مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز فرید ڈاہر: دھرتی کے عشق میں رچا فنکار۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

اس شخص میں مٹی کی خوشبو، اپنائیت کا احساس، زبان وادب اور اپنی شناخت و ثقافت سے محبت کے اظہار میں بڑی طاقت اور کشش تھی.

ایک محنت کش انسان، اپنی ماں دھرتی سے انتہائی عقیدت رکھنے والا، اپنی زبان و ادب کا محب، اپنی ثقافت کا سفیر، اپنی قومی شناخت کی جدوجہد کا ایک مجاہد اور بے لوث سچا شاعر اور فنکار ہم سے اچانک بچھڑ گیا ہے. 18مئی کی صبح نواز فرید ڈاھر کی وفات کی یہ خبر پڑھ کر دل ماندہ اور افسردہ ہو گیا ہے.ذہن نے ایک دھچکا دکھ اور درد محسوس کیا ہے.بالکل ایسے جیسے کوئی قریبی دوست اور ساتھ رہنے والا انسان اس دنیا کو چھوڑ کر موت کی وادی کو چل دیا ہو. احساس اور نظریاتی جڑت بھی یقینا بڑی اہمیت رکھتی ہے. میں مزید بات کرنے سے قبل آپ کے ساتھ وہ خبر شیئر کرنا چاہتا ہوں جیسے پڑھنے کے بعد آپ اس تحریر کی شکل میں میرے الفاظ وجذبات اور احساسات کو یقینا محسوس کر رہے ہوں گے.

خطہ سرائیکستان سے تعلق رکھنے والے کراچی کے متحرک و معروف صحافی اختر شاہین رند کی جانب سے موصول ہونے والی خبر
ٌ ُمعروف سرائیکی لوک فنکار و گلوکار نواز فرید سانول انتقال کر گئے. نواز فرید سانول رات گئے حیدرآباد کے قریب ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تھے. نواز فرید سانول کو سول اسپتال حیدرآباد لے جایا گیا جہاں وہ انتقال کر گئے. پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث وہ آبائی علاقے سے موٹر سائیکل پر کراچی آرہے تھے. نواز فرید سانول کا تعلق کوٹلہ موسی خان، احمد پور شرقیہ، بہاولپور سے تھا. وہ کراچی میں رکشہ چلا کر گزر بسر کرتے تھے. نواز فرید سانول کے سرائیکی وسیب کے لیے گیت بہت مقبول ہیں. متوفی کے لواحقین میں تین کمسن بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ شامل ہیں. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ میری نواز فرید ڈاھر شہید سے ایک بھی مـلاقات نہیں ہے. دوتین مرتبہ صرف فون پر بات ہوئی ہے.ایک مرتبہ انہوں نے میرے گاوں کے ایل پی روڈ گانگا نگر رحیم یار خان سے گزرتے ہوئے فون کیا اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا. اتفاق سے میں اس وقت گھر پر نہیں تھا کہیں دور گیا ہوا تھا. میں نے دیرے پر بیٹھنے کا کہا مگر وہ جلدی میں تھے کراچی سے احمد پور شرقیہ گھر جا رہے تھے. جاتے ہوئے وہ میرے لیے سرائیکی ترانوں کا ایک آڈیو البم اور کتابچہ تحفہ دے گئے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے.

اس شخص میں مٹی کی خوشبو، اپنائیت کا احساس، زبان وادب اور اپنی شناخت و ثقافت سے محبت کے اظہار میں بڑی طاقت اور کشش تھی. یہی وہ قوت اور رشتہ تھا جو روایتی رشتوں سے ہرگز کوئی کم پائیدار نہ تھا.اپنے علیحدہ صوبہ سرائیکستان کی جدوجہد اور قیام کے لیے کی جانے والی شاعری، ترانے اور گیت لکھ اور گا کر میں سمجھتا یوں کہ انہوں نے سرائیکی صوبہ تحریک میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنا، حصہ شامل کر کیا ہے. ان کا یہی عشق و محبت ہی دوری نزدیکی میل ملاقات ملنے نہ ملنے کے باوجود چاشنی و مٹھاس اور دلکشی کے رنگوں کو اپنے اندر سموئےہوئے تھا.

نوازفرید ڈاھر اپنی مخصوص آواز و انداز کے حامل اپنے سرائیکی ترانوں کے ذریعے پہلے ہی ہمارے دل میں عزت و احترام کی جگہ و مقام حاصل کیے ہوئے تھا. فون پر ہونے والی گفتگو انداز بیان سوچ اور جذبے کو جان کر یقینا میرے دل میں دھرتی کے اس عظیم شاعر اور فنکار کا مقام مزید بڑھ گیا. اس کے بعد خواہش کے باوجود ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی. کیونکہ نواز فرید ڈاھر روزی روٹی اور روزگار کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھا وسیب کی دھرتی پر کبھی کبھار مسافروں اور فنکاروں کی طرح آتے اور چلے جاتے تھے. اپنے علیحدہ صوبے کی ضرورت اور اہمیت کوئی اپنی دھرتی اور اپنے دیس پر پردیسوں کی طرح رہنے والے لوگوں سے پوچھے کہ صوبہ کیوں ضروری ہے.

خوشحال دھرتی کے بد حال کر دیئے جانے والے یا بد حال ہو جانے والے لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود سرائیکی صوبہ تحریک سے کیونکر جڑے ہوئے ہیں اور اسے اپنا پیٹ کاٹ کر جاری رکھے ہوئے ہیں.وسیب کی دھرتی کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں روزگار کے لیے جانے والے محنت کشوں کی بوری بند لاشوں سے لیکر گولیوں سے چھلنی میتوں تک کی کئی دردناک داستانیں کیسے بھلائیں جا سکتی ہیں. اندھی طاقت منہ زور اختیارات کے ہاتھوں وسیب کی دھرتی تھل روہی چولستان کی بندر بانٹ کی کہانیاں وغیرہ اس تحریک کی وجہ اور سب سے بڑامحرک ہیں.روہی کے ٹیلوں اورریت پر صدیوں سے آباد سرائیکی اور ہندو اقلیت کے بھیلوں کو کوئی اپر پبجاب سے آنے والا چودھری، قبضہ مافیا اور قادیانی یہ آ جر کہے کہ اٹھ گھر اورجگہ خالی کر یہ مجھے آلاٹ ہو چکی ہے.

ان پر ڈنڈے برسائے جائیں تھانوں میں پرچے درج کروائے جائیں. کہیں سے کوئی شنوائی داد رسی اور انصاف پروری بھی نہ ہو.کوئی الاٹ منٹیں کرنے والوں سے یہ پوچھنے والا بھی نہ ہو کہ الاٹ کی گئی زمین پر صدیوں آباد ـوگوں کا زیادہ حق ہے یا دھرتی واسوں کو در بدر کرکے جعل سازی فراڈ اورمکاری سے ایک منصوبہ بندی کے تحت آباد ہونے اور آباد کیے جانے والوں کا. اس اذیت اور درد کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن پر بیت رہی ہے اور جو بھگت رہے ہیں. چولستان کی ڈیموگرافی کو جبرا تبدیل کرنے کا جو منصوبہ جاری و ساری ہے.جو بیج آج بوئے جا ریے ہیں ایک وقت آئے گا کہ اس فصل اور ان خوش کن جدید کانٹوں کو کاٹنا بھی پڑے گا. یاد رکھیں وقت صدا ایک سا نہیں رہتا. تاریح بدلتی ہے.دنیا میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی سلطنتیں اور حکمران ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہو چکے ہیں. اچھی قدروں اچھی روایات کو قائم رکھنا چاہئیے. قانون فطرت کو روندنے کی کوشش کرنے والے ایک نہ ایک دن اپنی تمامتر طاقت جاہ و جلال اور فرعونیت سمیت خود خاک میں مل جاتے ہیں.

نواز فرید ڈاھر کی وفات پر پتہ چلا ہے کہ وہ کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے کراچی کی بجائے اپنے آبائی علاقےکوٹلہ موسی احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے. یہاں پر انہوں نے فصل کاشت کر رکھی تھی. جسےکچھ دن قبل وطن عزیز میں دند دناتی اڑتی پھرتی ٹڈی دل مکڑی نے اجاڑ کے رکھ دیا.

جمع پونچی جو فصل پر خرچ کر رکھی تھی وہ بھی گئی اور مستقبل بھی تاریک سا دکھائی دینے لگا. ایک خود دار انسان کے لیے دوسروں کی نسبت ایسے حالات بڑے سخت ترین امتحان کے حامل ہوتے ہیں.ادھر لاک ڈاون میں کچھ نرمی اور آنے والے دنوں میں لاک ڈاون کے خاتمے اور ٹرانسپورٹ کو بحال کرنے کی اطلاعات آنے لگیں اور بے روزگاری سے تنگ وسیب کے لوگوں نے رفتہ رفتہ کراچی واپسی شروع کر دی.فصل اجڑ جانے کے بعد انتہائی پریشان حال نواز فرید ڈاھر بھی اپنے گاوں اور وسیب سے واپس کراچی جانے کے لیے موٹر سائیکل پر نکل کھڑے ہوئے. جو اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل اللہ کی مرضی سے اپنی آخری منزل و مقام کی طرف اچانک رخ موڑ کر سفر پر روانہ ہو گئےہیں.
محترم قارئین کرام،، ہم میں سے ہر ایک نے اس فانی جہاں کو چھوڑ کر اس پکے ٹھکے اور سچے سفر پر بلاخر روانہ ہونا ہی ہے.

روانگی کے مقام، ٹائم اور دیگر سفری لوازمات کی دستیابی و عدم دستیابی کا فیصلہ صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے. جانے والا چھوڑ کر چلا جاتا ہے. اس کی باتیں یادیں باقی رہ جاتی ہیں. بیوی بچے دوست احباب رشتے دار سبھی رفتہ رفتہ نظام قدرت کے مطابق ڈھل جاتے ہیں.
میں سوچ رہا ہوں کہ غریب فنکاروں شاعروں ادیبوں محنت کشوں کی اچانک موت کے موقع پر ہم ہمدردی کی بہت ساری باتیں کرتے ہیں. مگر یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم غمگساری کے اس عظیم جذبے اور مقام سے خاصے دور دور کھڑے ہوتے ہیں.

جو وقت کا تقاضا اور اشد ضرورت ہے کسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہمیں اپنے رویوں سوچوں کردار و عمل میں کچھ مناسب تبدیلیوں کی ضرورت ہے.انفرادی و اجتماعی ایسی تبدیلیاں جن سے مرنے والے کسی غریب محنت کش، مستحق شخص کی بیوہ یتیم بچوں کو مناسب سہارا مل سکے. انہیں تلخیوں کو کم کرنے کے لیے وقتی ریلیف اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ و رہنمائی میسر آ جائے. نواز فرید ڈاھر کے معاشی حالات اور موجودہ کیفیت ہم سب کے سامنے ہے.

علمی وادبی، ثقافتی اور تحریکی تنظیموں کے قائدین و رہنماوں سیمت ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہئیے. اپنے اپنے فورمز پر ہم کوئی ایساسسٹم بنا جائیں کہ قطرہ قطرہ دریا کی مانند فلاح کا سلسلہ چلتا اور بہتا رہے. لوگ اس سے مستفید ہوتے رہیں.نواز فرید ڈاھر جیسے مستحق و مخلص دھرتی کے عشق میں ڈوبے ہوئے محبت میں رچے رچائے فنکاروں ادیبوں شاعروں کے بچوں اور ورثاء مستفید ہو سکیں. ان کے دکھوں میں حقیقی و عملی سانجھ پیدا ہو سکے. اپنائیت کے احساس کا وجود اور اس کی دھڑکنیں محسوس کی جا سکیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی نواز فرید شہید کی بخشش اور درجات بلند فرمائے. یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا اپنی رحمت سے انتظام فرما دے.آمین

%d bloggers like this: