمی اور ظالمانہ پن کا خوب تجربہ ہوا- نشتر، ملتان کارڈیالوجی، ملتان کڈنی ہسپتال میں گھنٹوں پر مبنی خلق خدا کی بے بسی کے مناظر الگ سے میرے مشاہدے کا حصہ بنے-
ڈاکٹر مجھ جیسے مریضوں کو امیون سسٹم طاقتور کرنے کے لیے بکرے کی یخنی، روزانہ دو سیب، چھے بادام سمیت ایک پورا ڈائٹ پلان بناکر دے رہے تھے….. کنسلٹنٹ یورالوجسٹ کی فیس 4 ہزار، معدے و جگر کے کنسلٹنٹ و فزیشن کی چیک اپ فیس دو ہزار اور کڈنی کے اسپیشلسٹ کی فیس چھے ہزار جبکہ ان میں سے یورالوجسٹ اور کڈنی اسپیشلسٹ 3 سے 5 بجے تک چیک کرتے ہیں صرف 45 مریض جبکہ باقی وقت سرجری و آپریشن کو دیتے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں یہ آؤٹ ڈور میں جہاں چیک کرتے ہیں وہ 400 سے 500 مریض ہوتا ہے مشکل سے 100 مریض دیکھ پاتے ہیں اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تین سے چار منٹ- جس یورالوجسٹ اور کڈنی اسپیشلسٹ سے میں نے وقت لیا تو وہ بمشکل پانچ سے سات منٹ ایک مریض کو دے پارہے تھے……. جبکہ پرائیویٹ ہسپتال میں ان ڈاکٹروں کے کمرے کے باہر بے تحاشا رش لگا ہوا تھا-
مریض تو مریض ساتھ آنے والے عزیز اقربا بھی گرمی کے سبب گرنے کو ہورہے تھے کیونکہ اتنے اژدھام میں اے سی، پنکھے کچھ کام نہیں کررہے تھے…… اور میں چیک اپ فیس ادا کرتے وقت اکثر لوگوں کے چہرے دیکھتا تو میرے اپنے اندر شدید بے بسی کی لہر اٹھتی دکھائی دیتی- انفیکشن ٹھیک ہوتے وقت لیں گی، ریکوری میں کم از کم تین ماہ لگیں گے، مجھ جیسا سفید پوش، قلم کا مزدور ادویات کے نسخے لیکر جب میڈیکل اسٹور تک پہنچتے ہیں تو انھیں پتا لگتا ہے کہ پرائیویٹ علاج اُن کی طاقت سے باہر ہے- اور وہ پھر اس نسخے میں بھی کٹ لگاتے ہیں اور ڈائٹ پلان کو بھی کَٹ لگاتے چلے جاتے ہیں- ہمارے ہیلتھ سسٹم سمیت ہر ایک پبلک سسٹم میں گرے پڑے لوگ ہی نہیں بلکہ نام نہاد سفید پوش طبقے کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے- یہ ریاست 73 سالوں میں ہمارے حُکمران طبقات نے بنائی ہے- آج بھی ریاست اپنے آئین کے مطابق اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم، صحت کی فراہمی کرنے سے قاصر ہے-آئین پاکستان 20 کروڑ عوام کو جن بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی ضمانت فراہم کرتا ہے وہ ضمانت عملی طور پر کہیں دستیاب نہیں ہے- اور سفید پوش طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم کبھی بیمار ہوکر، کبھی بے روزگار ہوکر کھودیتا ہے- ہماری جیلیں کچی آبادیوں اور غریب کالونیوں کے باشندوں سے بھری ہوئی ہیں اور جو اس ملک کو لوٹ کر اپنے محلات بنائے بیٹھے ہیں اُن کی خدمت کے لیے اس ریاست کا ہر ادارہ دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھا نظر آتا ہے-
کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ میں جب اپنی زندگی کے گزرے سالوں کی کتاب ماضی کے اوراق کھولتا ہوں تو مجھے بھیگی مسوں کے ساتھ ایک دھان پان سا نوجوان لڑکا ہاتھوں میں کتابیں پکڑے اور اُن کو دونوں ہاتھوں سے پیٹتا ہوا گلہ پھاڑ کر نوجوانوں کے ہجوم میں سڑک پر سب سے آگے نعرے لگاتا ہوا نظر آتا ہے
سُرخ ہے سُرخ ہے – ایشیا سُرخ ہے
خون ذوالفقار سے – ایشیا سرُخ
سرُخ سویرا…. آوے ای آوے
سرمایہ داری-جاوے ای جاوے
کون بچائے گا پاکستان-طلباء مزدور اور کسان
حیرت ہے بھئی حیرت- جنرل ضیاء بے غیرت ہے
سوشلزم…. آوے ای آوے
جاگیرداری – ٹھاہ
سرمایہ – داری ٹھاہ
اور پھر چشم تصور میں اُسی نوجوان کو کالج اور یونیورسٹی کی کینٹین پر، ہاسٹل کے برآمدوں میں، کالج کے گراؤنڈ میں، ریلوے لوکو شیڈ میں، شہر کے چوک اور چوراہوں پر کھڑے تقریر کرتے یا سُنتے دیکھتا ہوں…..کانوں میں کئی آوازیں پڑتی ہیں
کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، صعنتوں پر ورکنگ کلاس کے راج کی بات، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق اجرت اور اس کی اہلیت کے مطابق کام کی آزادی کے وعدے سُنائی دیتے ہیں….
دور ہٹو جاگیردارو- پاکستان ہمارا ہے
دور ہٹو سرمایہ دارو-پاکستان ہمارا ہے
سامراج کا جو یار ہے-غدار ہے غدار ہے
اور پھر دیکھتا ہوں کہ کوڑے پڑ رہے ہیں سرخ سویرا لانے والوں کو، پھانسی گھاٹ پر بارات کا سماں ہے- خفیہ اذیت خانوں میں ایران جمہوریت و سماجی مساوات کی چیخیں تو بلند ہوتی ہیں ساتھ ہی جیوے بھٹو، جیوے بے نظیر، مارکس تیرے افکار سے ایشیا سرخ کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور عقوبت خانے ہوں یا فوجی عدالتوں کے کہٹرے جو ستم رسیدہ آتا ہے اُس کی آنکھوں میں مستقبل کے روشن ہونے کی امید نظر آتی ہے، اُسے یقین ہے کہ ظلم و جبر و استحصال کی یہ کالی رات جلد چھٹے گی اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں گے، سب کے پاس روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم، صحت ہوگی، بھوک، بیماری ،ننگ ہر قسم کا جبر اور ستم جلد مٹ جائے گا….. بات بے بات فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ لبوں پر آجاتی، چشم تصور میں تاج اچھلتے، تخت گرتے نظر آتے اور سماج کے ماجھے، گامے، اچھو، رزاق، ایاز سموں، ادریس طوطی، نذیر عباسی، حسن ناصر، کسان،ہاری، مزدور،گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں، خانصامے، نوکر، چاکر، دیہی رعایا، کھیت مزدور، ڈیلی ویجر معشیت کا پہیہ چلانے والے سب طاقت کا سرچشمہ بنتے نظر آتے، ایک لمحے کے لیے بھی کسی کو یہ مستقبل جھوٹا نہیں لگتا تھا اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ چند مٹھی بھر لوگ جمہوریت کی بحالی کے بعد اپنی جدوجہد کیش کرواکے اس ملک کے کروڑوں عوام کے خوشحال مستقبل کا خواب چکنا چور کردیں گے…… 70 کلفٹن پر 1988ء میں درجنوں کھڑی پجارو کے درمیان مفلوک الحال، فاقہ مست سیاسی کارکنوں نے ایک پل کے لیے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انہوں نے جو خواب آنکھوں میں سجا رکھے ہیں وہ وبال بنکر آنکھوں میں رڑک بنکر رہ جائیں گے اور روح زخمی ہوجائے گی…… ایک وقت آئے گا جب اُن کے بچے بھی اُن کی سیاست میں ایمانداری اور انقلاب کے جواب کو گالیاں دیں گے…… کیسے سیاسی کارکن ہو؟ کیسے قلم کار ہو…… بلدیہ کے چھوٹے موٹے ٹھیکے دار بھی نہ بن سکے کہ نالیوں، سیوریج، گٹر،میٹل روڈ کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے استعمال سے گھر چلا پاتے، کوئی بیٹا یا بیٹی بھرتی کروالیتے…… ایسے سیاسی کارکنوں، قلم مزدوروں، قانون دانوں کی ایمانداری ہی اُن کے لیے سب سے بڑا طعنہ بن جائے گی…… میں نے بہت سارے اپنے سینئرز، سنگی ساتھی اور جونئیرز کو اُس وقت ٹوٹ کر بکھرتے دیکھا جب اُن کو اپنے گھر سے اور حلقہ احباب نے ایمانداری اور سچائی کے اصولوں پر کھڑا ہونے پر مجرم ٹھہرایا-وہ نہ تو جیل سے ٹوٹے، نہ تشدد سے ٹوٹے، نہ اُن کو کوئی معاشی طور پر تباہ کرکے توڑ سکا، اُن میں سے بہت سوں کی تعلیم ادھوری رہی، بہت سے اوور ایج ہوگئے اُن کو اس سب کا کوئی ارمان نہ تھا…. مگر جب کہیں سے آدرش، نصب العین، ایمانداری اور سچائی کو قابل تعریف نہ گردانا گیا تب وہ ٹوٹ گئے…… ایک وہ دور تھا کہ جب وہ جیل کاٹ کر آتے، پولیس کی لاٹھیاں کھاتے، اور تشدد سہہ کر واپس آتے تو گلی محلے کے لوگ چاہے سیاسی مخالف کیوں نہ ہوتے اُن کی سیاسی کمٹمنٹ اور وابستگی کو سراہا کرتے تھے اور اُن کی آنکھوں میں ستائش ہوا کرتی تھی…. پھر زمانہ بدلا اور لوگوں کی نظریں اب اُن کے سراپے پر، اُن کی وضع قطع پر، جیب پر، گھر پر، سواری پر پڑنے لگی اور اُن کی خستہ دامانی پر سوال اٹھنے لگے اور لوگوں کی نظروں میں تمسخر، تضحیک نظر آئی تو یہ بدلے لب و لہجے، لحن، طور اطوار اُن کو دھڑام سے گراگئے…….. میں نے دیکھا کہ کئی تو گھروں سے نکلنا بند ہوگئے اور ایسے بَن باس لیکر بیٹھے کہ پھر اُن کے جنازے ہی باہر آئے-
سیاسی کارکنوں کی جگہ دیہاڑی بازوں نے لے لی اور صحافیوں کی جگہ دلالوں نے اور جمہوریت پسند کالے کوٹ والوں کی جگہ عدالتی بھڑوے براجمان ہوکر بیٹھے تو کمٹمنٹ اور وابستگی ایک مذاق بنکر رہ گئی- سماج میں آج بھی کروڑوں لوگوں کی محنت کو لوٹا جارہا ہے اور چند ہزار لوگ ہیں جو محنت کی لوٹ کھسوٹ سے دولت کے انبار لگائے جارہے ہیں- کروڑوں لوگ کے پاس نہ پینے کا صاف پانی ہے، نہ رہنے کو گھر ہے، نہ کمانے کا کوئی زریعہ، نہ علاج کرانے کی سہولت نہ ہی پیسے…… اس سب کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اس ملک کو محنت کش انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں…….. دلال پروپیگنڈا اپریٹس تو اسی کام پر لگا ہوا ہے اور ماجھے، گامے،اچھو، سب کے سب سسک سسک کر مرنے پر مجبور ہیں…….. آخر کو وہ دن کب آئے گا جب نوجوان نسل بھیگی مسوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں، کھیتوں، کھلیانوں میں، کام کی جگہ پر، بازاروں اور چوراہوں پر اس نظام کے خلاف بغاوت کرے گی اور وہ سویرا طلوع ہوگا جس کا وعدہ رب العالمین نے اپنے کمزور اور مستضفعین الارض سے کررکھا ہے…..
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر