جمعہ کو سارا دن دوسروں کو انصار بھائی کا ذکر کرتے دیکھتا رہا لیکن ایک لفظ نہ لکھ سکا۔ دکھ اور افسردگی ناقابل بیان تھی۔ اب بھی وہی کیفیت برقرار ہے۔
انصار بھائی نے 2014 میں جیو چھوڑا تو میں نے چند لفظ گھسیٹے تھے اور فہیم راجکوٹ نے ایک ویڈیو بنائی تھی۔ آج وہی یاد آئیں۔ صحافی بار بار اپنے لکھے کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس تحریر کی کوئی اپ ڈیٹ نہیں۔
۔
قطب
۔
جیو میڈیا گروپ چمکتے دمکتے ستاروں کی کہکشاں ہے۔
کچھ ستارے وہ ہیں جو اِس کی اسکرین پر چمکتے ہیں، کچھ وہ ہیں جو کیمرے کے پیچھے رہ کر اِسے روشن رکھتے ہیں۔ اُنھیں دیکھ دیکھ کر میری آنکھیں روشن رہتی ہیں۔
یادش بخیر، 2002 میں جیو کی نشریات شروع ہوچکی تھیں اور میں ابھی جنگ میں کام کرتا تھا کہ جیو کی تین شخصیات کے انٹرویو سنڈے میگزین میں شائع ہوئے۔ ہماری ساتھی فریال رشید نے وہ انٹرویو کیے تھے۔
ایک صاحب تھے جیو کے ڈائریکٹر نیوز اظہر عباس، جن کے بارے میں مجھے علم تھا کہ وہ مظہر عباس کے بھائی ہیں۔ مظہر بھائی کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس میں بہت سرگرم تھے اور میں نے بھی اُن کے پیچھے کھڑے ہوکر بہت نعرے لگائے تھے۔
دوسرے صاحب تھے جیو کے ایڈیٹر نیوز ناصر بیگ چغتائی، جو اس سے پہلے جنگ کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے واقف تھے۔
تیسرے صاحب انصار نقوی کو میں نہیں جانتا تھا۔ انھوں نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ حیدرآباد میں دی نیوز کے بیورو چیف تھے۔ جیو کے آغاز سے پہلے ٹریننگ کے لیے کراچی آئے تو اظہر صاحب نے جانے نہیں دیا۔
بہت سے شہروں کے رپورٹر ٹریننگ کے لیے کراچی آئے تھے۔ اُن سب کو کیوں جانے دیا؟ انصار صاحب میں کیا خوبی تھی؟ یہ بات اُس وقت سمجھ نہیں آئی۔
کچھ عرصے بعد میں آئی آئی چندریگر روڈ کی اُس عمارت میں، جہاں جنگ گروپ کے دفاتر ہیں، پہلی منزل سے اٹھ کر چھٹی منزل پر چلاگیا۔ پہلی منزل پر جنگ ہے، چھٹی پر جیو۔
میں نے نوٹ کیا کہ جیو کے دفتر میں بہت زیادہ روشنی ہے۔ زیادہ جاگنے اور زیادہ پڑھنے کی وجہ سے میری آنکھوں میں اکثر دکھن بھری رہتی ہے۔ زیادہ روشنی سے مجھے پریشانی ہوتی ہے۔ لیکن جیو کے نیوزروم میں دکھ دینے والی مصنوعی روشنی نہیں تھی۔ وہاں بہت سے زندہ و تابندہ ستارے رونق کا سبب تھے۔
میں آوارہ پھرنے والا سیارہ ہوں۔ جہاں کوئی ستارہ کشش کرتا ہے، اُس کے گرد چکر لگانے لگتا ہوں۔
انصار نقوی صاحب، جو پہلی ہی ملاقات میں انصار بھائی بن گئے، نے میری چکربازیوں پر خاص نظر رکھی۔ پھر میرے چکرانے سے متاثر ہوکر دبئی بھیج دیا۔ میں کراچی اور دبئی کے درمیان چکر لگانے لگا۔
اُن دنوں جیو کی نشریات دبئی سے ہوتی تھیں اور اسٹوڈیو وہیں تھا۔
ندا فاطمہ، جاوید اقبال اور طالب حیدر جیسے ستاروں سے میری پہلی ملاقات وہیں ہوئی۔ پھر میری آنکھوں کے سامنے کتنے ہی چاند چہرے آئے اور اسٹار بلکہ سپر اسٹار بنے۔
انصار بھائی بھی دبئی آتے رہے۔ وہ رچمنڈ ہوٹل میں ٹھہرتے تھے اور کبھی کبھی وہاں محفل جمتی تھی۔ دفتر تو تھا ہی۔ وہ ہنسی مذاق میں ساتھ دیتے تھے لیکن کام کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ میں نے کئی بار اُن سے ڈانٹ سنی اور انھیں دوسروں پر بھی غصہ کرتے دیکھا۔ لیکن اُن کی ڈانٹ میں بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ پانچ منٹ بعد وہ ہمارے درمیان کھڑے ہنس بول رہے ہوتے تھے جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔
جیو بڑا ہوتا گیا، ہم بھی بڑے ہوتے گئے۔ انصار بھائی اسائنمنٹ ایڈیٹر سے سینئر پروڈیوسر، ایگزیکٹو پروڈیوسر اور کنٹرولر بن گئے۔ لیکن وہ کبھی باس نہیں بنے، بڑے بھائی اور مہربان استاد ہی رہے۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے ٹیم بنائی اور لیڈر بن گئے۔
انصار بھائی خبروں کے بہترین پارکھ ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر رپورٹر ہیں۔ ایک رپورٹر سے بہتر خبر کو کوئی نہیں جانتا۔ ڈیسک پر سُرخیاں کھینچنے والا ایڈیٹر یا ٹھنڈے کمرے میں کام کرنے والا پروڈیوسر کبھی رپورٹر کے فہم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ وہ خبروں کا پس منظر ہی نہیں، خبر کا باعث بننے والے سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے شجروں سے بھی آگاہ ہیں۔ ایک اضافی خوبی ان میں یہ ہے کہ وہ حساس لفظوں کا استعمال جانتے ہیں۔ یہ خوبی رپورٹرز میں نہیں ہوتی۔ انھوں نے ہمیں کبھی پولیس مقابلہ نہیں لکھنے دیا۔ وہ اس سے پہلے مبینہ ضرور لکھواتے تھے۔ یہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اِس مبینہ نے ہمیں خروٹ آباد واقعے جیسی کئی بڑی خبریں دی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جیو کے مقابلے میں کوئی چینل نہیں تھا۔ پھر آج ٹی وی آیا تو کچھ دوست وہاں چلے گئے۔ مجھے اور انصار بھائی کو افسوس ہوا۔ دبئی میں اچھی سنگت جمی ہوئی تھی۔ لیکن آج ٹی وی تو آغاز تھا۔ ایک ایک کرکے چینل کھلتے گئے، ہمارے دوست ایک ایک کرکے رخصت ہوتے گئے۔ جیو کے کراچی منتقل ہونے کے بعد سلسلہ تیز ہوگیا۔ کئی دوست گئے اور واپس آئے، پھر چلے گئے۔
ندا فاطمہ گئیں، جاوید اقبال گئے، شہزاد حسن اور سلمان حسن گئے، ندیم رضا، زاہد مظہر اور فیصل عزیز خان گئے، کامران خان بھی چلے گئے۔
کہکشاں ٹوٹتی رہی، ستارے بکھرتے رہے، میں اور انصار بھائی دیکھتے رہے۔
کچھ ادارے بس کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ کہیں سے بھی چڑھ جاتے ہیں، کہیں بھی اُتر جاتے ہیں۔ لیکن جو ادارہ آپ نے شروع کیا ہو، اُسے چھوڑنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انصار بھائی کو نئے چینلز سے پیشکشیں ضرور ہوئی ہوں گی لیکن وہ تیرہ سال تک انکار کرتے رہے۔ جنگ گروپ میں انھیں چوبیس سال ہوچکے تھے۔ ایک چوتھائی صدی تک کسی ادارے میں کام کرنے والا استعفا لکھنا بھول جاتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ انصار بھائی کے پاس اِس بار کیسی پیشکش آئی اور وہ کیسے راضی ہوئے، انھوں نے استعفے جیسا حساس لفظ کہاں سے ڈھونڈا اور کیسے برتا۔ کل جب انھوں نے جیو کے دوستوں کو ایک ای میل لکھی تو بس یہی بتاسکے کہ ایک طویل سفر ختم ہوا۔
آج میں گیارہ مئی 2003 کا جنگ سنڈے میگزین دیکھ رہا ہوں۔ اظہر عباس گئے، ناصر بیگ چغتائی گئے، انصار بھائی بھی چلے گئے۔
کل پچیس دسمبر تھی، کرسمس کا دن۔ رابعہ انعم نے شام کو کیک منگوالیا۔
ہم سب نیوزروم میں جمع ہوگئے۔ چھٹی کا دن تھا، کوئی باس، کوئی ڈائریکٹر، کوئی کنٹرولر موجود نہیں تھا۔ بچوں نے انصار بھائی کے گرد گھیرا ڈال لیا اور کیمرے آن کرلیے۔ اُن کے لیے گانا گایا، اُن کے لیے تقریریں کیں، اُن کے ساتھ زوردار قہقہے لگائے۔
ہم نے ایسا جشن منایا، اتنا شور مچایا کہ انصار بھائی جذباتی ہوگئے۔ جاتے ہوئے میرے کان میں کہا، مجھے کل بھی آنا تھا لیکن اِس ریسپشن کے بعد نہیں آسکوں گا۔
انصار بھائی رخصت ہوئے تو اُس وقت بھی نیوزروم میں ستارے بھرے ہوے تھے،
سب کی آنکھوں میں۔
بہت سے شہروں کے رپورٹر ٹریننگ کے لیے کراچی آئے تھے۔ اُن سب کو کیوں جانے دیا؟ انصار صاحب میں کیا خوبی تھی؟ یہ بات اُس وقت سمجھ نہیں آئی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر