آج ہمارے وزیر سائنس وٹکنالوجی فواد چودھری صاحب نے دوپہر کو عید کے چاند کا اعلان کر کے ہمیں حیران کر دیا بلکہ ہماری زندگی اور پاکستان کی تاریخ کا تو یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ہم رات گئے چاند کا اعلان سننے کا انتظار کرتے تھے۔
میرے بچپن کے زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان شھر کے جس گاوں میں میری رہائیش تھی وہ شھر سے بمشکل تین کلو میٹر کے فا صلے پر دریاے سندھ کے کنارے واقع تھا۔
اس گاوں کے زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ اور مویشی پال کر دودھ بیچا کرتے تھے۔میرا باپ ایک سرکاری ملازم تھا۔ اس لیے کافی روشن خیال اور تجربہ کار انسان تھا۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی زور دیتا جس کی گاوں میں سخت مخالفت ہوتی۔
خیر جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمارا گاوں صرف شھر سے تین کلو میٹر قریب ہونے کے باوجود کیمونیکیشن کے حساب سے بالکل کٹا ہوا تھا۔ بجلی ۔ٹیلیفون تو تھے ہی نہیں کئی سالوں کے بعد آئے اور سورج غروب ہوتے ہی لوگ گھروں کے اندر چلے جاتے یا پھر جوان لڑکے رات کو چونکوں پر اکٹھے ہوتے۔ثوبت پکتی۔ قصے بیان کیے جاتے۔لک چھپائی گیم ہوتی۔کوئی بگڑو گیت بانسری چلتی یا ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر چھڑانے کا مقابلہ ہوتا ۔
دودھ بیچنے والے گوالے جنہیں مہیڑ بولتے تھے وہ صبح سویرے شھر دودھ دینے چلے جاتے۔رمضان کے آخری دن گاوں والوں نے روزہ رکھا ہوتا کہ اچانک وہ گوالے دس بجے واپس گاوں آ کر اعلان کرتے کہ شھر میں عید ھے روزہ توڑو عید مناو۔ اب کمیونیکیشن کا یہ حال تھا کہ رات گیے علماء کرام کے پاس شھر میں چاند دیکھنے کی گواہیاں پہنچتی وہ عید کا اعلان کر دیتے ہم کو خبر نہ ہوتی۔
گوالوں کی بریکنگ نیوز پر ہم نہا دھو کےجب تیار ہو کر عید نماز پڑھتے تو دن کے بارہ بجے عید کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہوتا۔ پھر میرے باپ کی پوسٹنگ پیزو ہو گئی اور وہ بمع فیملی وہاں رھنے لگے ایک دفعہ بارہ بجے دن چاند کی گواہیاں آ گئیں اور وہاں کے علماء نے عید کا اعلان کر دیا۔
اب پیزو والوں کا طریقہ یہ تھا کہ ڈھول والے ساتھ لیتے اور ایک مجمعے کی شکل میں ہر دروازے پر جاتے روزہ تڑواتے اور کچھ مٹھائی کھلا دیتے۔
میرے بابا نے مجمعے کے پریشر میں روزہ توڑ دیا اور ڈھول والا مجمع چلا گیا لیکن میری ماں نے روزہ توڑنے سے انکار کر دیا۔ کچھ بچیاں سویاں لے کر آئیں اور ماں کو کھانے کا کہا۔ماں نے کہا رکھ دو پھر کھاٶں گی۔
ان بچیوں نے مجمعے کو رپورٹ کر دی پھر ڈھول والا مجمع جو اک فرلانگ جا چکا تھا واپس ہمارے دروازے پر پہنچ گیا اور ڈھول بجانے لگا اور بابا سے کہا کہ گھر والوں کو روزہ تڑوائیں چنانچہ میری ماں نے مجبوراً لڑکیوں کے سامنے سویاں کھائی تب ڈھول ہمارے دروازے سے رخصت ھوا۔
تیسرا واقع شیوا اڈہ صوابی کا ھے۔ ان دنوں رویت ہلال کمیٹی سے دو دن پہلے مردان صوابی میں روزہ رکھا گیا تھا۔ میرا بیٹا اپنے دوست کے ساتھ وہاں موجود تھا کہ انکے 29 روزے کے بعد عید ہو گئی۔بیٹے نے عید پڑھی اور خوب وہاں کا دوستوں کے ساتھ شغل میلہ دیکھا۔ عید کر کے شام کو جب ہمارے پاس گلبرگ پشاور پہنچا کیونکہ میری پوسٹنک پشاور تھی تو رات کو رویت ہلال کمیٹی کو چاند نظر نہ آیا اور دوسرے دن ہمارا 30 واں روزہ تھا چنانچہ ہمارے بیٹے کو عید منا کر بھی روزہ رکھنا پڑ گیا۔
اسی طرح جب ہم پشاور تھے تو پوپلزئی صاحب کے اعلان کی وجہ سے کبھی ہم بھی ایڈوانس روزہ رکھ لیتے جب عید سے ایک دن پہلے ڈیرہ چھٹی منانے آتے اور تیس روزے ادھر ہو جاتے تو ہمارا۔۔31واں روزہ ہوتا۔
اب فواد چودھری صاحب نے ایک کیلنڈر بنا کر آج ہمیں ایسے حیران کر دیا جیسے freedom at midnight کتاب پڑھ کے ہوتے ہیں۔آج خواتین نے دن بارہ بجے سے بازاروں میں چاند رات کی شاپنگ شروع کر دی ہے ۔ شاید اب تین تین عیدوں والی روایت ختم ہو جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر