دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظام تعلیم کیسا ہونا چاہئے؟۔۔۔ ظہور دھریجہ

جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں تو آج جتنی بھی خرابیاں نظر آتی ہیں تو وہ نظام تعلیم کی وجہ سے ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف تعلیم ہوتا ہے
عمران خان کی حکومت تبدیلی کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے مگر تبدیلی نظر نہیں آئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت کورونا وائرس ہے لیکن گزشتہ دو برسوں میں کچھ نہیں ہوا اور تو اور تعلیمی پالیسی بھی نہیں بن سکی۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اب تک نظام تعلیم قائم نہیں کیا جا سکا۔ جو بھی حکمران آتا ہے سب کی اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔
پاکستان کی نصف عمر مارشل لاء میں گزر گئی اور نصف نیم جمہوری نظام میں، جو بھی حکمران آئے ملکی استحکام سے زیادہ اُن کو اپنا اقتدار کو مستحکم کرنے کی فکر رہی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے دوسرے اقدامات کیساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی وہ قدم اٹھائے جو آگے چل کر اُن کے اقتدار کو طول دینے کا باعث بنے۔
جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں تو آج جتنی بھی خرابیاں نظر آتی ہیں تو وہ نظام تعلیم کی وجہ سے ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف تعلیم ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سب کے اپنے اپنے مقاصد رہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی ایک کتاب ہے ’’تاریخ اور نصابی کتب‘‘ اس میں انہوں نے ہندوستان، امریکہ، جاپان، اسرائیل، یوگو سلاویہ و دیگر ممالک کی نصابی تاریخ کا جائزہ لیا ہے ۔
میں اُن کی کتاب سے اکتباسات پیش کرتا ہوں کہ وہ اہمیت کے حامل ہیں اور اُنہوں نے اپنے دیپاچہ میں بجا طو رپر لکھا ہے کہ نصاب کو نظریاتی گرفت سے آزاد ہونا چاہئے تاکہ طالب علم کو علمی شعور حاصل ہو سکے۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ علم طاقت ہے ،اسی وجہ سے ریاست کوشش کرتی ہے کہ علم پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے اس کے ذریعہ معاشرے کو کنٹرول کیا جائے ۔
یہ سرکاری علم خاص طور سے نصاب کی کتابوں کے ذریعہ نوجوان نسل کے ذہنوں کو تبدیل کرنے اور انہیں ریاستی نظریات کے تحت ڈھالنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر ریاست نظریاتی ہوتی تو اس صورت میں سرکاری اور ریاستی علم کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور اس علم کے ذریعے ریاست معاشرے کے ذہن کو یکساں سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔لیکن جمہوری معاشروں میں ریاست کے اس علم اور اس کے نظریات کو سیاسی ،سماجی اور مذہبی گروہ چیلنج کرتے ہیں اور عوامی دباؤ کے تحت ریاست کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ نصاب کی کتابوں کو ان کے نظریات کے تحت تبدیل کرے ۔
اگر ریاست جمہوری نہ ہو اور نظریاتی ہو تو اس صورت میں ترقی پسند تحریکوں کا اثر کم ہوتا ہے۔پاکستان میں ریاست اور معاشرے کے نسلی اور مذہبی گروپوں میں یہ تصاد م رہا ہے اور یہ اسی کشمکش کا نتیجہ ہے کہ ریاست نے آہستہ آہستہ اپنا موقف بدل دیا اور نصاب کی کتابیں جو ابتدائی دور میں لبرل نقطہ نظر پیش کرتی تھیں ، اب وہ نظریاتی طور پر انتہا پسندی کے اسباق کو پیش کرتی ہیں ۔
جب تک ایشیاء و افریقہ کے ممالک نو آبادیاتی تسلط میں رہے ،کالونیل طاقتوں نے ان کے ماضی کو مسخ کر کے سامراجی نقطہ نظر سے تاریخ پڑھائی لیکن آزادی کے بعد ان ملکوں میں اپنے ماضی اور تاریخ کے بارے میں واضح نقطہ نظر نہیں ابھر سکا ۔ ان معاشروں میں چونکہ کئی قومیتیں ، مذاہب اور نسلیاتی گروہ تھے ، اس لئے ان سب کو ملا کر ایک روشن خیال نقطہ نظر کی تشکیل نہیں ہوئی ۔
سماجی تعصبات ، نسلیاتی نفرتیں اور قومی مفادات آپس میں متصادم رہے۔ ماضی کے واقعات کو سنہ وار لکھ دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور اپنے ماضی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔
نصاب کی کتابیں نیشنل ازم کے جذبات سے بھی مسخ ہوتی ہیں ، کیونکہ جب بھی قوم کو نیشنل ازم کے تحت متحد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ماضی کو شاندار بنا کر پیش کیا جاتا ہے ،اپنی کمزوریوںاور غلطیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے ، ہیروز کی تشکیل کی جاتی ہے ، دوسری قوموں اور انکے کلچر کی نفی کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ کتابیں قومی فخر و مباہات کے ذریعہ تنگ نظری کو پیدا کرتی ہیں اور دنیا کو وسیع تناظر میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں ۔
نیشنل ازم کے تحت اکثر اقلیتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، وہ نصاب کی کتابوں میں شامل نہیں ہوتی ہیں ، اس وجہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر علیحدہ ہو جاتی ہیں ۔
اس وقت علاقائی ملکوں یا بین الاقوامی طور پر جو معاشروں میں تنگ نظری ہے ، اب دانشور اس کی ایک اہم وجہ نصاب کو قرار دے رہے ہیں ۔ ان میں ہندوستان و پاکستان ، اسرائیل و فلسطین ، یونان و ترکی ، قبرص اور شمالی کوریا خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ جہاں نوجوان نسل کو نصابی کتب کے ذریعہ علیحدگی ، تعصب اور نفرت کے ساتھ پروان چڑھایا جارہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے جہاں ایک وقت اپارتھائڈ تھا ،اب وہاں تاریخ کی نصاب کتابیں نئے سرے سے لکھی گئی ہیں اور ان کے ذریعہ ماضی کے بارے میں مثبت خیالات پیش کیے جا رہے ہیں۔چین اور کوریا جاپان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ان غلطیوں کی معافی مانگے جو اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کیں تھیں اور اپنی نصاب کو کتابوں میں اپنے حملوں اور ظلم و ستم کو بیان کرے جو اس نے جنوبی مشرقی ممالک یعنی چین ، کوریا ، ملایا اور سنگاپور میں کیے تھے ۔
یہی مطالبہ ایشیاء و افریقہ کے ان ممالک کو بھی ہونا چاہئے جو یورپی ممالک کی سامراجیت کا شکار رہے مگر یورپ اپنے گناہوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے اور نہ ہی امریکا اپنے ان اقدامات کی جس میں ہیروشیما و ناگاسا پر ایٹم بم گرائے گئے ، ویت نام میں جوتباہ کاریاں کیں یا سی آئی اے نے جو سیاسی قتل کرائے ان پر شرمندہ ہونے پر تیار نہیں ۔ تاریخی پس منظر نامے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئے جس کا مقصد علم کی ترقی اور فروغ ہو۔
اگر علمی پہلو کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے نظریات کو آگے بڑھانے کا کام نصاب سے لیا گیا تو علم پیچھے چلا جائے گا ، نظریہ آگے آئے گا۔ ہمارا معاشرہ فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ مذہبی مسالک نے مذہب کو بہت زیادہ نقصان دیا ہے۔ مذہب بہت اعلیٰ چیز ہے زندگی گزارنے کا بہترین راستہ ہے جبکہ مختلف مسالک انسان کو مذہب کے راستے سے بھٹکا کر مسلک کی طرف لے آتے ہیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے، ریاست میں بسنے والے تمام لوگ اُس کے بیٹے ہوتے ہیں۔
11 اگست1947ء کو قائد اعظم کے فرمان کے مطابق بلا رنگ، نسل و مذہب ریاست میں رہنے والے تمام لوگوں برابری کے حقوق دینے والی تعلیم کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی حکومت کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے تو نہ صرف تعلیمی پالیسی بلکہ معاشی پالیسی، خارجہ پالیسی، ثقافتی پالیسی وغیرہ کیلئے بلا تاخیر کام شروع کرنا چاہئے ورنہ تبدیلی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔

About The Author