کل سے سوشل میڈیا پر اہلِ یوتھ کی جانب سے ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے. کہا جا رہا ہے کہ سندھ بھر میں 1122 طرز کی کوئی ایمبولینس سروس موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کل ریسکیو کے لئے بھی ایدھی, چیپا اور جے ڈی سی جیسے ادارے متحرک رہے, جبکہ دوسری جانب سندھ حکومت خاموش تماشائ بنی رہی.
یہ سراسر سندھ حکومت کے خلاف پراپگینڈہ ہے. 1122 کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مطلق العنان آمر پرویز مشرف کی با اختیار رکھیل پرویز الہی نے اپنی اہمیت کو کیش کرواتے ہوئے, اپنا حلقہ انتخاب مُستقل کرنے کے لئے ایمبولینس سروس منظور کروا لی. لیکن اُس ایمبولینس سروس کی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب بھر میں گنتی کی چند ایمبولینسیں ہیں جو صوبے کی مجموعی آبادی کے حساب سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں. کسی بھی بڑے حادثے کی صورت میں یہ ایمبولینس سروس کسی بھی طرح کا مکمل ریلیف فراہم کرنے سے قاصر ہے. پنجاب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ کسی بھی ایسے بڑے سانحے سے اب تک محفوظ رہا ہے اور 1122 کو روڈ ایکسیڈینٹس سے بڑھ کر کبھی کچھ درپیش نہیں آیا ورنہ یقین مانیں کہ یہاں ایمبولینسیں تو دور ہسپتال تک نہ مِلتے.
اب آتے ہیں سندھ کی جانب. یہ بات کسی حد تک دُرست ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ ایمبولینس سروس موجود نہیں ہے اور نہ ہی سندھ حکومت ایسی کِسی ایمبولینس سروس شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے. آپ خود سوچئیے کہ 47.89 ملئین کی آبادی والے کسی صوبے میں کیا ایک ایمبولینس سروس کافی ہو گی؟ اور فرض کیجئیے کہ اگر ایسی کوئی سروس شروع کر بھی دی جائے جو صوبے بھر کے لئے کافی ہو تو کیا ایک غریب صوبے کے لئے کہ جس کا خون پہلے ہی وفاق چوس رہا ہے, یہ بُہت مہنگا نہیں پڑ جائے گا؟ کیا اتنی بڑی تعداد میں ایمبولینسیں پانی پر چلیں گی اور دیگر اخراجات کے لئے پیسا پیڑوں پر اُگے گا؟؟ آپ لوگ اِس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ صوبے بھر میں پہلے ہی بڑی تعداد میں ایدھی اور چیپا جیسے فلاحی اداروں کا فعال ایمبولینس نظام موجود تو کیا اِس صورت میں صوبائی وسائل ایک ایمبولینس سروس شروع کرنے پر صرف کرنا دانشمندی ہو گی؟ ہرگز نہیں.
آپکو یاد ہو گا کہ سکھر قرنطینہ کے باہر سندھ حکومت نے بجائے اِسکے کہ خود سے والینٹیر بھرتی کرتی, کھانے پکانے, کھانے کی ترسیل اور مینجمنٹ کے لئے خرچے کرتی, پہلے سے موجود جے-ڈی-سی کے نظام سے فائدہ اُٹھایا اور اُنہیں وسائل فراہم کر کے اُنکے ذریعے سے عوام کو ریلیف دیا. یعنی الگ سے وسائل صرف کرنے کے بجائے پہلے سے موجود نظام سے فائدہ اُٹھایا. ایمبولینس سروس کے معاملے میں بھی سندھ حکومت کا یہی طریقہ ہے. بِلا شُبہ فلاحی کاموں میں حصہ لینے والی ایمبولینسیں آپکو مختلف فلاحی اداروں کی نظر آئیں گی مگر حقیقت میں اِنکا تمام تر خرچ سندھ حکومت کی جانب سے ہوتا ہے. صوبے بھر میں درجنوں ایسی پرائیویٹ ایمبولینس سروسز موجود ہیں کہ جن کو سندھ حکومت مکمل طور پر فنڈ کرتی ہے.
سندھ حکومت ایسا اِس لئے کرتی ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی نام و نمود اور ظاہری پھوں پھاں کو اہمیت نہیں دی. پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کا پیسہ وہیں لگایا ہے جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں. تبھی نہ تو سندھ حکومت نے کہیں میٹرو چلائی اور نہ ہی اورنج ٹرین جیسی عیاشیوں پر سرمایہ لُٹایا ہاں مگر تعلیم اور صحت پر بے دریغ خرچ کیا. سندھ بھر میں آپ کہیں بھی چلے جائیں, آپکو ہر صوبے میں عالمی معیار کا جنرل ہسپتال ضرور مِلے گا.. مگر درجنوں فلاحی اداروں کی ہزاروں ایمبولینسوں کے ہوتے ہوئے کسی نئی ایمبولینس سروس پر پیسا لُٹانے کا سندھ ہرگز متححمل نہیں ہو سکتا…
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی