نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا، 18ویں ترمیم اور قومی اقلیتی کمیشن ۔۔۔ حیدر جاوید سید

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان حکومت نے صوبے میں لاک ڈاؤن میں 15دن کا اضافہ کر دیا ہے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کے خواہش مند وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیروں کو زمینی حقائق بھی مدنظر رکھنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر پنجاب کی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد یہ اعتراف کر رہی ہیں کہ لاہور کورونا وائرس کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔
اُدھر یہ اطلاع بھی ہے کہ سوموار اور منگل کے دو دنوں میں صرف لاہور میں 11افراد کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ ملتان سے بھی اموات کی اطلاعات ہیں،

ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کیلئے سہولتوں کے فقدان کی حقیقت جاننی ہو تو پمز ہسپتال اسلام آباد میں کورونا ٹیسٹ مثبت آجانے پر خاتون ڈاکٹر کو جس کمرے میں رکھا گیا ہے اس کمرے کی حالت نجی چینلوں پر نشر ہونے والی ویڈیو سے دیکھی جا سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان حکومت نے صوبے میں لاک ڈاؤن میں 15دن کا اضافہ کر دیا ہے۔ منگل کے روز ملک بھر میں کورونا سے 28اموات ہوئیں۔
مرنے والوں کی اب تک کی کل تعداد 514 ہوگئی جبکہ 785نئے مریضوں کیساتھ مجموعی تعداد 22 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
اگر کسی کو یاد ہو تو وزیراعظم نے ہفتہ بھر قبل خود کہا تھا کہ کورونا کے حوالے سے 15سے 25مئی کا درمیانی مرحلہ خطرناک ہوگا۔ اب یہ سوال بہرطور ان (وزیراعظم) سے ہی دریافت کیا جانا بنتا ہے کہ حضور اگر ایسی صورتحال ہے تو پھر عین اس وقت لاک ڈاؤن میں نرمی کی طرف کیوں جا رہے ہیں
جب سنگین خطرے والے (دس) دن سر پر آن پہنچے؟
ہمیں (حکومت اور عوام دونوں) اس امرکو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے کاروبار، شہریوں اور دیگر شعبوں میں جن شرائط پر رعایت دی گئی تھی ان شرائط پر عمل نہیں ہوا،
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خفیہ ادارے خود تصدیق کر رہے ہیں کہ نماز تراویح کیلئے طے پانے والے ایس او پیز پر 92فیصد مساجد میں عمل نہیں ہو رہا۔
شہریوں کی سہولت کیلئے نادرا کے دفاتر کھولے گئے پہلے دو دنوں کے حالات سب کے سامنے ہے، تمام دفاتر کے باہر بے ہنگم ہجوم جمع ہے۔
بازاروں کی حالت سب کے سامنے ہے، عجیب بات ہے کہ تھر جیسے پسماندہ علاقے میں تو صارفین 4سے6فٹ کے فاصلے پر لگے نشانوں پر کھڑے ہو کر اپنی باری پر خریداری کرتے ہیں لیکن ترقی یافتہ اور تعلیم کی دولت سے مالا مال بڑے شہروں میں جتھوں کی صورت میں خریداری اور دھکم پیل صاف دکھائی دیتی ہے۔
اندریں حالات دست بدستہ عرض یہی ہے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کیجئے لیکن اس امر کو یقینی بنا لیجئے کہ مقررہ قواعد وضوابط پر عمل ہو، عمل کروانے کیلئے حکومت ہر ممکن اقدام کرے۔
18ویں ترمیم پر جاری ملاکھڑا ابھی ختم نہیں ہوا، کچھ دوست تو صرف پیپلزپارٹی کی دشمنی میں 18ویں ترمیم پر کلہاڑا چلانے کے حامی ہیں اور کچھ ریاستی حب الوطنی کے مظاہرے کے شوق میں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دانشور اور صحافی بھی 18ویں ترمیم کے مخالفین میں شامل ہیں جو کورونا وائرس کو سو فیصد یہودیوں کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اپنی تحریروں اور سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر یہ کہہ لکھ رہے ہیں کہ کورونا سے کوئی نہیں مر رہا، یہ اموات اور مریضوں کی خبریں من گھڑت اور صرف امدادیں بٹورنے کا سامان ہیں۔ کیسے کیسے نابغے ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے تھے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 18ویں ترمیم نے مرکز کو کمزور کر دیا ہے۔ خطے کے حالات مضبوط مرکز کے متقاضی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس امر کا تجزیہ کرنے کی جرأت رندانہ یہ دوست کر سکیں گے کہ خطہ کے حالات میں ہمارا کردار کیا رہا اور کیا ہے؟
ثانیاً یہ بھی حقیقت ہے کہ 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس مطلوبہ دوتہائی اکثریت نہیں ہے، ایسے میں ممکنہ راستہ وہی ہے جس کی طرف پچھلے کالم میں عرض کیا تھا۔
یاد رہے کہ آرڈیننس کے ذریعے چھیڑ چھاڑ درست اقدام نہیں ہوگا،
یہاں ضمناً ایک بات کی طرف توجہ دلاتا چلوں، وزیراعظم کے مشیر اطلاعات جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے نام سے ٹویٹر پر بنے ایک اکاؤنٹ سے مسلسل 18ویں ترمیم کیخلاف اور صدارتی نظام کے حق میں پروپیگنڈہ ہو رہا ہے، یہ اکاؤنٹ اگر باجوہ صاحب کا ہے تو ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے یہ کیوں لکھا ”صدارتی نظام سے قبل تمام اداروں میں سابق جرنیلز کی تقرریاں عمل میں لائی جارہی ہیں تاکہ کوئی بدبخت مخالفت کی جرأت نہ کر سکے“
یہ اکاؤنٹ اگر جعلی ہے تو بتایا جائے کہ اس کیخلاف کارروائی کیلئے انہوں نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو کوئی درخواست دی یا نہیں؟۔
وفاقی کابینہ نے قومی اقلیتی کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی وزارت مذہبی امور کی سمری کی منظوری دیدی ہے۔ کمیشن میں ہندو اور مسیحی برادریوں کے تین تین، سکھوں کے 2، کالاش اور پارسی برادری سے ایک ایک فرد رکن ہوگا، مسلم ارکان میں مفتی گلزارنعیمی اور مولانا عبدالخیر آزاد شامل ہیں جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی اپنے منصب کی بدولت کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری کمیشن کے بھی سیکرٹری ہوں گے۔ کمیشن میں وزارت تعلیم، داخلہ اور انسانی حقوق کی بھی نمائندگی ہوگی۔
اس کمیشن کے حوالے سے پچھلے چند دنوں سے جاری بے سر وپا مہم تو کمیشن کے اعلان کیساتھ ختم ہوگئی اور اُن ”مجاہدین“ کا پروپیگنڈہ خاک ہوا جو ایک طبقے کی کمیشن میں شمولیت کی جعلی خبر کو سر پر اُٹھائے وزیراعظم عمران خان کیخلاف نفرت کو ہوا دے رہے تھے۔ البتہ کمیشن کے مسلم ممبران کے حوالے سے بعض سنجیدہ سوالات بہرطور ہیں۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز تو سرکاری حیثیت میں اس کے رکن ہیں جبکہ مفتی گلزار نعیمی اور مولانا عبدالخیر آزاد مسلم رکن ہر دو صاحبان کی تقرری ان کے مکتبی حوالوں سے ہے۔ یہ تقرری اگر غیر فرقہ وارانہ ہے تو پھر ان دونوں کی جگہ ان صاحبان علم ودانش کو کمیشن میں شامل کیا جانا چاہئے تھا جن پر فرقہ وارانہ شناخت کی چھاپ نہیں ہے۔
لیکن اگر یہ تقرری مکاتب فکر کی بنیاد پر ہے تو پھر دیگر دو مسلم مکاتب فکر کی کمیشن میں نمائندگی کیوں نہیں؟
صلح کُل کے صوفیانہ مزاج کے حامل وفاقی وزیر قاری نورالحق قادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے۔
اعتراض کرنے والوں کا ایک سوال یہ بھی ہے، اقلیتی کمیشن میں مسلم ارکان کا کیا کام اور اگر اس کی ضرورت ہے تو پھر چاروں مسلم مکاتب فکر کے ایک ایک نمائندے کو شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ مفتی گلزار نعیمی اور مولانا آزاد کی مکتبی وعملی حیثیت مسلمہ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے مولانا آزاد بھی سرکاری ملازم ہی ہیں
سوال کمیشن کی تشکیل اور ارکان کی تقرری کے حوالے سے ہے، اُمید کی جانی چاہئے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور اس کی وضاحت کریں گے۔

About The Author