1985 سے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے شاہ محمود قریشی عرصہ در عرصہ کسی بھی کسی سیاسی پارٹی کے وفادار ثابت نہ ہوسکے۔
سیاسی و روحانی گدی کو ہر وقت اپنا حق سمجھنے والے شاہ محمود نے سیاست کا آغاز جنرل ضیا کی حکومت سے کیا اور محمد خان جونیجو کا حصہ بنے بعد ازاں جنرل ضیا کی موت کے بعد مسلم لیگ نواز گروپ سے جا جڑے۔
تھوڑے ہی عرصے بعد قریشی صاحب نے نواب شریف سے بھی راہیں جدا کر لیں اور منظور وٹو کی مسلم لیگ کے دست راست بنے۔
تین برس کے قلیل عرصے بعد شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ کے دھڑوں کو خیرباد کہا اور باضاطہ طور پہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے.
انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی کابینہ میں پارلیامانی وزیر کے فرائض انجام دیے اور کچھ وقت بعد انہیں پارٹی ترجمان بھی مقرر کیا گیا۔
2011 تک شاہ صاحب پی پی پی پی سے جڑے رہے پر حسب عادت و روایت جہاں بات ان کے ذاتی مفاد کے آڑے آئی انہوں نے وفاداری تبدیل کرنے میں زرا تاخیر نہ کی۔
پیپلز پارٹی نے بلاشبہ قریشی صاحب کو بہت عزت اور مان سے نوازا ساتھ ہی ان کی صلاحیتوں کی قدر بھی کی پر شومئی قسمت !
2008 میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شاہ محمود قریشی کو خارجہ امور کا وزیر بنایا گیا جو کہ ریمنڈ ڈیوس والے معاملے پہ اختتام پذیرہوا.
حکومتوں کے اپنے معاملات ہوتے ہیں اس لیے شاید کسی معاملے پہ قریشی صاحب اور قیادت میں ٹھن گئی لہذا ان سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔ کوئی اور قلمدان ان کو پسند نہ آیا اس لیے پارٹی سے دغا کر لی اور پیا گھر پدھار لیے۔
اب چونکہ پیا کا گھر کونسا جو قریشی صاحب کو من بھائے اس کا فیصلہ وہ صلاح مشورے سے ہی کرتے ہونگے اور ان کے موکلوں نے خبر دیدی ہوگی کہ اس وقت کون ہے ایسا جو پیا کو پسند ہے کہ اس سے ہاتھ ملایا جائے.
یہ جاننے کے لیے عوام کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا جب شاہ صاحب نے عمران خان کی تحریک انصاف جوائن کر لی۔
تحریک انصاف کا گھوٹکی میں اتنا بڑا جلسہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی کہ برسوں پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کے قریشی صاحب کو کیسے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کا عہدہ سونپ دیا گیا جن کی شمولیت ہی پارٹی میں اس وقت ہوئی تھی !
روز اول سے ہی قریشی صاحب کی شمولیت کے بعد تحریک انصاف کی اندرونی چپقلشوں کی خبریں گردش میں رہی ہیں اور جہانگیر ترین اس کے مرکزی کردار ہیں۔
یہ رائے ایک عام شکل اختیار کرچکی ہے کہ شاہ محمود قریشی ایک خود پسند انسان ہیں اور انہیں اپنی سیاست ہی سب سے زیادہ عزیز ہے۔ ان ھاوس چینج کی باز گشت ہو تو بھی قریشی صاحب کا نام زیر بحث ہوتا ہے کہ اگلے ممکنہ وزیر اعظم وہ بن سکتے ہیں۔
میں یہ سب نہ لکھتا پر آج جب قریشی صاحب نے اپنی وفاداری سندھ سے وابستہ کی اور بلند و بانگ دعوے کیے کہ سندھ بھی ہمارا ہے تو کچھ عجیب سا لگا۔
ایک وبا کے دور میں جہاں ان کی پارٹی کی مقامی و مرکزی قیادت جو سلوک سندھ کے ساتھ کر رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
تعصب اور نفرت کا تعفن اڑاتی زبانیں سندھ اور سندھ باسیوں کو بہت اچھے سے محسوس ہورہی ہیں۔
شاہ صاحب جو اپنا سیاسی قبلہ تو ایک رکھ نہ سکے آج انہوں نے سندھ فتح کرنے کا دعویٰ کیا جبکہ میں نے ان کی تاریخ اس لیے دوہرائی کہ کوئی کسی خوشفہمی میں نہ رہے کہ شاہ صاحب کو سندھ کا غم کھائے جا رہا ہے۔
کیا ہوا جو بل معاف کرنا صوبائی حکومت کے اختیار میں نہیں پر ایسا کرنے سے فائدہ تو عوام کا ہی تھا جو کہ اس وقت پسی ہوئی ہے۔
سندھ سے محبت کرنے والے ان کے اس لب و لہجے کو یاد رکھیں اور اپنی آنکھیں بھی کھول لیں۔
سندھ کسی کی جاگیر نہیں. سندھ ہر اس انسان کا ہے جو کہ سندھ سے پیار کرتا ہے اور اس سے مخلص ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ نسل اور زبان سے ہو۔
سندھ سندھیوں کا ہے اور یہاں بسنے والا ہر انسان سندھی ہے۔
سندھ صرف ایک صوبہ نہیں ہے ایک ثقافت اور جنون ہے۔
میرا سندھ میرا جنون
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی