۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار ارطغرل ڈرامہ پی ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہوگیا۔ ارطغرل سے ہمارا رشتہ پچھلے سال جڑا اور کچھ ایسا کہ یہ ترک ڈرامہ سیریل حواس پر چھا گیا۔ اس کے بارے میں کئی بار فیس بک پوسٹوں میں تذکرہ کیا، کالم بھی لکھے اور ویڈیو بلاگ بھی بنائے۔ جس نے اسے شروع کیا وہ اس کے سحر میں ایسے گرفتار ہوا کہ نکل نہ پایا۔ بڑے بھائی طاہر ہاشم خاکوانی کو پچھلے سال پہلا سیزن جو ستر سے زائد قسطوں پر مشتمل ہے، کاپی کر کے دیا ، صرف چار پانچ دنوں بعد ان کا پیغام ملا کہ اگلا سیزن چاہیے۔ معلوم ہوا کہ ابتدائی چار پانچ قسطیں دیکھنے کے بعد وہ رات رات بھر جاگ کر اسے دیکھتے رہے۔ پھر دوسرے سیزن سے تیسرے اور پھر پانچویں تک کے سفر میں وہ ہمیں پیچھے چھوڑ گئے ۔ پانچواں سیزن پاکستان میں بے شمار لوگوں نے ترکی والوں کے تقریباً ساتھ ہی دیکھا۔ ترکی کے نیشنل ٹی وی پر اس کی قسط نشر ہوتی تو ایک دو دنوں کے اندر اس کا اردو سب ٹائٹل والی قسط ویب سائٹس پر آ جاتی ۔
سوال یہ ہے کہ اس ڈرامے میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ہم جیسے لوگ اس کے لئے مدح سرا ہیں؟رزمیہ فلموں اور ڈرامہ سیزن سے مجھے بہت دلچسپی ہے۔ ہم نے ارطغرل کوابتدا میں شکی نظروں سے دیکھا ، پروڈکشن میں کچھ چھوٹی موٹی خامیوں پر ناک بھوں بھی چڑھائی ۔اس ڈرامے میں مگر ایک سحر ہے، کچھ ایسی قوت اس کے اندر سے پھوٹتی ہے کہ دیکھنے والا مسحور ہوجاتا ہے۔فلموں، ڈراموں کا ذوق رکھنے والوں میں ارطغرل اور گیمز آف تھرون (GOT)کا اکثر موازنہ ہوتا ہے۔ یہ درست نہیں۔ دونوں مختلف انداز کے سیزن ہیں، ان کے وسائل میں بے پناہ فرق ہے۔ گیمز آف تھرون یعنی” گوٹ“ ایچ بی او کا ڈرامہ سیزن ہے، انہوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کئے اور اس سے بہت زیادہ کمایا۔ انہیں بہت سے منجھے ہوئے اور بڑے فنکاروں، جدید ٹیکنالوجی کا ایڈوانٹیج حاصل تھا۔عریانی بھی ان کا اہم ہتھیار بنی۔ گوٹ کے اکثر سیزن میں بہت سے” ٹوٹے “موجود ہیں جو سنجیدہ دیکھنے والے کو بدمزہ کرتے ہیں۔اس کی کہانی بھی بہت پھیلی ہوئی تھی اور خالص فکشن ہونے کے ناتے اس میں ہدایت کار حسب منشا وسعت پیدا کر سکتا تھا، انہوں نے بہت سی غیر حقیقی چیزیں ڈالیں، کالے جادو سے لے کر آگ برسانے والے ڈریگون تک ہر قسم کا مسالہ اس میں موجود تھا۔
ارطغرل ا سکے برعکس تاریخی بنیاد پر قائم ڈرامہ ہے۔ ارطغرل کا کردار فکشن نہیں بلکہ حقیقت ہے، اگرچہ اس کے بارے میں کم معلومات ہیں، اسی وجہ سے کچھ تفصیلات میں تخئیل سے کام لینا پڑا ہوگا، مگر بہرحال اس کا ایک خاص زمانہ تھا۔جیسے ارطغرل کا خانہ بدوش ترک قبیلہ کائی سلطان علاﺅ الدین قیقباد کی سلجوقی سلطنت، حلب میں صلاح الدین ایوبی کے جانشین جبکہ قسطنطنیہ میں بازنطینی حکمران تھے جبکہ مشہور شدت پسندمسیحی فرقہ ٹمپلر بھی موجود تھا جسے ڈرامے میں صلیبی کہا جاتا رہا۔اسی لئے ارطغرل ڈرامہ بنانے والوں کے پاس آپشنز کم تھیں ۔اس کے مختلف سیزن دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وسائل زیادہ نہیں تھے، اسی وجہ سے بعض لوکیشنز کو بار بار برتنا پڑا۔ یہ تکنیکی خامی ہے۔ اسی طرح کی بعض اور چھوٹی موٹی خامیاں اس میں موجود ہیں۔ ارطغرل کے ساتھیوں کو غیر معمولی بہادر دکھایا گیا۔یہ ایک طرح سے سپر ہیرو والامعاملہ ہے، مگر رزمیہ فلموں میں ہمیں ہیروز کو کچھ رعایت دینا ہی پڑتی ہے۔
ڈرامہ سیریل ارطغرل کی دو تین خوبیاں نمایاں ہیں۔ اس کے فنکاروں نے بڑی عمدہ اداکاری کی ، مکالمے خوبصورت اور حسب موقع ہیں۔لکھنے والے نے قدیم ترک کہاوتوں اور محاوروں کا خاص خیال رکھا۔ ارطغرل کی ماں یا جنگجوﺅں کی بیویاں اپنے خاوندوں کو جنگ کے لئے بھیجتی ہوئی جو دعائیں مانگتی ہیں وہ فوک وزڈم کا شاہکار ہیں۔بیشتر مکالموں میں بھی خانہ بدوش عملی دانش اور فراست جھلکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگجوﺅں کے اس ڈرامے میں بہت طاقتور نسوانی کردار موجود ہیں، ارطغرل کی والدہ انا حائمہ ہو یا اس کی بیوی حلیمہ سلطان یا بھابھی سیلجن اوراگلے سیزن میں سلاحان حاتون وغیرہ، سب مضبوط کردار ہیں اور انہوں نے خود کو ۔فیمنسٹ لابی کو صرف اسی بنا پر ہی ارطغرل کو پاس کر دینا چاہیے۔ ارطغرل کو انگریزی محاورے کے مطابقMan Of Few Wordsدکھایا گیا ۔ اس نے کہیں روایتی فلم ہیروز کی طرح بڑھکیں نہیں ماریں، طویل ڈائیلاگ نہیں بولے، بہت بار تو ہلکی سی مسکراہٹ یا گردن موڑ کرمخصوص انداز میں نظر ڈال کر ہی کام چلا لیا۔ڈرامے میں زندگی بھرپور انداز سے موجود ہے، اس کے تمام رنگ جھلکتے ہیں، خاص کر روایتی ترک انداز کی دلکش شادیاں ، جن میں دلہا کے دوست بارات کے آگے چلتے ہوئے دلچسپ گیت گاتے ہیں۔
مجھے مشہور صوفی بزرگ شیخ ابن العربی کے کردار نے بھی موہ لیا۔ اس کردار نے بھی کمال کر دیا، یوں لگتا جیسے شیخ محی الدین ابن العربی جیسے ارباب تصوف” شیخ اکبر“ کہتے ہیں، وہ مجسم سامنے آ گئے۔ترکوں کا تصوف ہم سے مختلف ہے، شیخ کے کردار کو ویسے بھی غیر متنازع دکھایا ہے، وہ اپنی ہر دلیل قرآن اور سیرت مبارکہ سے استنباط کرتے ہیں۔ ایک دو جگہوں پر ترک صوفی انداز کا ذکر دکھایا، جو بھلا لگتا ہے۔ اہم پہلو اس کا نہایت صاف ستھرا ڈرامہ ہونا ہے، اسے پورے گھر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر اسلامی کلچر کی عمدہ عکاسی اچھی لگی۔ پہلی بار کسی بڑے ڈرامہ سیریل میں کرداروں کو نماز پڑھتے ، تلاوت کرتے، کھانا کھانے سے پہلے دعا مانگتے، بلند آواز سے بسم اللہ کہتے دیکھا۔ ہر جرگے کے آغاز میں کائی سردار سلیمان شاہ اللہ کے پاک ناموں سے آغاز کرتے اور اسے دیکھنا مسحور کن لگتا ہے۔ ترکوں کی ایک خاص خوبی سرکار مدینہ حضور ﷺ کے اسم مبارک پر خاص والہانہ عقیدت کے ساتھ ہاتھ دل پر رکھ کر سرجھکانا ہے۔ ہر بار ایسا کرتے دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتیں۔ارطغرل ڈرامہ بنانے والوں نے اس کا خاص خیال رکھا کہ وہ صرف ترک ڈرامہ نہیں بنا رہے بلکہ ایک مسلم قوم کا ڈرامہ بنا رہے ہیں، اس میں ترک عصبیت کے بجائے مسلم اوصاف کو نمایاں کیا گیا۔ ترک کلچر کی بھی وہ باتیں نمایاں ہوئیں جو ہمارے ہاں بھی بطور مسلمان رائج ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک لابی ارطغرل کے خلاف بول رہی ہے، اسکا مسئلہ بھی یہی مذہبی علامات اور مسلم کلچر کی عکاسی ہے۔ویسے یہ ستم ظریفی ہے کہ اس کے خلاف کراچی کی دو بڑی جامعات سے باقاعدہ فتویٰ بھی جاری کیا گیا۔ یعنی مولوی حضرات اور سیکولر دونوں پہلی بار کسی ایک بات پر متفق ہوئے۔ یہ اور بات کہ عوام الناس نے فتوے کو لفٹ کرائی نہ سیکولر لابی کو گھاس ڈالی۔
پی ٹی وی سے ارطغرل وزیراعظم کی ہدایات پر نشر ہو رہا ہے۔پہلے تین اقساط دیکھنے کے بعدشدت سے احساس ہوتا ہے کہ پی ٹی وی میں کام کا بندہ باقی نہیں رہ گیا یا پھر کوئی لابی ارطغرل کو ناکام بنانا چاہتی ہے؟وہ چینل جسے آج کل کوئی دیکھنا پسند ہی نہیں کرتا، پہلی بار اس کے پاس مقبول ہوجانے والا مواد آیا اور وہ اپنی غیر ذمہ داری سے اسے ضائع کررہے ہیں۔چالیس پینتالیس منٹ کی قسط ہے جسے تین چار وقفوں سے پیش کیا جا رہا ہے۔اشتہار اگر ہوتے تو کوئی تک بھی تھی۔ اشتہار ایک بھی نہیں۔ اللہ کے بندو جب اشتہار ہیں ہی نہیں پھر دیکھنے والوں کو بدمزہ کیوں کرتے ہو؟انہیں ڈھنگ سے ڈرامہ دیکھنے دو تاکہ کوئی تاثر بن پائے۔ پروڈیوسر حضرات کو یہ تک معلوم نہیں کہ کتنے منٹ کا وقفہ کرنا ہے اور اس میں کیا دکھایا جائے؟ کورونا سے متعلق اشتہار دکھائے جاتے ہیں، جو مہینہ دو پرانے ہیں۔چلیں وہ ہی دکھا دیں، مگر یہ کام تو سلیقے سے کیا جائے۔ ہمیشہ سے روایت ہے کہ اشتہار کے وقفے کے بعد پھر سے ڈرامہ دکھاتے ہوئے ایک سکینڈ کے لئے اس کا ٹائٹل دکھاتے ہیں تاکہ دیکھنے والا سمجھ جائے کہ ڈرامہ شروع ہوگیا۔ارطغرل کی تو دھن ہی بڑی مشہور ہے، اسے ہی چند سکینڈ کے لئے سنا دیا جائے۔ اس کے بجائے ہر بار کٹ کر کے افراتفری میں ڈرامہ شروع کیا جاتا ہے۔ دو دنوں سے عجب تماشا یہ ہو رہا ہے کہ ڈرامے کے وقفے میں نعت شروع کر دیتے ہیں۔ آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ڈرامے کے وقفے میں نعت دکھائی جائے۔چلیں فرض کر لیا نعت دکھاناضروری ہے تویہ حساب کر لیا جائے کہ وقفہ کتنا رہ گیا ہے اور نعت کتنے منٹ کی ہے؟ اس کے بجائے ہر بار نعت ادھوری چھوڑ کر ڈرامہ پر چھلانگ لگانا پڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر ویلے بیٹھ بیٹھ اور مفت کھا پی کر کام بھول گئے ہیں۔ آﺅٹ آف پریکٹس پہلوان کی طرح انہیں اچانک ہی اکھاڑے میں اترنا پڑ گیا ہے۔
ڈرامے کی اردو ڈبنگ کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں چل رہی ہیں۔ پہلے ہی ڈبنگ پی ٹی وی کے اپنے لوگوں سے کرائی جا رہی تھی، پھر اسے اچانک بغیر کسی وجہ کے آﺅٹ سورس کر دیا گیا۔ اس پر نجانے کتنے ملین کا خرچ آیا؟موجودہ ڈبنگ بری نہیں(Not Bad)، مگر ایسی بھی نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے یاحوالہ دیا جائے۔ ارطغرل میں ا سکے باوجود اتنی قوت اور سحر ہے کہ اسے دیکھنے والے کبھی نہیں بھلا سکیں،پی ٹی وی والے بس اسے ناکام بنانے کی باقاعدہ سازش نہ کریں۔کاش وزیراعظم عمران خان کسی شام ایک قسط خود دیکھ لیں، ان پر سب آشکار ہوجائے گا۔نئے وزیراطلاعات یا معاون خصوصی برائے اطلاعات ہی اس کا نوٹس لے لیں۔
ڈرامہ سیریل ارطغرل کی دو تین خوبیاں نمایاں ہیں۔ اس کے فنکاروں نے بڑی عمدہ اداکاری کی ، مکالمے خوبصورت اور حسب موقع ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر