از بہشتِ بریں
محلہِ جیالاں
پیارے بلاول,
اُمید ہے تُم خیر و عافیت سے ہو گے, اگرچہ گاہے بگاہے پُرانے جدوجہد کے ساتھیوں کے اوپر چلے آنے سے تمہاری خیر خیریت معلوم ہوتی رہتی ہے مگر پھر بھی خط لکھنے کے کُچھ آداب تو ہوتے ہی ہیں.. اور جب سے چچا غالب نے پوسٹ ماسٹری سنبھالی ہے.. تب سے ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی خط کھول کر پڑھ لیا اور کوئی خلاف مزاج بات پاء گئے تو مُذمت میں تو پورا دیوان ہی لکھ چھوڑیں گے… خیر..
تو میں کہہ رہا تھا کہ ہم بھی یہاں مزے میں ہیں.. ہر ویک اینڈ پر فیض احمد فیض اور عاصمہ جہانگیر شرابِ طہور کی صراحی اُٹھائے چلے آتے ہیں, بس پھر ناصر بلوچ, ادریس طوطی, عُثمان غنی, فہمیدہ ریاض اور احمد فراز کی سنگت میں وہ محفل جمتی ہے کہ پوچھو ہی مت.. اگرچہ کل جب احمد فراز آئے تو کُچھ افسردہ افسردہ سے دِکھائی دئیے.. غالباً وہاں دُنیا میں اُنکے ناخلف نے ہی کوئی نیا چن چڑھایا ہو گا.. ہم نے زیادہ کریدنا مناسب خیال نہیں کیا.. خامخواہ ہی شرمندہ ہو جاتے ہیں..
خیر میں بتا رہا تھا کہ خوب محفل جمتی ہے.. کبھی کبھی تو تمہارے نانا بھی تمہارے دونوں ماموؤں کی معیت میں چلے آتے ہیں. اگرچہ وہ اِن دِنوں کافی مصرف رہتے ہیں. اُنہوں نے فرشتوں کو رضوانِ جنت کے عہدے کے لئے عام انتخابات کروانے کی تجویز دی ہے.. اسکے علاوہ اُنہوں نے جنتیوں کے حقوق اور اُنکی آواز اربابِ قتدار تک پہنچانے کے لئے’جنتی پیپلز پارٹی’ کے نام سے ایک تنظیم کی بُنیاد بھی رکھی ہے.. تو بس یہی وجہ ہے کہ وہ آجکل بے حد متحرک اور مصروف رہتے ہیں..
تمہارے نانا نے پچھلے دِنوں پٹھانڑے خان صاحب کے یہاں ایک نشست میں مُجھے اور مُحسن نقوی کو آنے والے عام انتخابات کے سلسلے میں رضوانِ جنت سے مذاکرات کرنے کی بابت کہا ہے. دیکھتے ہیں کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے..
ارے میں تمہاری ماں اور نانی کی بابت ذکر کرنا تو بھول ہی گیا.. وہ ایسا ہے برخوددار کہ تمہاری نانی اور ماں دونوں کا ماننا ہے کہ تمہارے نانا کے ہوتے ہوئے کسی اور کے سیاست کرنے کی نہ تو گُنجائش رہتی ہے اور نہ ہی ضرورت ہے تو بس اِس خیال کے تحت اُن دونوں نے سیاست سے مُکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ایدھی صاحب کے ساتھ مِل کر حوروں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک فلاحی ادارہ بنایا ہے اور اسی میں ہی مصرفِ عمل رہتی ہیں..
خیر یہ تو ہو گیا سب کا حال احوال.. اب میں اپنے اصل مُدعے کی جانب واپس آتا ہوں.. تو برخوددار بات یہ ہے کہ میں پیپلز پارٹی پنجاب کی بابت بے حد فکر مند ہوں..مُجھے یاد ہے کہ جب میں وہاں سے یہاں آیا تھا تو صوبہ پنجاب, پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اور خاص کر سرائیکی وسیب تو پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے لاڑکانہ ثانی کی حثیت رکھتا تھا… میں یہ ہرگز نہیں بھولا کہ تمہارے نانا اور اُنکے بعد تمہاری ماں کو جب جب عوامی حمایت کی ضرورت پڑی تو اُنہوں نے بِلا جھجک سرائیکی وسیب کا ہی رُخ کیا اور وسیب نے اُنہیں کبھی مایوس نہیں لوٹایا.. یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تمہارے نانا نے نظر بندی کا خاتمہ ہوتے ہی مُلتان کا رُخ کیا اور تمہاری ماں نے اپنی شہادت سے اگلے روز مُلتان میں ہی عوام سے مخاطب ہونا تھا.. یہ اور بات ہے کہ تقدیر نے اُنہیں اِسکا موقع نہ دیا.. مگر اِن باتوں سے وسیب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے..
مگر آج یہ کیا کایا پلٹ دیکھتا ہوں کہ جہاں وسیب تمہیں بھولنے لگا ہے وہیں تُم نے بھی وسیب کو یکسر بِسرا دیا ہے. گُزشتہ عام انتخابات کے بعد سے میں خون کے آنسو رو رہا ہوں. میں نے درجنوں بار دیکھا کہ جب تمہارے والد نے کسی کو ٹکٹ دینے کی بابت رابطہ کیا تو اکثر نے ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا.. اِسکے برعکس مُجھے وہ دور بھی یاد ہے کہ جب تمہارے نانا کے سامنے بڑے بڑے تُمن دار اور وڈیرے ٹکٹوں کے حصول کے لئے دست بستہ کھڑے رہتے تھے اور وہ اُنہوں نظرانداز کر کے عام جیالوں کو ٹکٹ دیا کرتے تھے… مُجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کل تک پنجاب کے گُمنام و بے نام لوگ جو بُھٹو کے نام پر تیر کے نشان پر انتخابات جیتے اور الیکٹبلز قرار پائے تھے آج وہ بُھٹو کے نواسے کو آنکھیں دِکھاتے ہیں اور تیر کے نشان پر الیکشن لڑنے کو تیار نہیں..
تُمہیں یہ بات معلوم نہیں ہو گی کہ گُزشتہ الیکشن کی کمپئین میں, میں بھی تمہارے شانہ بشانہ رہا.. جب تُم سندھ سے اپنے جیالوں کا قافلہ لئے پنجاب کی دانگ چلے.. تو میں بھی تمہارے ساتھ تھا… اُس وقت میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.. میں نے رضوانِ جنت کی منت سماجت کر کے بڑی مُشکل سے تُمہارے قافلے کا روحانی ہمراہ بننے کی خصوصی اجازت لی تھی.. جب جب تُمہارے قافلے نے کسی شہر میں پڑاؤ ڈالا تو تمہارے کنٹینر کے سامنے, تمہارے جیالوں کے ساتھ میں نے بھی دھمالیں ڈالیں.. اگرچہ تُم مُجھے سُن نہ سکے مگر تمہارے نعروں کے جواب میں میری آواز سب سے بلند تھی.. مُجھے اِس بات کی خوشی تھی کہ تُم میرے گھر جا رہے ہو.. میرے وسیب کو دوبارہ سے تسخیر کرنے کے لئے.. میرے لوگوں کو گلے لگا کر اُنکے دُکھوں کا مداوا کرنے… میرے لئے یہ خیال ہی تسکین کا باعث تھا کہ تُم میرے شہر بھکر بھی آؤ گے اور میرے مرقد پر مُجھ سے مُلاقات کرو گے میں خوش تھا کہ چلو اِسی بہانے تُم سے روبرو مُلاقات بھی ہو جائے گی.. کیوں کہ میں نے سُنا ہے کہ تُم سے مُلاقات عام لوگوں کی بس کی بات نہیں ہے.. لیکن میری تمام اُمیدوں پر اُس وقت اوس پڑ گئی جب تُم رحیمیار خان سے ہی واپس ہو لئے…..
میں تو چلو تمہارے ساتھ چل کر آیا تھا, میرے لئے تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی مگر کیا تُم نے کبھی اُن جیالوں کا بھی سوچا ہے کہ جو ایک عرصے سے صرف تمہاری ایک دید کی آس میں زندہ ہیں.. اُن پر کیا بیتی ہو گی…
تُم تو وہاں سے واپس ہو لئے مگر میں وہاں سے شہر شہر اور ضلع ضلع گیا.. میں نے دیکھا کہ تُمہارے یوں واپس لوٹ جانے پر میرے وسیب کے لوگوں کے دِلوں پر کیا قیامت گُزری.. ہزاروں بے لوث کارکن اِس آس میں تھے کی تُم اُن تک آؤ گے, اُن کی گُزارشات سُنو گے, اُنکی دلجوئی کرو گے.. کتنے ہی لوگ تمہیں تمہاری ماں کا پُرسہ دینا چاہتے تھے مگر سب دھرے کا دھرا رہ گیا… اور تُم واپس لوٹ گئے..
تُمہیں معلوم ہے کہ تمہارے نانا اور ماں اپنے جیالوں کی خوشی غمی کی بابت کس قدر باخبر رہتے تھے.. ؟ میں بحثیت عام کارکُن تمہاری ماں بینظیر بُھٹو سے جیل سے خط و کتابت کیا کرتا تھا مگر کیا آج کسی عام کارکُن کے لئے تُم سے اِس طرز کا رابطہ مُمکن ہے؟؟ نہیں!!!
مُجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ تمہارے لئے جان قُربان کر دینے والے تمہارے جیالے تُم سے ایک مُلاقات کے لئے تمہارے ارد گرد موجود لوگوں کو لاکھوں روپیہ دینے کے باوجود بھی تُم سے نہیں مِل پاتے.. میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا اِس میں کوئی قصور نہیں.. مُجھے معلوم ہے کہ تُم اِس بابت یکسر لاعلم ہو… تبھی تو میں تمہیں یہ خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں…. مگر تُم یہ خط پڑھ کر ہرگز دلبرداشتہ نہ ہونا… تُم یہ ہرگز مت سمجھنا کہ ایسا صرف تُمہارے دور میں ہی ہو رہا ہے.. مُجھے یاد ہے کہ تمہاری ماں کے وقت میں بھی کچھ مفاد پرستوں نے اُسے گھیر کر اُسے اُس کے جیالوں سے دور کرنے کی کوشش کی تھی.. مگر تہماری ماں بھانپ گئی.. اُس نے اِس بات کے سدباب کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک ٹیم بنائی جو صرف اُسی کو جوابداہ تھی.. وہ کارکُن تمہاری ماں کو جیالوں کے حالات سے باخبر رکھتے تھے.. اور تمہاری ماں بِلا تخصیص سب سے مِلتی تھی… اور یہی وجہ تھی کہ تمہاری ماں کبھی اپنے جیالوں سے غافل نہ ہوئی.. تُمہیں بھی اب کُچھ ایسی تدبیر کرنی ہے اور اپنے اور اپنے بے لوث جیالوں کے بیچ اِن فاصلوں کو ختم کرنا ہے.. یاد رکھو کے تمہاری اصل طاقت یہی عام جیالے ہیں جو گلی گلی اور قریہ قریہ تمہارے نمائندے ہیں.. تمہیں انہیں کلیجے سے لگانا ہے.. تمہیں اِن کی طاقت بنتے ہوئے انہیں اپنی طاقت بنانا ہے… تُمہیں اِن کے دُکھڑے سُننے ہیں اور اِن سے اپنے دِل کی باتیں کرنی ہیں.. یاد رکھو اگر تُم ایسا کرو گے تو یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ایک نیا جنم ہو گا.. اور اگر اِس مرتبہ پنجاب سے جئیے بُھٹو کا نعرہ بلند ہوا.. تو یہ جمہور دُشمن طاقتوں کے لئے پیغامِ اجل ثابت ہے…
مُجھے معلوم ہے تمہارے بھی انکلز ہیں جنہوں نے 2008 سے 2013 کی حکومت کے دوران بے پناہ فائدے اُٹھائے ہیں.. تُم اُنہیں عوام کے لئے نوکریاں دیتے رہے اور وہ آگے اِن نوکریوں کو بیچ بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے اور تمہاری بدنامی کا باعث بنتے رہے.. اِن انکلز نے تمہارے نام پر لوٹ مار کی… اِن میں سے زیادہ تر انکلز تو گُزشتہ انتخابات کے دوران تبدیلی کو پیارے ہو گئے مگر کُچھ انکلز آج بھی تمہاری پیپلز پارٹی سے جونک کی طرح چمٹے ہیں اور مُسلسل خون چوس رہے ہیں. یہی انکلز ہیں جنہوں نے تُمہارے ارد گرد ایک فریبی دُنیا تشکیل دے رکھی ہے اور تُمہیں سب اچھا ہے کی تھپکی دیے کر جیت کی لوریاں سُناتے ہیں.. مگر اِس بات کا تُمہیں اب تک ادراک ہو چُکا ہو گا کہ یہ حقائق کے منافی ہے… تمہاری ماں کو بھی ایسے انکل درپیش تھے جن سے اُس نے آہستہ آہستہ جان چُھڑائی تھی.. تمہیں بھی اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اِن نام نہاد انکلز سے چھٹکارہ پانا ہے…
خیر میری بات لمبی ہو رہی ہے اور مُجھے اِس بات کا بھی احساس ہے کہ تمہاری اُردو ابھی کچی ہے. اِس لئے میں اب تُمہیں زیادہ تکلیف دئیے بغیر اجازت چاہوں گا. میری طرف سے اپنے والد آصف علی زرداری کی مزاج پُرسی کرنا اور بختاور اور آصفہ کو بے حد پیار.
خیر اندیش
رزاق جھرنا
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی