قبل مسیح اور قیام پاکستان سے پہلےکا آباد ڈی جی خان ڈویژن اور ضلع راجن پور کا انتہائی مشہور اور تاریخی اہمیت کا حامل شہر جسے اب ٹاؤن کمیٹی کا درجہ تو دے گیا مگر سہولیات یونین کونسل والی بھی میسر نہیں۔
تاریخی حیثیت اور مقام جہاں پر سرائیکی وسیب اور جنوبی ایشیاء اورپورے برصغیر پاک و ہندکے ہفت زباں صوفی شاعر بزرگ حضرات خواجہ غلام فرید رحمتہ اللّٰہ علیہ مٹھن کوٹ شریف سے،حضرت خواجہ حافظ جمال اللّٰہ ملتانی رحمتہ اللّٰہ علیہ ملتان شریف سے،حضرت شاہ سلیمان پیر پٹھان رحمتہ اللّٰہ علیہ تونسہ شریف سے، اور دیگر روحانی ہستیوں نے یہاں تشریف لاکر حاجی پورشریف میں محبوب قبلہ عالم مہاروی حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ شہنشاہ رحمتہ اللّٰہ علیہ کے مزار پرانوار پر چلہ کشی فرمائی اور فیوض و برکات حاصل کیئے،
سرائیکی وسیب کے عظیم شاعر جمشید احمد کمتر احمدانی کے جد امجد حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ شہنشاہ رحمتہ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ حضرت خواجہ ابوبکر احمدانی رحمتہ اللّٰہ علیہ کا مزار پرانوار بھی اس شہر میں ہے عباسی کلہوڑہ اور سرائی خاندان کے بزرگوں کے مزارات جن میں میاں عبدالنبی کلہوڑہ عباسی کا مزار بھی واقع ہے،
ڈاکٹر سید اعجاز احمد شاہ صاحب بخاری(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور کے پبلشر) جیسی معروف شخصیات کا مدفن بھی یہاں ہےاور خانوادہ حضرت قبلہ عالم مہاروی خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللّٰہ علیہ حضرت خواجہ عبد الصمد مہاروی رحمتہ اللّٰہ علیہ نے اپنے زندگی کے بیشتر ایام حاجی پورشریف میں گزارے اور تبلیغ و اصلاح کا سلسلہ تادم حیات جاری رکھا اور امن و محبت اور صوفیاء کے پیغام پہنچانے کا سلسلہ نہ رکنے دیا اور یہاں قیام پاکستان سے قبل کے شواہد آج بھی موجود ہیں
مگر بدقسمتی سے بنیادی سہولیات زندگی کا آج بھی فقدان ہے اوربنیادی روزمرہ زندگی کے مسائل سے چھٹکارے کے لیئے شاید کسی نجات دہندہ کا منتظرہے؟
مولانا محمد عبد اللّٰہ حنیف کی سربراہی میں ادارہ تعمیر انسانیت جیسے ادارے کا حاجی پور شریف میں قیام نعمت سے کم نہیں لیکن اس کے باوجودبارہا باریاں لینے والے نمائندے آج بھی فوٹو سیشن ،سیلفیوں تک محدود،نہ خود کچھ کریں گے نہ کسی کو عوامی فلاح و بہبود ،بھلائی اور بہتری کے لیئے نہ کسی کو کچھ کرنے دیں گے کی روش حسب سابق بدستور برقرارہے بدقسمتی سے ہر دور حکومت میں ترقیاتی منصوبوں اور کاموں میں نظر انداز کیا گیا جن سے ڈائریکٹ عوامی فلاح و بہبود ممکن تھی۔اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہاں کےمقامی عوامی نمائندے باریاں لینے کیساتھ ساتھ اپنے ذاتی مفادات کو ہر دور میں ترجیح دیتے رہے اور اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے کاروبار اور ذاتی آسائشات کو اولیت دیتے ہوئے غریب عوام کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
اپنے اثاثے بڑھانے اور کاروبار زندگی کو تقویت پہنچاتے رہے مگر عوامی مفاد عامہ کے اجتماعی پراجیکٹ فائلوں کی حدتک یا زمیں برد اور کرپشن کی نظر اور کھکھ پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی تو بن گئے مگر یہاں کی عوام کی قسمت بدلنے میں ناکام رہے کیونکہ شاید اللّٰہ تبارک نے انہیں اس نیکی کے کام سے محروم رکھا یا یہ خدمت انکے مقدر میں نہ تھی۔
صدر پاکستان،وزیراعظم پاکستان،سپیکر قومی اسمبلی،سپکیر پنجاب اسمبلی ،وفاقی و صوبائی وزراء،ضلع ناظم،چیئرمین ضلع کونسل بھی کئی مرتبہ یہاں دورے اور وعدے تو کر گئے لیکن صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے اور ماضی سے حالات ابتر ہیں بدقسمتی سے سابقہ ادوار میں مہیاء کی گئی سہولیات سے بھی محروم کردیا گیا ہے مختلف ادوار میں کروڑوں کے بجٹ خرچ اور فائلوں کا پیٹ بھرنے کے باوجود بھی عوامی فلاح و بہبود میں بہتری نہ لاسکے جن میں سے چند ایک مثالیں جن میں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجودپینے کا پاک صاف میٹھا پانی ایک خواب لوگ آج بھی 20سے 40روپے فی کین مضر صحت پینے کا پانی خریدنے پر مجبورہیں اور 1980میں بچھائی گئی واٹر سپلائی اسکیم کی پائپ لائن بوسیدہ ہوچکی ہے اور اکثر وبیشتر نالیوں کا پانی شامل ہوجاتا ہے اور 60فیصد شہری آبادی پائپ لائن سے محروم ہے جس سے گھر گھر پانی پہنچ سکے سیلفی مافیا،فوٹو سیشن مافیا اور صرف ہوائیاں چھوڑنے والوں کے سبب یہاں کےمکیں 200سے300روپے ماہانہ نہیں دے سکتے تاکہ اس مصیبت سے مستقل طور پر جان جھوٹ جائے جبکہ روزانہ کی بنیاد پربد قسمتی سے 100سے 150روپے کا مضر صحت پینے کا پانی بھروانے پر مجبور ہیں۔اس لیئے اس فورم کے توسط سے متعلقہ حکام بالا سے پرزور اپیل اور مطالبہ ہے کہ حکومتی سرپرستی میں الحمد واٹر فلٹریشن پلانٹس ڈی جی خان کی طرز پر واٹر فلٹریشن پلانٹ کے قیام کا مطالبہ ہے تاکہ یہاں کے مکین مقدر کا لکھا سمجھتے ہوئے بے وقتی موت کا لقمہ اجل اور مختلف بیماریوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود سیوریج سسٹم ناکارہ،صحت و صفائی کے ناقص انتظامات جگہ جگہ گندگی و غلاظتوں کے جوہڑ مستقل صفائی ستھرائی کا شاید کوئی تصور نہیں،کچی آبادی سے گزرنے والا نالا گندگی و غلاظت کے جوہڑ کا منظر پیش کرتا مچھروں کی آماجگاہ اور افزائش نسل کا موجب ہے مگر ہر دور میں پختگی تو درکنار صفائی ستھرائی تک بھی توجہ نہیں دی گئی ۔
کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود صحت کا سسٹم بیکار رورل ہیلتھ سنٹر بھوت بنگلہ بننے لگا سہولیات کا یہ عالم ہے کہ ڈیجیٹل ایکسرے مشین کا افتتاح کیا گیا جو صرف افتتاح تک محدود تھا اکثر و بیشتر عملہ غائب روسٹر پر ڈیوٹی، پرائیویٹ ہسپتالوں،کلینکس اورشہر کے گردونواح کے اتائی ڈاکٹروں پر ہر وقت رش لگا رہتا ہےمگر رورل ہیلتھ سنٹر حاجی پورشریف میں یہاں کے عوام جانے سے نامعلوم کیوں کتراتے ہیں
24گھنٹے ایمرجنسی کی سہولت ہونے کے باوجود بھی عملہ اکثر غائب رہتا ہے،کئی مرتبہ ایم پی اے، ڈپٹی کمشنرز راجن پور اور اسسٹنٹ کمشنر جامپور نے بھی وزٹ کیا اور عملہ غیر موجود پایا گیااور ہسپتال میں بھی پینے تک کا پاک صاف میٹھا پانی بھی میسر نہیں۔
کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود گرلز/بوائز سکولوں کی تعلیمی صورتحال ابتر ہے اور گرلز ہائی سکول کی ہائیر سکینڈری یا وویمن کالج میں اپ گریڈیشن نہ ہونے کے سبب سینکڑوں طالبات کا مستقبل تاریک ہوچکا اور مزید کا تاریک ہونے کا خطرہ ہے
بنیادی سہولیات کا فقدان یہاں تک کے پینے کا پاک صاف میٹھا پانی تک میسر نہیں اکثر سیٹیں خالی افسوس کہ درجہ چہارم تک کی سیٹیں بھی خالی ہیں ،لائبریری،کمپیوٹر لیبز،سائنس لیبارٹری،کھیلوں کا سامان اور کھیلوں کے مواقع تک میسر نہیں،مرکز حاجی آباد پرائمری سکول سینکڑوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہونے کے باوجود بھی دو کمروں کے علاوہ چھپر نما عمارت میں قائم ہے اور اسکے برعکس پرائیویٹ سکولوں کی بڑھتی تعداد لمحہ فکریہ ہے
جہاں سکول مالکان نے ناقص سہولیات اورمڈل،میڑک،ایف اے پاس مردو خواتین اساتذہ کم تنخواہ پر رکھے ہوئے ہیں جو طلباء طالبات کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں جنکا صرف مطمع نظر پیسہ کمانا اور کاروبار ہے ناکہ بہتر معیار تعلیم ہے۔
بائی پاس روڈ کی ناگفتہ بہ حالت ہے جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں حاجی پورشریف راجن پور روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں سیلابی پانی کے سبب پلیں ٹوٹ چکیں ہیں جنکی تعمیر تاحال نامکمل ہے۔
میپکو(واپڈا) حکام سینکڑوں ایف آئی آرز کے اندراج کے باوجود بھی بجلی چوری پر تو قابو نہ پاسکے لوڈ شیڈنگ عروج پراور بجلی چوری کا اضافی بوجھ بل دینے والے غریب و مجبور صارفین پر ڈال دیتے ہیں یا لائن لاسز پورے کرنے کے لیئے طویل ترین اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جس کے سبب مچھروں کی بہتات ہے اور غریب و مجبور صارفین صرف بجلی کے بل کی درستگی تک کے لیئے فاضل پور،راجن پور سینکڑوں روپے کرایہ خرچہ کی مد میں خرچ کر کے دھکڑ کھانے پر مجبور ہیں۔
شہر بھر میں پرانے اور کم پاور کے ٹرانسفارمر اکثر و بیشتر خراب ہوجاتے ہیں،جس کے لیئے بارہا میپکو حکام کو نشاہدہی کی گئی اور گزارش کی گئی کہ پوری ٹائون کمیٹی حاجی پور شریف میپکو فیڈرکا ازسرنو نیاسروے کیاجائے اور سروے کے تناسب سے نئے کھمبے،بجلی کی تاریں، ٹرانسفارمر نصب کیئے جائیں اور نئے بجلی کے میٹر اور کنکشن ون ونڈو آپریشن کے تحت حاجی پورشریف میں ہی اور آسان اقساط پر مہیاء کیئے جائیں تاکہ بجلی چوری کا بھی خاتمہ ہوسکے اور میپکو ہر ماہ لاکھوں روپے کے نقصان سے بچ سکے
منسٹر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ پنجاب کے والد کا حلقہ ہونے کے باوجود بھی ویٹرنری ڈسپنسری کو ہسپتال کا درجہ نہ مل سکا،اور نہ ہی سلاٹر ہاؤس بن سکا مویشی پال حضرات عدم سہولیات کے باعث شدید پریشانی کا شکارہیں۔ انتہائی پسماندہ علاقہ ہونے کے باوجود ریسکیو 1122کی سہولت بھی تاحال میسر نہ ہوسکی، محکمہ توسیع زراعت کا دفتر قائم نہ ہوسکاجہاں زراعت پیشہ کسانوں ، کاشتکاروں کو بروقت مشورہ جات اور اصلاح و احوال سے مستفید کیا جاسکے
لینڈ ریکارڈاتھارٹی کے کمپیوٹرائزڈ سنٹر کا قیام بھی غریب کسانوں ،کاشتکاروں اور اہل علاقہ کے لیئے اشد ضروری مرکز خرید گندم ،فوڈ سنٹر کا قیام دیرینہ مطالبہ ٹاؤن کمیٹی بننے کے باوجود بچوں بزرگوں اور خواتین کے لیئے پارکس و تفریح گاہ سے تاحال محروم نوجوانوں کے لیئے باقاعدہ کھیل کا کوئی میدان میسر نہیں اور نہ کوئی سہولیات پبلک ٹرانسپورٹ برسوں گزرنے کے بعد بھی پریشانی کا باعث شام 6 بجے کے بعد آنے جانے کے لیئے سواری مشکل جنرل بس اسٹینڈ و دیگر بس اڈوں پر انتظار گاہ کا کوئی تصور نہیں خودساختہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی عروج پر،بیکری آئیٹم کی تیاری بھی عجیب و غریب ماحول میں ،مہنگی اور باسی سبزیاں و فروٹ مقدر اور قوت خرید بھی ناممکن۔فنی تربیت /ووکیشنل ٹریننگ سنٹر کئی بے روزگار مردو خواتین کو احسن طریقے سے باروزگار اور عزت نفس متاثر کیئے بغیر روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں
یوٹیلیٹی سٹور قائم تھا ختم کردیا گیا دوبارہ بحال کیا جائے ڈاکخانہ قائم تھا ختم کردیا دوبارہ بحال کیا جائے پولیس اسٹیشن کی حدود کیمطابق عصر حاضر کے جدید تقاضوں کیمطابق سہولیات ، نفری،اور عوام کے جان و مال کے بہتر تحفظ اور امن و امان کی ماڈل صورتحال کے لیئے جدید تفشیشی آلات اور ٹیکنالوجی بھی فراہم کیجائے۔ سب سے بڑھ کر ظلم قبرستان کی حالت زار جس طرف متعلقہ عوامی نمائندے شاید توجہ دینا گناہ سمجھتے ہیں اور ناقص سیوریج سسٹم کے سبب گندگی و غلاظت والا پانی قبرستان میں جارہا ہے اور ساتھ میں قائم گندگی و غلاظت کا جوہڑ بدبو اور تعفن کیساتھ قبرستان میں سیم کا بھی موجب بن رہا ہے۔
نئی آبادیوں میں سہولیات کا فقدان بغیر کسی پلاننگ کے نئی آبادیوں کا قیام مزید مسائل و پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتا جارہا ہے۔
اس مرتبہ روایتی اور حسب سابق جدی پشتی اور دھن دولت و سرمائے کے بل بوتے پر اور سرداروں کی پشت پناہی کیصورت میں کامیابیاں لینے والے نمائندوں کی بجائےمتوقع بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں یہاں کے عوام نے بڑی امیدیں لگائی ہوئی ہیں اور نوجوان طبقہ سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں کہ شاید وہ نجات دہندہ کے طور پر ظاہر ہوں۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی