وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کو کنٹرول کیلئے سارے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ کورونا سے خوف کی فضاء ختم ہو رہی ہے۔ اپنے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ بہتر حکمت عملی کے تحت ہم نے ریلیف پیکیج کو آگے بڑھایا۔
جب سے کورونا آیا ہے کان اچھی خبر کو ترس گئے تھے، وزیر اعظم کی طرف سے خوف کی فضاء ختم ہونے کی بات بھی خوشخبری کے زمرے میں آتی ہے۔ آج صبح وبائی امراض کی تاریخ کے بارے میں پڑھ رہا تھا تو گزشتہ صدی میں طاعون کا ذکر آیا، سابق ریاست بہاولپور میں طاعون کی وباء کا تذکرہ صادق الاخبار میں موجود ہے۔
تاریخ پڑھ رہا تھا تو مجھے اپنے نانا حضور حضرت مولانا یار محمد دھریجہؒ کی باتیں یاد آئیں جو وہ طاعون کے حوالے سے کرتے تھے اور یہ بھی بتاتے تھے کہ اُن دنوں اس وبائی مرض کے علاج کیلئے بہاولپور، بہاولنگر اور خان پور میں بہتر سہولتیں تھیں، رحیم یار خان ان دنوں نوشہرہ کے نام سے ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ ریاست بہاولپور میں وبائی مرض طاعون کی تاریخ بتانے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے یہ خبر آئی ہے کہ زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ ادا کی جا سکتی ہے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا درست ہے کہ معیشت طویل لاک ڈائون برداشت نہیں کر سکتی،
کورونا کے ساتھ ساتھ غربت سے بھی لڑنا ہو گا۔ یہ وہ بات ہے جو ہم پہلے دن سے کرتے آرہے ہیں، اچھا ہوا کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہوا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ایک کروڑ دد80 لاکھ افراد بیروزگار اور دس لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کیلئے بند ہو سکتے ہیں۔
آہستہ آہستہ کورونا لاک ڈائون کی بندشیں کم کرنا ہوں گی۔ وزیر منصوبہ بندی نے بالکل بجا اور درست کہا کہ کورونا لاک ڈائون سے بیروزگاری بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے۔
کورونا لاک ڈائون سے سرائیکی وسیب بہت زیادہ متاثر ہوا ہے کہ وسیب میں غربت اور بیروزگاری سب سے زیادہ ہے۔ وسیب کے عام آدمی کا انحصار زراعت پر ہے۔ کاشتکاروں کیلئے بجلی کے بل معاف ہونے چاہئیں اور اُن کو فصل خریف کیلئے بیج، سپرے اور کھاد پر سبسڈی ملنی چاہئے۔
فصل خریف کی کاشت کیلئے پندرہ اپریل کو نہروں میں پانی چھوڑا جاتا تھا مگر مئی شروع ہو چکا ہے کاشتکار العتش العتش کی صدائیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز بہاولپور گیا ، کمشنر بہاولپور آصف اقبال چودھری نے جہاں کورونا کے جلد خاتمے کی خوشخبری سنائی وہاں بہاولپور کے دوستوں نے شکوہ کیا کہ جہانگیر ترین کی طرف سے ملتان لودھراں موٹروے کی منظوری میں بہاولپور کو نظر انداز کرنا زیادتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سی پیک میں بھی بہاولپور کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بہاولپور کے مسائل حل کریں کہ بہاولپور کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں۔
ریاست بہاولپور میں وبائی مرض طاعون کے بارے میں عرض کروں گا کہ صادق الاخبار کے مطابق ہندوستان میں وقتاً فوقتاً وبائی امراض پھوٹ پڑتی تھیں۔ 19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں طاعون کے حملے ہوئے۔
البتہ وبائی امراض کے تدارک کیلئے ریاست بہاولپور میں بہترین انتظامات کئے جاتے ، بہتر انتظامات کی حالت یہ تھی کہ ہندوستان کے دیگر علاقوں اور دیگر ریاستوں کے لوگ بھی علاج کی غرض سے بہاولپور آتے، یہ بات بھی ریکارڈ میں آئی ہے کہ کبھی بھی طاعون کی بیماری بہاولپور میں پیدا نہ ہوئی البتہ اگر کوئی باہر سے کوئی شخص بہاولپور آتا تو یہ وباء پھیل جاتی۔ ریاست کی طرف سے آبادی سے کوسوں دور قرنطینہ مرکز بنائے جاتے۔
وباء کے دوران ریاست کی حدود میں داخل ہونے والے افراد کو ریاست سے باہر روک لیا جاتا جیسا کہ ریلوے اسٹیشن ہیں یا سرحدی حدود میں اونٹوں اور گھوڑوں پر آنے والے افراد کو ریاست میں داخل ہونے سے پہلے معائنہ کیا جاتا، ریاست میں ہنگامی حالت نافذ کر دی جاتی۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ باہر سے آنے والا کوئی مریض اگر اپنا مرض چھپاتا تو اُس کو سزا دی جاتی۔
ہر طرح کے حفاظتی انتظامات کئے جاتے اور مریضوں کے علاج، ٹیسٹ سب کچھ فری ہوتے۔ ریاست کے بادشاہ ان تمام امور کی نگرانی کرتے، طاعون کی بیماری ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پہلے بھی موجود رہی مگر 1897-98ء میں بہت سے لوگ طاعون کی وجہ سے مر گئے، مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔
ریاست بہاولپور کے سخت انتظامات کی وجہ سے لوگ اس وبائی مرض سے بہت حد تک محفوظ رہے۔ ریاست کی تاریخی کتب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ 1902ء میں طاعون کی بیماری ایک مرتبہ پھر پھوٹ پڑی اور ریاست بہاولپور کے شہروں اور قصبوں میں یہ وباء پھیل گئی اور احمد پور شرقیہ، خانپور اور بہاولپور طاعون سے متاثر ہوئے۔ اس موقع پر قرنطینہ سنٹر مراکز بنائے گئے اور خصوصی طور پر ڈاکٹرز علاج کیلئے مقرر کئے گئے۔
ریاست میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی اور لوگوں کو سختی کے ساتھ گھروں میں بند کیا گیا۔ 170 لوگ اس مرض سے ہلاک ہوئے جبکہ 400کے لگ بھگ لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے۔ 1907ء کو یہ بیماری منچن آباد اور دیگر علاقوں میں پھیل گئی۔ اس موقع پر بھی ریاست کی طرف سے سخت حفاظتی انتظامات کے باعث جانی نقصان بہت کم ہوا۔ 1912-13ء میں ریلوے سٹیشن بہاولپور پر طاعون کے 4 مریض ملے جن کو فوری طور پر شہر سے باہر منتقل کیا گیا۔
ریاست بہاولپور میںطاعون کی وباء کے بارے میں مزید لکھا گیا ہے کہ 1916ئ، 1918ء اور 1921-22ء میں بھی طاعون کی بیماری میں ریاست بہاولپور کے مختلف علاقوں میں حملہ کیا ان حملوں میں مجموعی طور پر 2000کے قریب لوگ اس بیماری کا شکار اور تقریباً 1000 آدمی فوت ہو گئے۔
بزرگ بتاتے ہیں کہ جب طاعون کی بیماری آئی تو لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا اور قرنطینہ مرکز بنائے گئے تو ریاست کی طرف سے ملازمین کو تنخواہیں اور خوراک ریاست کی طرف سے پہنچائی جاتی رہی۔
تاریخی حوالے بیان کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ اس وقت بہت مشکل کی گھڑی ہے ایسی ہی مشکل کی گھڑی کے موقع پر خواجہ فریدؒ کے پیغام کو نہیں بھولنا چاہئے … ہن تھی فریدا شاد ول مونجھاں کوں نہ کر یاد ول جھوکا تھیسن آباد ول اے نئیں نہ واہسی ہک منی ٭٭٭٭٭
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر