شہر فصیلوں میں مقید ہے۔یہ فصیلیں گارے مٹی سے بنی کچی دیواروں کی نہیں بلکہ خوف، دہشت، لالچ، دھونس،دھمکی، منافقت اور بدعنوانی جیسے کنکریٹ سے تیار کی گئیں ہیں۔ ان فصیلیں کے اندر اور باہر دو مختلف دنیائیں آباد ہیں۔ قلعہ کے اندر بھگوان صفت مرشد پاؤں پسارے رعونت بھرے چہرے پہ سازشی ہنسی طاری کیے نیم دراز پڑے ہیں، اور رعایا انگریز کی دان کی ہوئی مریدی لیے ان داتا سینڈے مین کے نیاز مندوں کے سامنے قطار اندر قطار نظرانے لیے منتظر ہیں ایک جھلک کے۔ جنہیں دیدار ہو گیا اس نے ان بیش قیمت لمحات کو کیمرے میں مقید کیا اور جھومتا ہوا دربار شاہی سے بر آمد ہوا اور اپنی قبیل کی رعایا کو عکس غلامی دکھا دکھا کر مرعوب کرنا شروع کر دیا۔ قلعے کے اندر رات کے پچھلے پہر بڑی گاڑیوں کے نسبتاً زیادہ نیازمند مرید حاضری دیتے ہیں اور نظرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں، اس وقت کے درباریوں کو کچھ ڈیوٹیاں دی جاتیں، طاقتوں کی تقسیم ہوتی ہے اور پھر یہ ٹولہ بے ضمیراں عوام میں گھل مل جاتا ہے اور آقا کیلیے ماحول بہتر کرتا ہے۔
قلعے کے باہر ایک ہجومِ بے سمتاں خاک میں لتھڑے وجود لیے خوف بے وجہ سے کانپ رہا ہے۔ بادشاہ و آقا کی توصیف کی تسبیح جپتے صدیوں کی بھوک ذہنوں میں دبائے بے وجود زندگی کو آ گے بڑھا رہا ہے۔ ہر وقت آقا آقا اور ان داتا ان داتا کی بے سری تان لگائے آپس میں گتھم گھتا ہیں۔ اس ماحول شغلاں میں کوئی عقل کی بات کہے یا آزادی کے دو بول بول دے یہ ہجوم بپھر جاتا ہے اور اس آزاد منش انسان کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔
بادشاہ کے دربار میں کیا مسیحا، کیا نام کے صحافی، کیا تاجر، کیا وکیل اور سب سے بڑھ کر ملا و استاد سب دو زانوں احترام سے سر نوائے حاضر ہیں۔
آج میری زخم زخم دھرتی تونسہ پر اس عجیب و غریب بادشاہت کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ طمع اور مراعات کے لالچ میں سب کی آنکھوں پر پٹی چڑھی ہوئی ہے۔
ہر طرف عزت نفس اور خود داری کے لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ اور ایک بدبودار جوہڑ میں سب ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر دھندہ ہو رہا ہے، غیر معیاری کام اور ناکارہ پراجیکٹس پر پیسہ بہایا جا رہا ہے۔ لگتا ہے صدیوں پیش تر کی کوئی سلطنت کا تصور دوبارہ ابھر رہا ہے۔ نالی، سولنگ، چند ناکارہ روڈ، شہر کی تزآئین کے ناقص منصوبے، ادھوری شجر کاری، سیوریج کا ناقص نظام، تھانہ پولیس کلچر میں سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال اور صاحب بہادر اسسٹنٹ کمشنر کے ایکٹ یہ سب ملا کر اس رنگیلا حکومت کے کارنامے بتائے جارہے ہیں۔
یہ ناقص کام کل انہی کے گلے کا طوق بنیں گے، لیکن نشے کی تو خصوصیت یہی ہے کہ وہ ہر طرح کے خوف کو عارضی طور پر ختم کر دیتاہے، چاہے وہ اقتدار کا نشہ ہی کیوں نا ہو۔ تونسہ صدیوں سے زخم خوردہ سر زمین ہے اور یہ زخم انہیں بادشاہوں اور سینڈے مین نیاز مندوں کے لگائے ہوئےہیں۔ مگر اب جب اقتدار کی تمازت سے بادشاہ مزاجوں کے چہرے دمک رہے ہیں لیکن پھر بھی دھرتی مزید بنجر اور ویران ہوتی جا رہی ہے۔ منصوبوں کے اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن عمل درآمد کچھ نہیں۔ لوگوں کی نفسیات کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور انہیں مزید غلامی کے سمندر میں دھکیلا جا رہا ہے۔
کچھ لاچار اور بے بس لوگ ظلم اور جبر کے ماحول میں اشکوں کی زباں میں خاموش احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان جذبات کو سمجھنا بے حسوں کے بس کی بات نہیں۔
عظیم شاعر اور دانشور رشید قیصرانی نے کہا تھا کہ
"تم ڈرو ان سے جو اشکوں کی زباں بولتے ہیں
بند ہونٹوں سے جو یہ لب زدگاں بولتے ہیں”
مگر کوہ سلیمان چیخ رہا ہے، دامان اور دریائے کے اطراف آباد رعایا تڑپ رہی ہے۔ لیکن کون ان بے زبانوں کی زبان بنے گا۔ اک بات مگر یاد رکھی جائے جتنا گہرا سکوت ہے اس سے بڑھ کر ایک طوفان اس سکوت کو چیر کے نکلے گا اور پھر انگریز باقیات کی انگریز ایجنڈے کی ترویج مزید جاری نہیں رہ پائے گی۔ اور تونسہ کی فضاوں میں پنچھی آزاد فضاوں میں رقص کریں گے اور یہ دھرتی ضرور عروج دیکھے گی، لیکن ان انگریز باقیات کے مکمل خاتمے کے بعد، اور شرط مگر یہ ہے کہ فہم کے دریچوں کو وا کر کے جدوجہد تیز کی جائے اور انگریز باقیات سے مکمل چھٹکارے تک جاری رکھی جائے۔
یہ بھی پڑھیے:اختر مینگل کا جلسہ اور سرائیکی مقدمے کا جواب۔۔۔ڈاکٹر رؤف قیصرانی
تائب تھے احتساب سے جب سارے باداکش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے میں تھا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر