اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے،ایک دکھی تحریر آفتاب نواز مستوئی

قصہ کچھ یوں ھے کہ تحصیل ھیڈ کوارٹر ھسپتال جامپور میں ایک مریضہ لائی جاتی ھے جس کا بچہ پیدا ھونے سے پہلے ھی پیٹ میں فوت ھو چکا ھوتا ھے ج

یہ جامپور ھے جہاں کسی بھی حقیقت پر مبنی تحریر یا گفتگو کو سنگین نوعیت کا جرم بنا دیا جاتا ھے اور "فیس بکی جج صاحبان سیاق وسباق کا مشاھدہ و مطالعہ کرنا پسند نہیں فرماتے اور فرد جرم عائد کئیے بغیر فیصلہ صادر فرما دیتے ھیں یہ تو بھلا ھو فیس بک ایجاد کرنے والوں کا کہ اسکے ذریعے کسی مجرم کو گولی نہیں ماری جا سکتی بقایا سب چھوٹ ھے جسے چاھو بدمعاش بنا دو جسے چاھو ماں بہن ایک کر دو جس پر ناراضگی ھو اسے خوشامدی ۔بھتہ خور بلیک میلر وغیرہ وغیرہ کے القابات سے نواز دو کس نے پوچھنا ھے ۔

اس پوسٹ کے پبلک ھوتے ھی ھم فقیروں کا جو حشر ھونا ھے وہ بھی سب کے سامنے آجائے گا ۔مگر اس بے حس شہر میں رھتے ھوئے نصف صدی گزرنے کے باوجود اپنی حساس طبعیت کے باعث misfit ھی قرار پائے ھیں ۔۔۔۔اس شہر کے دکھ اور مسائل بیان کرتے کرتے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا مگر مسائل جوں کے توں رھے جسکی وجہ ھمارے نزدیک اس شہر کے لوگوں میں پایا جانے والا عدم اتفاق ۔عدم برداشت۔ایک دوسرے سے حسد ۔نفرتیں اور کسی بھی اچھا کام کرنے والے پر بلا جواز تنقید۔۔۔۔۔

اسی صورتحال سے نمٹتے نمٹتے پہلے کی نسبت بوجھل دل سے سچ کے سفر کو جاری رکھنے کی سعی جاری رکھی جسکے صلے میں بد مزاج اکھڑ ۔مغرور اور ان سے بھی بڑھ کر القابات کا آئے روز سامنا بھی کرنا پڑتا ھے ۔ آج کا موضوع حساس اور کربناک بھی ھے اور کسی حد تک اکثریت کیلئیے بے معنی بھی ۔۔۔۔۔

قصہ کچھ یوں ھے کہ تحصیل ھیڈ کوارٹر ھسپتال جامپور میں ایک مریضہ لائی جاتی ھے جس کا بچہ پیدا ھونے سے پہلے ھی پیٹ میں فوت ھو چکا ھوتا ھے جسکا ثبوت ایک پرائیویٹ ھسپتال کے الٹرا ساونڈ کی رپورٹ میں موجود ھے جو خود لواحقین کے پاس ھے ۔بے شک ھر شہری کو گائنی وارڈ کے عملہ سے شکایات اور تحفظات ھیں مگر اس کیس کی نوعیت ھی مختلف ھے ایم ایس تحصیل ھیڈ کوارٹر ھسپتال خود اس مریضہ کے سفارشی ھیں مریضہ کی میڈیکل ھسٹری بھی الگ سے موجود ھے اسکے پہلے دو بچے بھی آپریشن کے ذریعے پیدا ھوئے تھے فیصلہ یہ ھوتا ھے کہ وسائل اور سہولتوں کی کمی کے باعث رات کو آپریشن نا ممکن ھے صبح سینئر گائنا کالوجسٹ اور اسپیشلسٹس کی نگرانی میں آپریشن ھو گا اور مریضہ کیلئیے دو بوتلیں خون کا انتظام کرنے کو کہا جاتا ھے ۔

لواحقین میں سے ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور سلجھے ھوئے بنک آفیسر اچانک طیش میں آکر خواتین سٹاف اور ڈیلیوری کیلئیے داخل خواتین کی وڈیو بنانا شروع کر دیتے ھیں اور ساتھ ھی سخت الفاظ کا استعمال بھی شروع کر دیتے ھیں ڈیوٹی پر موجود ڈی ایم ایس سے بھی الجھ پڑتے ھیں تلخ کلامی ھوتی ھے اور اگلے دن نہ صرف پورے ھسپتال ایم ایس اور ڈی ایم ایس و لیڈیز سٹاف کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دی جاتی ھے بلکہ مزکورہ وڈیو بھی وائرل کر دی جاتی ھے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ھے کہ گائنی. وار ڈ کے سٹاف کے نا مناسب رویہ سے ستائے شہری یا سوشل میڈیا رائٹرز بھی بغیر حقائق جانے میدان میں کود پڑتے ھیں اظہار رائے و تحریر ھر انسان کا بنیادی حق ھے لیکن شائستگی اور اخلاقیات کے بھی کچھ تقاضے ھیں اسلام دنیا کا واحد مزھب ھے جو خواتین کو تحفظ اور احترام دیتا ھے ۔۔

ھسپتال عملہ کی حمایت سے ھٹ کر غیر جانبداری اور ایمانداری سے غور فرمائیں تو یہ لیڈی ڈاکٹرز ۔نرسیں ۔مڈ وائفز اور دیگر سٹاف کون ھیں کیا یہ اس شہر کی بیٹیاں نہیں یہ بھی تو کسی کی بہنیں ھیں ان میں سے جو شادی شدہ ھیں وہ بھی تو کسی کی عزت ھیں اور جو خواتین وھاں بیڈز پر موجود ھیں وہ بھی تو اسی دھرتی کی مائیں بہنیں ھیں ۔۔۔

سوال یہ ھے کہ بطور انسان مسلمان تعلیم یافتہ کسی بھی باشعور مرد اور وہ بھی بلوچ قبیلے کےفرد کو یہ عمل زیب دیتا ھے کہ وہ خواتین کے وارڈ میں جاکر وڈیو بنائے اور ان کے ساتھ سخت الفاظ میں گفتگو کرے ۔۔لیڈی ڈاکٹرز اور سٹاف کی شکایت ایم ایس کو بھی کی جا سکتی تھی اسسٹنٹ کمشنر جو کہ تحصیل ھیلتھ کونسل کے چئیرمین ھیں ان کے نوٹس میں بھی تو لایا جا سکتا تھا ً۔ڈی ایچ او ۔ای ڈی او ھیلتھ ڈپٹی کمشنر راجن پور کو بھی فون کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اس پر طرہ یہ کہ کچھ نوجوان جزباتی دوستوں نے پرنٹ میڈیا میں بھی اس معاملے کو نہ صرف ھوا دی بلکہ ایک انتہائی شریف خاندانی آدمی جو حافظ قران اور ماھر امراض قلب ھے کو بد معاش بنا ڈالا اسی طرح ڈی ایم ایس جو کہ انتہائی دیانتدار خوش اخلاق اور ڈیوٹی فل ڈاکٹر ھے اور علاقے کے معزز تعلیم یافتہ خاندان کا فرد ھے کو بھی رگید ڈالا ۔۔۔۔

صحافت کی مختصر اور جامع تشریح ” جو سنا جو دیکھا ” کو ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ قارئین تک پہنچانا ھے ۔۔۔دوسری بات جو اس شعبہ سے تھوڑی بہت وابستگی کے دوران سیکھی اور سمجھی ھے وہ یہ کہ دونوں فریقین کا موقف لیکر شائستگی اور اخلاقیات کی حدود میں رھتے ھوئے خبر فائل کرنا ۔۔۔۔مگر یہاں بھی یہی عرض ھے کہ ھر ایک کا اپنا حق اور اپنا طریقہ کار ھمیں کوئی اعتراض نہیں ۔۔

رد عمل میں مزکورہ شخص کے خلاف ڈاکٹرز کی جانب سے فوجداری مقدمہ کے اندراج. سے بھی ھمیں کوئی سروکار نہیں ۔۔۔دکھ ھے تو صرف یہی کہ پہلے تو یہ وڈیو بنائی نہ جاتی بنا بھی لی گئی تو سوشل میڈیا پر نہ پھیلائی جاتی اور پرنٹ میڈیا کے دوست ایم ایس یا کسی دوسرے ذمہ دار آفیسر کا موقف بھی ھمراہ شائع کر دیتے تو نہ صرف ان کی سٹوری جاندار کہلاتی بلکہ سنجیدہ حلقوں میں انہیں بے حد سراھا بھی جاتا

%d bloggers like this: