صادق آباد:سرائیکی زبان کے معروف و مقبول عوامی شاعر،گیت نگاربشیر احمددیوانہ صادق آبادی آج پورے سرائیکی وسیب کو سوگوار چھوڑ کر دار فانی سے کوچ کرئے ۔
مرحوم کی نماز جنازہ آج دن 2بجے بستی گوٹھ جوڑا قبرستان میں ادا کر دی گئی ۔
بشیردیوانہ صادق آبادی ایک طویل عرصے سے علیل تھے اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہے تھے۔
انہوں نے کئی بار حکومت سے سرکاری سطح پر علاج معالجے کی اپیلیں بھی کیں لیکن صوبائی وزارت اطلاعات وثقافت نے کوئی توجہ نہ دی۔ان کی وفات کی خبر سے سرائیکی وسیب کے ادبی حلقوں میں سوگ کی فضا ہے۔
ان کے صاحبزادے مہران بشیر نے تصدیق کی ہے کہ ان کے والد معروف شاعربشیراحمددیوانہ صادق آبادی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
بشیراحمددیوانہ صادق آبادی سرائیکی زبان وادب کا ایک مقبول نام تھے جنہوں نے اپنی عوامی شاعری کے ذریعے وسیب کے باسیوں میں خاص پہچان بنائی۔
ان کو ترنم کے ساتھ کلام پڑھنے میں ملکہ حاصل تھے۔سٹیج پر آتے تو اپنے مخصوص انداز سے مشاعرہ لوٹ لیتے۔بشیردیوانہ نے سرائیکی زبان میں عشق رسول سے سرشار نعتیں،غزلیں،گیت اور عوامی مسائل پر نظمیں بھی لکھیں جو مقبول عام ہوچکی ہیں۔
وہ سیاسی جلسوں میں بھی شریک ہوتے اور مجمع لوٹ لیتے۔مرحوم نے آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں بسر کیے۔حکومت اور ادبی اداروں کی مسلسل عدم توجہی کے باعث ان کا سرکاری سطح پر علاج نہ ہوسکا اور فالج کے باعث بسترمرگ پر آن پڑے۔
سرائیکی وسیب کے شاعروں اور اہل قلم،صحافیوں نے بشیراحمددیوانہ صادق آبادی کے انتقال پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشیراحمددیوانہ سرائیکی وسیب کی دنیا بھر میں پہچان تھے۔ان کی وفات سے سرائیکی شعروادب کا ایک خوبصورت باب بند ہوگیا ہے۔
حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کے شعراء اور ادیبوں کو لاوارث چھوڑنا اور ان کی سرپرستی نہ کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔اگر بشیردیوانہ کا سرکاری خرچ پر علاج کرایا جاتا اور ان کی مالی امداد کی جاتی تو زندگی کے آخری ایام میں انہیں آسودگی مل جاتی لیکن وسیب کے فنکار ہوں یا شاعر ادیب ان کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ