Our Army can be yours if you want!
پاکستان اِس وقت اپنی تاریخ کے مُشکل ترین وقت سے دوچار ہے. ہر دانگ کرونا کا عفریت مُنہ کھولے خوشیاں اور روشنیاں نگلنے پر تیار ہے. لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور کاروبارِ زندگی بند ہونے کے باعث مُلکی معیشت کا بیڑا غرق ہو چُکا ہے. حالات کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ مُلک کے وزیرِ اعظم نے قومی ٹیلی وژن پر آ کر اپنی بے بسی کا ماتم کیا ہے اور حکومت کی جانب سے لوگوں کو گھروں میں ریلیف فراہم کر پانے سے معذوری کے باعث لاک ڈاؤں کھولنے کا فیصلہ سُنایا ہے.
اِن مُشکل اور غیر یقینی حالات میں جب ہر جانب بھوک افلاس اور بیماری کا ننگا ناچ ہے تو ایسے میں پاک فوج کی جانب سے وزارتِ خزانہ کو لکھے گئے ایک خط میں 2016 سے 2019 کے دوران میں فوجی جوانوں اور افسران کی تنخواہوں میں شامل عارضی الاؤنس کو مُستقل کیا جانے اور مجموعی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کا مطالبہ میری سمجھ سے بالا تر ہے.
ابھی گُذشتہ ہفتے ہی تو وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے بیان دیا تھا کہ رواں مالی سال میں مالی خسارے کی شرح مجموعی پیداوار کے 9 فیصد رہے گی جبکہ اِسکے ساتھ ساتھ کرونا کے باعث ٹیکسوں کی وصولی میں مشکلات کی وجہ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے. اِن نا مساعد حالات میں جب حکومت عوام کو صحت تک کی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے اور مُلکی پیداوار کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی دفاعی بجٹ کی نذر ہو رہا ہے تو اِس طرح کے مطالبے نے مُجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا پاک فوج کو وینٹیلیٹر نہ ہونے کے باعث کرونا وائرس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے لوگ دِکھائی نہیں دیتے یا گھروں میں بُجھتے چولہوں سے اِنہیں کوئی سروکار نہیں؟
چلئے تاریخ میں زرا پیچھے چلتے ہیں اور اِس مخصوص سوچ کے پیچھے کارفرما عوامل کا عمیق جائزہ لیتے ہیں. اصل میں پاکستانی فوج برطانوی تجارتی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کرائے کی فوج کا تسلسل ہے. ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں مقامی طور پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے مقامی طور پر کرائے کے فوجی بھرتی کئے اور ایک منظم فوج بنائی. مقامی فوجیوں پر مشتمل یہی دستے ہی بر صغیر میں اپنے گورے آقاؤں کے مفادات کے محافظ تھے. گوروں نے اِن فوجیوں کی تربیت میں اِس بات کا خاص خیال رکھا کہ یہ اپنے انگریز افسروں کے بعد صرف خود کو انسان جانیں جبکہ باقی تمام لوگ انکے نزدیک کیڑے مکوڑے ہوں. اِسی سوچ کے زیرِ تحت ہی اِن فوجیوں نے اپنے گورے خُداؤں کی خونشودی کے لئے بے دھڑک اپنے ہی لوگوں کے سینوں کو گولیوں سے چلنی کیا.
تقسیمِ ہند کے بعد جب افواج کا بٹوارہ ہوا اور انگریز افسران برطانیہ لوٹنے لگے تو برطانوی حکومت نے ہندوستان میں فرائض سرانجام دینے والے اپنے تمام سول اور فوجی ملازمین کو ‘آقائی ذہنیت’ ہونے کا جواز دے کر نوکری کے لئے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے جبری طور پر ریٹائر کر دیا. مگر بدقسمتی سے تقسیم کی صورت میں معرضِ وجود میں آنے والی دونوں نوزائیدہ ریاستوں میں متبادل کیڈر میسر نہ ہونے کے باعث انگریز دور میں خدمات سر انجام دینے والے سول اور ملٹری ملازمین کو بحال رکھنا پڑا.
جناح اور نہرو دونوں ہی اِس امر سے بخوبی واقف تھے کہ انگریز دور کے یہ ملازمین اِن نوزائندہ ریاستوں کے لئے ہرگز موزوں نہیں ہیں. نہرو نے اِس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اِسے ہر دوسرے مسئلے پر فوقیت دی اور جلد ہی نئے آئین کے ساتھ ہی دفاعی امور میں بھی برطانوی باقیات سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کو جدید خطوط پر منظم کر لیا مگر جناح کی زندگی نے اُنہیں اِس بات کی مہلت نہ دی.
جناح کے بعد آنے والے لوگوں پر فرض تھا کہ وہ اُن کے بعد اِس مسئلے کے تدارک کے لئے سنجیدگی سے سوچتے اور سرکاری ملازمین کی آقائی ذہنیت کی تبدیلی کے لئے کوئی ٹھوس قانون سازی عمل میں لاتے مگر اِس کے برعکس اُنہوں نے1911 کے نوآبادیاتی دور کے ایک ایسے بدنامِ زمانہ آرمی ایکٹ کو بغیر کسی ترمیم کے افواج کا منشور قرار دے دیا کہ جو گوروں نے بنایا ہی عوام کے حقوق سلب کرنے اور اُنہیں محکوم بنانے کے لئے تھا.
پاکستان کے ابتدائی سول حکمرانوں کی یہی وہ سنگین غلطی تھی کہ جس کی وجہ سے چشم فلک نے ایک فوجی افسر کو ایک سفارتی محاذ پر یہ شرمناک الفاظ دُھراتے دیکھا
"Our army can be yours if you want”
شرط یہ ہے کہ مناسب قیمت دی جائے..
اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں کرونا کے اِس بدترین دور میں اِس طرح کی مانگیں سُننے کو مِل رہی ہیں
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی