سماج ایک متغیر حقیقت ہے. کسی معاشرے کی زندگی کی علامت یہی ہے کہ وہاں کی سماجیات تغیر سے نشو نما پاتی ہے اور ایک جگہ ساکت و جامد رہنے کے بجائے, مختلف مراحل طے کرتے ہوئے نئی نئی اور جدید شکلوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے. یہی تغیر اور تبدل ہی کسی معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں فیصلہ کُن حثیت رکھتا ہے.
ہمارا برصغیر کا معاشرہ بھی ہر گُزرتی صدی کے ساتھ اِسی تبدیلی اور تغیر سے دوچار رہا ہے. کبھی یہاں عرب و فارس سے آئے حکمرانوں نے شب خون مارا تو کبھی یورپی قوموں نے یہاں کی مقامی ثقافت کو تاراج کیا. آج ہمارے ارد گرد سُنائی دینے والے عربی لہجے اور ہر سو پھیلی مغربی اقدار, انہی مختلف ادوار کے ثمرات ہیں.
ہم جب برصغیر پر مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی حکمرانی اور تسلط کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو اس ضمن میں ایک بڑا ہی اہم سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا یورپی نو آبادیات, مسلم نوآبادیات کا تسلسل تھا؟ یا پھر دونوں میں فرق ہے؟
میں سمجھتا ہوں, گو کہ گورے اور مُسلمان حکمرانوں میں کافی چیزیں مشترک ہیں مگر پھر بھی دونوں کو ایک ہی صف میں گننا زیادتی اور انصاف کے منافی ہے. میرے نزدیک اِس کی کچھ وجوہات ہیں.
گورا نوآبادیاتی سامراج اور مُسلم حکومتوں میں سب سے اہم اور بُنیادی فرق یہ ہے کہ مُسلمان عہد وسطیٰ کے جاگیردارانہ دور میں ہندوستان میں آئے جبکہ گوروں کا عہد جدید سرمایہ دارانہ نظام سے عبارت ہے. مُسلمانوں کے پاس اپنے تسلط کو جواز دینے کے لئے جہاد کا حیلہ تھا جبکہ گورے ملکہِ برطانیہ کے پروانے کی صورت میں اپنے حملے کا آئینی جواز لئے تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اور بعد میں حکمران ہو گئے. اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ مُسلمانوں کا جہاد سراسر ایک مذہبی نظریہ ہے جبکہ اِسکے برعکس تجارت کا حیلہ سراسر سیکولر ہے.. دونوں نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے تو ایسے میں مسلمانوں اور گوروں کو ایک ہی ترازو میں تولنا کہاں کا انصاف ہے ؟
مذہبی اور سیکولر کی اِسی بحث میں ہمارا دوسرا بڑا فرق چُھپا ہے. بظاہر جہاد کے لئے آئے مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کو ہرگز اپنا نصب العین نہ بنایا اور نہ ہی مقامی آبادی کو جبراً مُسلمان کرنے کی کسی تحریک کی سرپرستی کی. مُسلمان حکمرانوں نے تمام مقامی مذاہب کا احترام کیا اور برصغیر میں بسنے والے مُختلف مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو ایک لڑی میں پرونے کی غرض سے ایک مشترکہ کلچر کے فروغ کی سعی کی. اسکی بہترین مثال شہنشاہ اکبر کے دور کا دینِ الہی ہے.. اِسکے علاوہ اورنگزیب جیسے کٹر مولوی حکمران نے بھی اپنے دور میں مندروں کو اوقاف کے فرمان جاری کئے.
دوسری جانب گوروں نے مقامی آبادی میں موجود تضادات کو مزید ہوا دی اور یہاں بسنے والے مختلف گروہوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے نںے نئے اختلافی نظریوں اور بیانیوں کو فروغ دیا جس سے پہلے ادوار میں باہم شیروشکر لوگ نوآبادیاتی دور میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے.
مُسلمان حکمران اگرچہ باہر سے آئے تھے مگر وہ یہاں آنے کے بعد یہاں کی مقامیت میں رچ بس گئے. اُنہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن قرار دیا (سوائے چند ایک کے) اور یہاں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں. جبکہ اِسکے برعکس گوروں نے کبھی بھی خود کو ہندوستانی نہیں سمجھا. انہوں نے کبھی بھی یہاں کی مٹی کی ملکیت قبول نہ کی اور ہمیشہ یہاں کے مقامی سے سماجی, ثقافتی اور معاشی فاصلہ قائم رکھا.
ہندوستان کے مُسلمان حملہ آوروں اور گورے آباد کاروں میں فیصلہ کُن فرق یہ ہے کہ مُسلمان حکمرانوں نے ہندوستان کے وسائل کو یہیں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا. انہوں نے مُلکی سرمایے کو یہاں کی تعمیر اور ترفی پر صرف کیا جبکہ انگریز نوآبادکاروں نے اپنی سرمایہ دارانہ سوچ کے تحت پہلے روز سے ہی برصغیر کو محض ایک کالونی سمجھتے ہوئے یہاں کے سرمایے اور خام مال کو ناصرف اپنی صنعتی ترقی کے لئے استعمال بلکہ اپنا صنعتی مال یہاں کی مقامی منڈیوں میں لا کر جبراً کھپایا اور زرِ مبادلہ کمایا.
اِن تمام نکات کے پیشِ نظر میں سمجھتا ہوں کہ گورا نو آبادیات مُسلم حُکمرانی کا تسلسل ہرگز نہیں ہے, دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف گرداننا محض تلازمہ خیال ہے.
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی