مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحہ، رپورٹ، کورونا ۔۔۔حیدر جاوید سید

چینی سکینڈل کی رپورٹ رواں صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے، واہ واہ سے آسمان سر پر اُٹھائے دیوانوں کے ہجوم اس تاریخ ساز اقدام کو نئے دور کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔

عید منانے کیلئے مسافروں کو لاہور سے کراچی لے جانے والا پی آئی آے کا مسافر طیارہ کراچی میں لینڈنگ سے چند لمحے قبل ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا، 96افراد راہی ملک عدم ہوئے۔
مرنے والوں میں عملے کے ارکان بھی شامل ہیں، دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔
حادثہ کا شکار ہونے والے طیارے کی زد میں آنے والے مکانات کے مکینوں میں سے 8افراد جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔
مرحوم مسافروں میں سبھی اپنے اپنے خاندانوں کیلئے روشن نگینے تھے۔ پی آئی اے کے سی ای اور اور چیئرمین ایئر مارشل ارشد ملک کہتے ہیں حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ تکنیکی طور پر بالکل ٹھیک تھا۔
پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کے درمیان ہوئی گفتگو بتاتی ہے کہ پہلے ایک انجن اور لینڈنگ گیئر خراب ہوئے، پھر دوسرا انجن بھی جواب دے گیا (طیارہ مگر تکنیکی طور پر ٹھیک تھا)۔ لگ بھگ اڑھائی ماہ سے پی آئی اے کی اندرون ملک پروازیں بند تھیں۔
بین الاقوامی طور پر جو خصوصی پروازیں چلائی گئیں وہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کیلئے تھیں۔
دُکھ اور صدمے سے بھرے میرے ایک دوست نے ایئر مارشل ارشد ملک کی پریس کانفرنس سُن کر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”شاہ جی! دو ماہ کیلئے لوکل بس اور ویگن بھی اگر روٹ پر نہ چل سکی ہو تو اسے سڑک پر لانے سے قبل ان کا نیم خواندہ عملہ بھی پوری چھان بین کر لیتا ہے، مبادا کہیں مسافروں کیساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے“۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ پرواز کیلئے تکنیکی اجازت کی چھان بین بہت ضروری ہے۔ ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں، چھان بین (تحقیقات) ذمہ داروں کی نگرانی وسرپرستی میں نہیں ہونی چاہئے۔
ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن بہت ضروری ہے۔ عالمی ماہرین کی خدمات لیجئے وجہ یہ ہے کہ جہاز کی آخری انسپکشن سال2019 کے ماہ نومبر میں ہوئی تھی۔
28اپریل کو مینٹی نینس اینڈ ریویو سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا جو نومبر2020 تک کیلئے تھا۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ طیارہ کتنے عرصہ سے گراؤنڈ تھا اور کیا محدود فلائی آپریشن کے آغاز سے قبل خصوصی دیکھ بھال کر لی گئی تھی۔
یہ سوال اسلئے بھی اہم ہے کہ جنوری2020 میں ایئر مارشل ارشد ملک نے پی آئی اے کے جہازوں کی اپگریڈیشن کا ٹھیکہ اپنے دوست کی کمپنی کو دیا، آڈیٹر جنرل کی فروری2020 کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اقرباپروری، بدانتظامی کی بنیاد پر ارشد ملک موجودہ عہدے کیلئے موزوں نہیں۔
وہ کتنے موزوں اور تجربہ کار ہیں یہ طیارہ حادثے کے بعد ان کی پریس کانفرنس سے عیاں ہے۔
ایک غیرموزوں شخص اس منصب پر کیوں موجود ہے؟
بہت ادب کیساتھ اس سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی عرض کرنے سے قاصر ہوں۔
رعایا کو مالکوں کے فیصلوں پر چیں بجبیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ المناک سانحہ تھا ایک سو سے زیادہ خاندان سوگ میں ڈوب گئے، ہر صاحب اولاد دل گرفتہ ہے۔ جن خاندانوں میں زندگی رُک گئی ان کے درد کا مداوا ممکن ہی نہیں، آج کے نااہلوں کیلئے کل تحسین ہورہی ہوگی۔

چینی سکینڈل کی رپورٹ رواں صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے، واہ واہ سے آسمان سر پر اُٹھائے دیوانوں کے ہجوم اس تاریخ ساز اقدام کو نئے دور کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔
حق بنتا ہے وجہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت، قوانین، نظریات کی نہیں شخصیت کی واہ واہ ہوتی ہے۔
سادہ سی بات ہے نومبر2018 سے دسمبر2019ء کے درمیان چینی کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے، ٹیکس ریبیٹ اور بیرون ملک فروخت کی گئی چینی پر سبسڈی یہ تین امور تحقیق طلب تھے۔
مصنوعی پاک دامنی کے بھرم کیلئے اصل معاملے کی بجائے پانچ سال پر تحقیقات کا دائرہ پھیلا دیا گیا، اب رپورٹ کو لیکر احتساب اکبر ہاتھ لہرا لہرا کر الزام اُچھال رہے ہیں۔

حالانکہ سبسڈی تو ہر حکومت دیتی ہے، اس حکومت نے بھی دی۔
اصل سوال یہ ہے کہ جب ملک میں چینی مقامی ضرورت کے مطابق تھی تو بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟
رپورٹ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ
”اس وقت ملک کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت تھی“۔
اب دو باتیں ہیں اولاً یہ کہ چینی بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت درست تھی کیونکہ زرمبادلہ درکار تھا، ثانیاً یہ کہ زرمبادلہ والی بات غلط تھی فیصلہ باہمی مفاد پر کیا گیا۔

مگر رپورٹ اور الزامات اور پریس کانفرنسوں کے کھیل میں اصل مقدمہ چھپ گیا کہ اجازت کس نے دی؟
سندھ حکومت نے دسمبر2017ء کے بعد سے سندھ کی شوگر ملوں کو سبسڈی دی ہی نہیں تو پھر شور کیسا، چونکہ مخالفوں کو رگیدنا تھا اس لئے دو سال کے معاملات کی تحقیقات کی بجائے پانچ سال کی سبسڈی پر تحقیقات۔

اصل قصہ تو یہ تھا کہ نومبر2018ء میں چینی کی فی کلو قیمت 52روپے تھی اب 83روپے ہے (پرچون قیمت 85سے 90روپے تک ہے) 52 سے65 اور پھر 70روپے فی کلو سے شوگر مل مالکان نے لگ بھگ 140ارب روپے ڈکار لئے۔ تحقیقات اس کی ہونی چاہئے تھی، یہ سب کیسے ہوا لیکن ہمیں اندھیری شب میں بیل گاڑی کی بتی کے تعاقب میں ہانکا جا رہا ہے۔
نتیجہ یہ کہ رعایا آرام کرے اور بس آرام ہی کرے اشرافیہ کے اپنے رولے ہیں، کچھ بوجھ اُتارنا ہے اور کچھ مخالفوں کو رگڑا دینا ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم والا معامہ ہے، آپ کو شوق ہے تو خوش فہمی پال لیجئے ہم دعاگو ہیں۔

جمعہ کو کورونا سے ملک بھر میں 50افراد جاں بحق ہوئے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کہتے ہیں
”صورتحال سنگین ہے، عوام خود ذمہ دار ہوں گے“۔
مریضوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، عید کے بعد تھیٹر، ہوٹلز وغیرہ کھولنے کیلئے سوچا جارہا ہے۔ پچھلے تین دنوں سے اوسطاً دوہزار مریض روزانہ بڑھ رہے ہیں،
حکومت نے تو جو کیا سو کیا لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ مخلوق خدا نے بھی مرنے کی قسم کھا رکھی ہے،
حرام ہے کہ کہیں احتیاط کی جارہی ہو۔
مشکل سے دو اڑھائی فیصد لوگ احتیاط کر رہے ہیں، باقی ساری مخلوق پاکستان! اللہ کرم کرے گا کہہ رہی ہے۔
لاریب سب سے کریم ذات وہی ہے مگر کیا اگر ہم خود اپنے پیاروں پر کرم کیلئے تیار نہ ہوں تو ادھر سے بھی کرم ہوگا؟۔

معاف کیجئے گا کورونا وباء کے حوالے سے بدترین دن ابھی دیکھنے ہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ اپنی اپنی جگہ احتیاط کیجئے خود کو مشکل میں ڈالیں نا پیاروں کیلئے مسائل چھوڑ کر جائیں۔ کوئی بھی دوسرے کی ذمہ داری کا بوجھ نہیں اُٹھاتا۔

%d bloggers like this: