نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈبے میں ڈبا ، ڈبے میں کیک۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو عید کارڈ کے ساتھ چوڑیاں اور لڑکے اپنے دوستوں کو عید کارڈ کے ساتھ رومال گھڑی یا دیگر تحفے دیاکرتے تھے۔

میری یادوں کی پٹاری میں یادوں سے جڑی بہت سی خوبصورت چیزیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ عید کارڈ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اب جہاں ہم ترقی یافتہ بن چکے ہیں، وہاں اپنی خوبصورت روایات کے حوالے سے قحط الرجالی بھی ہمارے مقدر میں آئی ہے۔ ماضی میں عید کے نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری سے قبل لوگ اپنے پیاروں اور عزیز و اقارب کو عید کارڈ بھیجنے کیلیے کارڈوں کی خریداری کرتے تھے۔ ان دیدہ زیب عید کارڈوں پر عید مبارک، عید سعید، عید آئی خوشیاں لائی سمیت بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کیلیے نہ صرف علیحدہ علیحدہ پیغامات درج ہو تے بلکہ ان سے خلوص اور محبت کی خوشبو بھی آتی تھی۔ اس سے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کو رشتوں کا لحاظ کرتے ہو ئے ایک دوسرے کو پیغامات بھیجنے کا سلیقہ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے دلوں میں محبتوں اور رشتوں کا احترام بھی نظر آتا تھا۔

ماہ رمضان سے پہلے ہی عشرت آرٹ پریس، بلوچ برادرز،نوشاد پرنٹرز، قمر بک سٹال، صادق بک سٹال، گلی خاور والی کے علاوہ کئی لائبریریوں اورکتب و سٹیشنری کی دکانوں پرہر قسم کے دیدہ زیب، رنگ برنگے عید کارڈ سج جاتے۔ دن گزرنے کے ساتھ شہر کے مرکزی بازاروں، گلی محلوں، چوراہوں اورسرکلر روڈ پر لوگ خصوصابے روزگار لڑکے کچھ کمانے اور کچھ دل لگی کے لئے عید کارڈز کا اسٹال لگا لیا کرتے۔

افطاری کے بعد تو ان اسٹالز پر خوب گہما گہمی اور رش دیکھنے کو ملتا، ٹیپ ریکارڈر پر بناکا جھنکار گیت مالا بھی بجتا رہتا اور کارڈ بھی بکتے رہتے۔ کچھ کے چار پیسے بنتے تو کچھ کی آنکھیں چار ہوتیں۔ ان سٹالز پر مخلتف قیمتوں کے عید کارڈز کے علاوہ عید کی مبارکباد اور عید کے اشعار کے چھوٹے چھوٹے کتابچے اور کہیں کہیں تو مختلف رنگوں کی خصوصی چمکدار پینسلیں اور قلم بھی ملتے تھے جن سے کہ کارڈز پر لکھا جائے تو تحریر زیادہ خوبصورت دکھے۔ رمضان کے دوسرے عشرے تک عید کارڈز کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی۔پانچ سے پندرہ روپے والے کارڈ عمومی طور پر کتابی شکل کے ہوتے تھے ان کارڈز پرزیادہ تر پھول، کیلی گرافی، دل یا دل کے ساتھ دل کو چیرتا تیر یا کوئی آرٹ کا نمونہ پرنٹ ہوتا، کچھ پر اسلامی پیغام یا مشہور ہیرو اور ہیروئنز کی تصاویر ہوتیں۔

پھر بیس سے تیس یا اس سے زائد قیمت کے جن میں میوزک والے، لائٹ والے، چین والے، خوشبو والے اور رنگ برنگے کارڈز تو شاہکار تصور کئے جاتے تھے۔ ایسے کارڈز کسی بھی سٹال پر بالکل درمیان میں اپنی سب سے قیمتی پراڈکٹ کے طور پر آویزاں کئے جاتے۔ کارڈز کا چناؤ کرتے ہوئے اس شخصیت کو ذہن میں رکھا جاتا جس کو کارڈ بھیجنا پوتا۔ عید کارڈز خریدنے سے پہلے گھروں میں باقاعدہ فہرست بنتی کہ کس کس کو عید کارڈ بھیجنا ہے، کل کتنے اور کتنے پیسوں والے کارڈ لینے ہیں۔ زیادہ تر گھرانوں میں عید کارڈ منتخب کرنے، خریدنے، لکھنے، اور دوستوں اور رشتے داروں کو بھیجنے پر خاصہ وقت لگانا ایک معمول ہوا کرتا تھا۔ بازاروں، گلی محلے، چوراہوں پے سجے ان عید کارڈز کے سٹالوں پر مرد، خواتین اور بچے اپنی اپنی پسند کے کارڈز اور مختلف طرح کے من پسند تحفے بھی خریدتے۔ جن میں گولڈن چین، دل والا لاکٹ، کلپ، پونیاں، ہیئر کیچ،، عطر، پرفیوم، خوشبو والا پین، آلارم والی گھڑیاں، ڈائریاں، شاعری کی کتابیں اور بہت سے دوسرے گفٹ پیکس شامل ہوا کرتے تھے۔

لڑکے افطاری کے بعد ٹولیوں کی شکل میں مختلف سٹالوں پر گھوم پھر کر پسند کے کارڈ اور تحفے منتخب کرتے۔ بچوں کی مناسبت سے چھوٹے اور بڑے سائز میں عیدکارڈ دستیاب ہوتے تھے۔ بچوں کے عید کارڈوں کی انفرادیت، اس کے اندر لکھے گئے نفس مضمون سے بھی ظاہر ہوتی تھی۔

میرے دوست سید جاویدشاہ کا بچپن میں دیا ہوا عید کارڈ آج تک میرے پاس محفوظ ہے جس کے سر ورق پر یہ شعر درج ہے۔ ڈبے میں ڈبا، ڈبے میں کیک۔۔میرا دوست لاکھوں میں ایک۔

اس سے اسکی معصومیت اور شرارت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اکثر ادیب، شاعر اپنے عید کارڈ بمعہ اپنے اشعار کے شائع کرواتے۔جبکہ سیاست دان اپنی پارٹی کے پرچموں کے رنگوں کے کارڈز بھجوایا کرتے تھے۔ لوگ کارڈ پر بھیجنے والے کو عید مبارک کہنے کے علاوہ ایک آدھ دعا، اور کوئی ایک شعر لازمی لکھا کرتے اور آخر میں منجانب اور کارڈ بھیجنے والے کا نام۔ا ن عید کارڈوں کی وجہ سے محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انہیں باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کر دئیے جائیں۔ لوگ تقریبا وقت سے پہلے ہی پوسٹ کر دیتے۔ لیکن کچھ مخصوص کارڈز ایسے ہوا کرتے تھے کہ جنہیں نہ پوسٹ کر سکتے تھے، نہ ہاتھوں ہاتھ دے سکتے تھے۔ انہیں یا تو کسی مخصوص وقت پر جہاں سے اس شخصیت کا گزر ہونا ہوتا اسکے کے راستے میں پھینکا جاتا یا اسکی ترسیل کے لئے کسی بچے کی خدمات لی جاتیں۔ ایسے خوشبووالے کارڈز پر دل یا دل کو چیرتا تیر، لہو، آنسو، پھول یا دکھی عشقیہ اشعار پرنٹ ہوتے یا رنگ رنگ کے قلموں سے خوشخط لکھے ہوتے۔ لیکن اگر کارڈ اس تک پہنچنے کے بعد اسکے گھر والوں تک بھی پہنچ جاتے تو کارڈ بھیجنے والے کو اسکی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی۔

عید کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھنا اور نقش و نگار بنانا محبت پہ مبنی ہوتا۔ لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو عید کارڈ کے ساتھ چوڑیاں اور لڑکے اپنے دوستوں کو عید کارڈ کے ساتھ رومال گھڑی یا دیگر تحفے دیاکرتے تھے۔ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کیلئے مسرت کا باعث ہوا کرتے تھے۔باقاعدہ عید کارڈ کا انتظار کیا جاتا تھا۔ گھروں میں ایک عرصے تک عید کارڈ بھیجنے والے کا ذکر رہتا تھا۔قلمی دوستی کا خوبصورت رشتہ قائم تھا۔قلم سے جو لفظ نکلتے تھے وہ دلوں کی الماریوں میں ز ندہ رہتے تھے۔ اپنے احباب اور عزیز و اقربا کی طرف سے وصول ہونے والے عید کارڈز کا کچھ شوقی افراد باقاعدہ ریکارڈ بھی رکھتے تھے۔ جب بھی دوستوں، پیاروں اور اپنے چہیتوں کی یادیں دل میں بسانے کو من کرتا تو پرانے عید کارڈز کو نکال کر دیکھ لیتے اور دل کو پرچا لیا کرتے تھے۔ بعض اوقات لوگ اپنی بیٹھکوں یا کمروں کی کی کانس پرسجائے رکھتے۔

آج نسل نو کو عید مبارک کہنے کے گرچہ بہت سے ذرائع میسر ہیں، لیکن ماضی میں عید کارڈ کے ذریعے اپنے پیاروں کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کی جو خوشی ہوا کرتی تھی، ہ آج مفقود ہو چکی ہے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا، نہ عید کارڈز بھیجنے کا رواج۔ اب صرف یہ خوب صورت یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ محض کارڈز نہیں تھے جو ہم اپنے پیاروں کو بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا پیار اور خلوص، جو تیز رفتار زندگی میں اب کہیں کھو گیا ہے اور جو ان عید کارڈز کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا تھا۔ بے شک ٹیکنالوجی نے لوگوں کا اپنے پیاروں سے جذبات کا اظہار آسان اور پرکشش بنا دیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے، لکھنے، بھیجنے اور وصول کرنے کا لطف لیا ہے۔ وہ بٹن دبانے یا کلک میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے۔کیونکہ میسج چلتے پھرتے گردشی محبت ناموں کی ایک مصنوعی زبان ہے جو زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رہ سکتے۔ آخر پر”آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو عید مبارک ہو” اس کے ساتھ ہی کاغذی عید مبارک کہانی اپنے اختتام کو پہنچی اور ایک خوبصورت عہد تمام ہوا۔ محبت اور رابطہ یقینا ہمیشہ قائم رہے گا مگر نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق۔

About The Author