مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رمضان علیانی

آج کا نوجوان اور ہمارا تعلیمی نظام۔۔۔ محمد رمضان علیانی

پہلے یہ ہوتا تھا کسی بھی یونیورسٹی سے ڈگری ابھی مکمل نہیں ہوتی تھی کہ جاب پہلے مل جاتی تھی اور اب حالات بلکل مختلف ہیں

گزشتہ روز پنجاب میں جوڈیشری میں سول ججز کی تقرری کے حوالے ہونے والے امتحانات کا رزلٹ نظروں سے گزرا تو آنکھیں کھلی رہ گئیں دل کی دھڑکن رک اور دماغ چکرا گیا کہ تین ہزار کے قریب لاء گریجویٹ نوجوانوں نے امتحان میں شرکت جب کہ صرف 28 وکلاء صاحباں انٹرویو کے لیے کوالیفائی کر سکے جو کہ ایک فیصد سے بھی کم تناسب سے پاس ہوئے ہیں ایسا ہی پاکستان میں بیوروکریسی کے مقابلے کا امتحان سی ایس ایس میں بھی پچھلے چند امتحانات میں تقریباً دو سے تین فیصد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو کہ ہمارے تعلیمی اداروں پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں

اگر ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کو 1980 کی دہائی میں لے جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس وقت کے طالب علم دس دس کلو میٹر کے فاصلے پیدل چل کر سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اور میٹرک میں 65 سے 70 فیصد نمبر لینے والے نوجوان کو ڈاکٹر کہنا شروع کیا جاتا تھا اور وہ اس سنگ میل کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا

اس دور کے ایم بی بی ایس بغیر کسی ٹیسٹ کے مریض کی بیماری بھی پرکھتے ہوئے اس کا علاج بھی کرتے تھے اس زمانہ میں نہ ٹیوشن تھی نا اکیڈمیاں اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ سکول کا کوئی رواج تھا اس کے باوجود بھی ڈاکٹر قدیر خان بھی پیدا ہوئے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی۔

موجودہ دور میں دیکھیں تو آپ کو ہر محلہ میں ہائی اسکول اور ہر گلی میں ٹیوشن کی اکیڈمی میسر ہے اور کچھ ٹیچر اپنی قابلیت کو دربدر کرتے ہوئے تعلیم دیتے ہوئےچند ٹکوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی چینی کم والی چائے سے بھی خود کو تول رہے ہیں

آج یہ حالت ہے 90 فیصد سے زائد تک ہمارے طالب علم مارکس لے رہے ہیں اور پاکستان کے بہترین میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں سپیشلایزیشن کر کے بھی بغیر ٹیسٹ کے کوئی میڈیسن نہیں لکھ سکتے کچھ کی قابلیت اس حد تک ہے کہ قبض کے مریضوں سے حالت لیتے وقت موشن کے سوالات ہوچھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

ہماری کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ چار سو میں نہیں ہے جب سے یونیورسٹیوں کے کمپیس کے کارخانوں کا کاروبار شروع ہوا ہے ڈگریوں کے انبار لگ گیے ہیں اور پھر یہ ڈگریاں لیے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں

پہلے یہ ہوتا تھا کسی بھی یونیورسٹی سے ڈگری ابھی مکمل نہیں ہوتی تھی کہ جاب پہلے مل جاتی تھی اور اب حالات بلکل مختلف ہیں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہمارا تعلیمی نظام کو بہتر کیا جا سکتا تھا لیکن افسوس اس سوشل میڈیا کے دور میں یونیورسٹیوں میں علم کم اور ہیر رانجھا اور لیلی مجنوں کی نئی نئی کہانیان ذیادہ بن رہی ہیں

ہمارے ایگریکلچر کے طالب علموں نے ایسی تحقیقات کیوں نہیں کرتے کہ آم کا درخت پھل سال میں ایک بار کی بجائے دو بار دے مالٹے پر ریسرچ کرتے کہ اس کے اندر بیچ ختم ہو جائے یا صرف ایک بیچ رہ جائے۔ ہمارا ویٹرنری ڈاکٹر محنت کرتے ہوئے بھنس کے دودھ میں اضافے کا کوئی فارمولا تیار کرے گائے کی نسل کشی کے حوالے سے کوئی طریقہ ایجاد کرے کہ نرد اور مادہ بچھڑے پیدا ہو۔ میڈیکل کا طالب علم گردے کی پیوند کاری کی طرح اپنی ذہانت کی بدولت دل کی پیوند کاری کا تجربہ کرے ہمارا انجینئر ٹیلی فون سے موبائل پر بغیر کیبل کے بات کرنے والے ایجاد پر ایسی بجلی بنائے جو Wi-Fi کی طرح لائٹ چلائے پیٹرول کی بجائے پانی پر چلنے والی کاریں کوئی پاکستانی کبھی بنائے گا

اردو ہماری قومی زبان ہے جب کہ ہمارے انگریزی میں مارکس اردو سے زیادہ آیے ہیں مطالعہ پاکستان میں آٹھویں کلاس سے لے کر ماسٹر کی ڈگری تک قائد اعظم کے چودہ نکات اور علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ اہم ترین سوال ہیں سرکاری سکولوں میں ایم فل اساتذہ ہیں سکول میں تعلیم اردو میں جب کہ پرائیویٹ سکول میں ایف اے اور بی اے والے ٹیچرز ایکسفورڈ کا سلیبس پڑھا رہے ہیں کچھ پرائیویٹ سکول بیکن ہاؤس کے نام پر چل رہے ہیں تو کچھ دی ایجوکیٹرز کے نام پر ان مہنگے ترین سکولوں میں سلیبس انگریزوں کا ہے۔

گزشتہ تین حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم نہ ہونے کے برابر رہی ہے آج کچھ یونیورسٹیوں کے بجٹ تک ختم کر دیئے گئے وہ اپنے مالی معاملات کیسے پورے کریں گے یہ ان حکومتوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے نہ ہمارے نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔

%d bloggers like this: