میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
کیا آپ نے کبھی ایسے آدمی سے ملاقات کی ہے جس کا سینہ غم سے بھرا ہوا ہو، زندگی اس پر تنگ ہو اور ذہانت و قابلیت میں بھی اس کا ثانی ملنا اگر محال نہ ہو تو بہت ہی مشکل ہو، لیکن وہ جب آپ سے ملے تو اس کے چہرے پر مسکان سجی ہو، زرا سی دیر میں وہ قہقہے لگاتے ہوئے، آپ کو ایسے چٹکلے سنائے کہ آپ بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائیں اور پھر وہ آپ کی طرف سے سنائے جانے والے لطائف پر کھل کر ہنسے- اگر اپنی مجبوری بیان بھی کرنی ہو تو ایسے کرے جیسے کوئی بہت ہی معمول کی بات ہو اور اگر آپ اس کے کسی وقت کام نہ بھی آئیں تو بھی اس کی آپ سے محبت میں کمی نہ آئے اور وہ جب آپ کہیں آپ کے کام آنے کو تیار ہو؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بھی میری طرح ایسے خوش نصیبوں میں شامل ہیں- مجھے ایسے ایک چارہ گر اور غمگسار کی صحبت میسر ہے کہ میرے دن اور رات عذاب آگہی کے باوجود بوجھ بنے بغیر گزرے جاتے ہیں اور میں مصائب زمانہ اور ستم گروں کی ستم گری کو ہنس کے برداشت کیے جاتا ہوں-
جس دوست کے لیے میں نے آج قلم اٹھایا ہے، سوچتا ہوں کہ اس کی ذات کے کون کون سے پہلو آپ کے سامنے رکھوں- کافی مشکل میں پڑا ہوں-سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ وہ میرے قلم قبیلے سے تعلق رکھتا ہے- وہ ایک بہترین رپورٹر، کالم نگار،فیچر رائٹر،مضمون نگار، انشاء پرداز، اداریہ نویس، خاکہ نگار، تبصرہ نگار،ادبی نقاد،شعر شناس، اور نثری ادب کی بھی اچھی پرکھ رکھنے والا ہے- وہ اسکول کے بعد کسی کالج یا یونیورسٹی میں نہیں پڑھا اور میں یہ کہوں کہ زمانہ اس کا سب سے بڑا استاد رہا ہے اور اس نے اس استاد سے جو سیکھا وہ بہت سارے نہیں سیکھ سکے اور میں زمانے کے سامنے اس کے زانوئے تلمذ کرنے انداز پر رشک کرتا ہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا- اس کی آنکھ میں لگتا ہے ایسا کیمرہ فٹ ہے جس میں انسانوں کی نفسیات کی اسکریننگ جھٹ سے ہوجاتی ہے اور چند منٹوں میں انسانوں کے چہرے کی سکیننگ اور اس سے چند باتوں کے زریعے ہی اس کے بارے میں کافی حد تک ٹھیک پیشن گوئی کرنے کے قابل ہوجاتا ہے- یہ اور بات ہے کہ وہ یاروں کی فرانزک رپورٹ کبھی افشا نہیں کرتا اور انھیں زبان زدعام ہونے سے ہر صورت بچاتا ہے-
وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا،جہاں بسنے والوں کا سب کچھ تو اس علاقے کا سب سے طاقتور جاگیردار ہوتا ہے جن کی مرضی سے علاقے میں لوگ سانس بھی نہیں لیتے اور کبھی تنہائی میں بھی اس کی برائی کرنے کی جرآت نہیں کرتے بلکہ ان کو تو لگتا ہے کہ اگر دماغ میں کوئی برا خیال بھی آیا تو وہ جاگیردار جان جائے گا- بس یوں سمجھیں کہ یہ دیہہ خدا ہوتا ہے اور اس کے ہر جگہ پائے جانے اور ہر جگہ موجود ہونے کا گمان اور وسوسہ اتنا طاقتور ہوکر غلام ذہنوں میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کوئی بھولے سے بھی ایسی غلطی نہیں کرتا- آپ اندازہ لگائیں کہ وہ جس علاقے میں پیدا ہوا، اس علاقے میں اس جاگیردار کی مرضی کے خلاف کوئی کبھی نہ تو ووٹ ڈال سکا اور نہ ہی اس نے کبھی اس جاگیردار کے نامزدہ کردہ کسی بلدیاتی امیدوار کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہمت کی- اس کا علاقہ جس یونین کونسل میں آتا ہے اسے اس جاگیردار کے نام کے ساتھ لگا کر اس کی یونین کونسل کہا جاتا ہے- اور اس کے علاقے کے جاگیردار کیونکہ اپنے نام سے پہلے ‘سردار’ کہلاتے ہیں تو اس کے علاقے کو ‘سردار پور’ کہا جاتا ہے- اور سردار پور یونین کونسل کے نام سے وہ مشہور ہے-
سردار پور میں زیادہ تر ایسے لوگ رہتے ہیں جو 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں آج کے ہندوستان کے صوبے ہریانہ اور سابق مشرقی پنجاب انڈیا کے انبالہ ڈویژن کے ضلع حصار کے دیہاتوں سے ہجرت کرکے آباد ہوئے- دو بڑی ذات کی مہاجروں کی نسل یہاں زیادہ تر آباد ہے- ایک ہیں شیخ اور دوسرے ڈوگر- میرا دوست شیخ برادری کے ایک ایسے شخص کے ہاں پیدا ہوا جو ہندوستان کے ضلع حصار کے ایک دیہات سے ہجرت کرکے سردار پور میں آباد ہوا اور اس نے اپنے آبائی پیشہ چرم سازی سے وابستگی اختیار کرلی- کھالوں کی چھوٹے پیمانے پر تجارت نے اس چھوٹے سے قصبے میں اس کے گھرانے کو کم از کم روزی روٹی کے معاملے میں کسی چھوٹے بڑے جاگیردار کا رہین نہ رہنے دیا اور دیہی سطح پر اس گھرانے کا شمار ایک نچلے متوسط طبقے میں ہوا کرتا تھا- وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس کے والد کی طرف سے جانوروں کی خرید و فروخت، چرم سازی اور گوشت کی فروخت سے اتنی کمائی ہوجایا کرتی تھی کہ شاہانہ خرچ کرکے بھی کافی کچھ بچ جایا کرتا تھا- تو اگر ہم یوں کہیں کہ ہمارے اس دوست کا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے ابتدائی سال تو بہت ہی بے فکری سے کٹے اور اس کو کبھی تنگدستی کا احساس تک نہ ہوا-
سردار پور کے قریب سب سے بڑا ٹاؤن کبیروالہ تھا اور کبیروالہ اس زمانے میں شاعروں،ادیبوں اور صحافیوں کے حوالے سے بڑا زرخیز تھا اور پھر اس دیہی ٹاؤن کے اندر کمیونسٹوں، سوشلسٹوں کا بھی زور تھا- مجھے لگتا ہے جس زمانے میں میرا یہ دوست کبیروالہ اپنی نوعمری میں پہنچا تو یہاں صحافیوں میں جن لوگوں کا توتی بولتا تھا وہ ان میں بیٹھااور یہ صرف صحافی نہیں تھے بلکہ شاعر و ادیب بھی تھے اور ساتھ ساتھ بہترین سیاسی کارکن بھی تھے- اور ادب و سیاست و صحافت میں ان سب کا نصب العین انقلاب برپا کرنا تھا جس کے آگے سب سے بڑی روکاوٹ جاگیردار اور سرمایہ دار پھر ان کے کاسہ لیس ملّاں تھے- میں جشم تصور میں اپنے دوست کو چائے کے ایک ہوٹل پر قیس سلیمی سے ملتا دیکھ رہا ہوں اور قیس سلیمی اس کے سامنے صحافت پر بول رہے ہیں اور ان کی زبان سے کئی ایسے نام نکل رہے ہیں جو ہمارا دوست پہلی بار سن رہا ہوگا- نثار عثمانی، منھاج برنا، سردار مظہر علی خان، مولانا چراغ حسن حسرت، سی آر اسلم، عبداللہ ملک اور کئی اور-شاعروں میں اس نے بار بار فیض، حبیب جالب، تنویر سپرا، سائیں اختر کا نام سنا ہوگا- اور میں چشم تصور سے یہ بھی منظر دیکھتا ہوں کہ وہ ایک ٹیلرشاپ پر کامریڈ بابا طالب سے ملا ہوگا اور اس کی انقلابی شاعری نے اس کے سینے میں آگ لگادی ہوگی- اور یونہی کسی دن وہ کسی چائے کے ہوٹل پر رات کے وقت درجن بھر نوجوانوں کو گھیرے منیر کامریڈ سے ملا ہوگا جن میں سے کئی ایک نوجوان آج اس کے بہت گہرے دوست ہیں- اگرچہ ڈھلتی عمر میں ان نوجوانوں کا جذبہ انقلاب سرد پڑچکا ہے اور وہ اپنی نوجوانی کے دور کے خیالات کو جذبات کا ابال سمجھتے ہیں لیکن ان کا استاد منیر کامریڈ ملک کے دارالخلافہ میں بیٹھ کر آج بھی نوجوانوں کو پیروں کا استاد بنانے کی ویسے ہی کوشش کررہا ہے جیسے وہ تیس سال پہلے کبیروالا کی گلیوں، سڑکوں اور چائے خانوں میں کیا کرتا تھا-
کبیروالہ اس زمانے میں سب سے زیادہ پورے ملک کے ادبی حلقوں میں جس شخص کی وجہ سے اپنی شناخت رکھتا تھا وہ میرٹھ سے ہجرت کرکے آنے والے ایک ترقی پسند شاعر تھے بیدل حیدری- بیدل حیدری کی شاعری نے پورے پاکستان کے ادبی حلقوں میں دھوم مچا رکھی تھی اور ان کے کئی شعر تو اس وقت زبان زدعام تھے-
بیدل لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری داستان غم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا دوست استاد خادم رزمی سے ملا ہوگا- اور یوں تھوڑے وقت میں اس نے بہت زیادہ اسباق ذہن نشین کیے اور پھر کبیروالہ کے ساتھ چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود خانیوال شہر میں آگیا- میں نہیں جانتا کہ وہ کبیروالہ سے خانیوال شہر میں کیوں آیا تھا لیکن یہ شہر اس کے لیے کوفہ ثابت ہوا- خانیوال کے اشراف اور ان کے کاسہ لیس شاعر،صحافی اور دانشور کوفہ کے اشراف کی طرح منافقت میں غضب کے طاق تھے اور وہ سرمایہ داروں کی طرح استحصال کرنے کے بھی خوب ماہر تھے- وہ ایک ابھرتے ہوئے نوجوان کی قلمی صلاحیتوں، ذہانت اور ذکاوت کے ساتھ ساتھ مصالحت نہ کرنے اور باغی سرشت سے گبھرا گئے- اگرچہ اس دوران اسے ویسے سچے محب اور مخلص بزرگ و ساتھی بھی ملے جیسے کوفہ میں بھی موجود تھے- وہ مجھے خود بتاتا ہے کہ کیسے جاوید امریکی، ڈاکٹر دلاور حسین قریشی، اشرف سیال مرحوم، شام جعفری مرحوم ، میاں ارشاد الحق نے اس کا خیال رکھا-باؤ جی انعام اللہ قریشی بھی ہمیشہ اس کے مددگاروں میں رہے- اور پروفیسر عطااللہ عالی سے تو اس کی دوستی بہت زیادہ ہی ہوگئی جو ابتک قائم و دائم ہے- لیکن اس شہر نے اسے جمنے نہ دیا اور اسے آخرکار یہاں سے جانے پڑا- پھر وہ وہاڑی مرزا اعجاز بیگ کے ہاں جاپہنچا اور وہاں وہاڑی شہر کی دانش کی کریم سے اسے متعارف ہونے کا موقعہ ملا- یہ تین مختلف مضافاتی شہروں کا تجربہ اور اس کی اپنی جنم بھومی کے تجربات نے اسے بہت کچھ سکھایا اور وہ وہاں سے سرائیکی وسیب کے قدیم تاریخی اہمیت کے حامل بڑے شہر میں جاپہنچا اور وہاں اس نے پہلے روزنامہ نیا دن اور پھر روزنامہ نیا دور میں باقاعدہ تنخواہ دار صحافی کی حثیت سے کام شروع کیا- ملتان کی فضا بھی اسے زیادہ عرصے راس نہ آئی تو وہ وہاں سے وہ لاہور چلا گیا جہاں اس نے روزنامہ صداقت میں کام شروع کیا اور کچھ روز اس نے روزنامہ پاکستان میں سب ایڈیٹری کی اور اس دوران اس نے کئی بڑی خبریں بریک کیں، یادگار فیچر لکھے- لاہور میں ہی اس کی ملاقات سردار انور ڈوگر جیسے بے باک صحافی سے ہوئی جس نے بعد ازاں اوکاڑا اور خانیوال سمیت پورے پنجاب کے مزارعین کو انجمن مزارعین پنجاب میں اکٹھا کیا- اور اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کو منوایا- امین وارثی نے کچھ عرصہ سیالکوٹ میں بھی گزارا اور وہ وہاں گزرے دنوں کی باتیں مجھے سناتا ہے-
مذکورہ بالا باتیں کچھ تو میں نے اپنے دوست سے سنیں اور کچھ اپنے اور اس کے ان شہروں میں مشترکہ دوستوں سے سنیں- جب میری اس سے باقاعدہ شناسائی ہوئی تو یہ وہ دور تھا جب میں ایک بڑا لمبا عرصہ اپنے شہر سے دور گزار کر گردش ایام کے سبب واپس آچکا تھا اور میں نے سوچ لیا تھا کہ اب یہیں ٹھکانا کرنا ہے- شہر میں واپس آنے کے بعد یہ غالبا 2001ء کی بات ہے کہ میں پہلی بار امین وارثی سے ملا تھا اور وہ بھی کبیروالہ میں اور میری ملاقات اس سے ملک رفیق کے ہاں ہوئی تھی اور میں اصل میں قیس سلیمی سے ملنے آیا تھا- مجھے ہفت روزہ جدوجہد لاہور کے لیے ایک انٹرویوز کی ایک سیریز شروع کی تھی جو بائیں بازو کے گراس روٹ لیول پر سیاسی کارکنوں کی سیاسی زندگیوں کا ریکارڈ جمع کرنے کی نیت سے تھی- یہ حقیقی پیپلز ہسٹری ہوجاتی- میں نے ملتان ڈویژن میں کم از کم 50 ایسے کارکنوں کے انٹرویوز کیے تھے جن میں نصف سے زیادہ وہ تھے جنھوں نے بحالی جمہوریت کی ایوب خان اور جنرل ضیاء کی آمریتوں کے خلاف تحریکوں میں حصّہ لیا تھا اور اب وہ تیسرے آمر جنرل مشرف سے نبردآزما تھے- (ملتان ڈویژن کے ان سیاسی کارکنوں سے انٹرویو کے دوران میں نے یہ پایا کہ ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں، بنگالیوں اور سرائیکیوں کے حوالے سے وہ تعصبات اور وہ کلیشے ہرگز موجود نہ تھے جس کی بابت عام طور پر بندوبست پنجاب میں رہنے والوں کو طعنہ ملتا ہے- یہ سیاسی کارکن نہ حسین شہید سہروری،نہ مولانا بھاشانی، نہ جی ایم سید کو، نہ شیخ مجیب کو، نہ ہی بزنجو کو نہ ہی خیر بخش مری کو نہ عطا اللہ مینگل کو نہ عبدالصمد اچکزئی کو نہ خان غفار خان کو، نہ ولی خان کو غدار سمجھتے تھے اور نہ ہی دیگر اقوام پر ان کو پنجابی یا اردو اسپیکنگ کی ذہنی برتری کا زعم تھا- ان 50 میں سے کم از کم 40 سیاسی کارکن ایسے تھے جو یا تو پنجابی مہاجروں تھے یا ان کی اولاد تھے یا اردو اسپیکنگ مہاجر یا ان کی اولاد تھے اور قومی سوال پر بہت واضح ترقی پسندانہ سوچ کے مالک تھے- ویسے میں پنجاب کے آج کے سب ہی اضلاع میں گراس روٹ لیول پر بائیں بازو کے (زیادہ تر پی پی پی،سوشلسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، نیپ سے تعلق رکھنے والے) سینکڑوں ایسے منجھے ہوئے سیاسی کارکنوں سے ملا جن کے ہاں نام کو بھی اردو یا پنجابی شاؤنزم موجود نہ تھا- ہاں میں نے سرائیکی قومی سوال پر شمالی پنجاب میں بائیں بازو کے کئی ایک نامور اور قدرے گمنام سیاسی کارکنوں اور دانشوروں شاؤنسٹ پایا، جس کا مجھے ہمیشہ ملال رہے گا)-
اس کے بعد میری اپنے دوست سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی- اس دوران 2006ء میں کراچی سوشل فورم میں شرکت کے لیے ہم اکٹھے ٹرین کے زریعے کراچی پہنچے اور یہ پہلی رات تھی جو ہم نے کئی مشترکہ دوستوں سے کراچی میں گزاری تھی- اور ہم اور قریب آگئے- پھر 2008ء میں میرا دوست کبیروالہ میں نیسلے ملک پلانٹ کے کچے مزدوروں کے مستقل کرنے کی تحریک کو منظم کرنے والے نیسلے کے مزدور دوستوں کے ساتھ جڑا تو اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ میں اس تحریک کا ساتھ دوں- میں نے اپنے دوست کے ساتھ اس تحریک کو منظم کرنے میں جوڑ گیا اور اس دوران ہم نے نہ دن دیکھا نہ رات- میرے دوست کا سیکنڈ بلکہ تھرڈ فورتھ ہینڈ سی ڈی 70 موٹر سائیکل ہوتا تھا جس پر سوار ہوکر وہ روزانہ کبیروالہ سے آتا اور مجھے پیچھے بٹھا کر لیجاتا- ہم مل کر کبھی پمفلٹ لکھتے، بروشر بناتے، نعرے ایجاد کرتے، پریس کو بھیجنے کے لیے بیانات بناتے، ڈائری نما فیچر لکھتے اور ایسے ہی سوشل میڈیا پر ہم نے مزدوروں کا سوشل پیج بنایا، فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا اور پاکستان اور پاکستان سے باہر دنیا بھر کی ٹریڈ یونین فیڈریشنوں کو نیسلے کے مزدوروں کے ایشو سے آگاہ کرتے- اس دوران نیسلے انتظامیہ کی طرف سے لالچ بھی دیا گیا اور کبھی سنگین دھمکیاں دی گئیں اور غنڈے بھی ہائر کیے گئے- میں نے اپنے دوست کو اس دوران پوری دلجمعی سے اپنے ساتھ کھڑا ہوا پایا- اگرچہ اس دوران میرے دوست کو اچھے خاصے پیسوں کی آفر بھی ہوئی- لوگ کہتے تھے تمہارے دوست کو اگر نیسلے یا اس کا باج گزار مزدور لیڈر چند ہزار روپے دے گا تو وہ ساری تحریک کے خلاف مسجع مقفع الفاظ لکھ کر چھاپ دے گا- وہ ایسا اس لیے کہتے تھے کہ بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آکر میرے دوست نے کنسلٹنسی اور کانٹیٹ رائٹر کا کاروبار کافی عرصے سے شروع کیا ہوا تھا اور وہ پبلسٹی کا کام کمرشل بنیادوں پر کیا کرتا تھا اور آج بھی کرتا تھا لیکن میں نے دیکھ لیا کہ اس نے اپنی کنسلٹنسی اور لکھے لفظوں سے پبلسٹی کرنے کے کام میں کبھی بھی کسی مزدور دشمن ۔ کسی کسان دشمن سرگرمی میں حصّہ نہیں لیا- وہ کسی غریب، مزدور، کسان، محنت کش اور مظلوم مرد و عورت کے خلاف کسی ظالم اور استحصالی کے ہاتھوں پیسے لیکر نہیں بکا- اس تحریک کے دوران ہمیں نیسلے کے ایچ آر ایم اقرار حسین دلاوری نے لاکھوں روپے، مفت میں نیسلے پروڈکٹس کی فراہمی اور نیسلے میں کئی ملازمتوں کی پیشکش کی اور کباڑ اور کئی ایسے ٹھیکوں کی پیشکش بھی کی جن کو مان کر میرا دوست اپنی معاشی مشکلات سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پاسکتا تھا- لیکن اس نے اپنے عہد کو نبھایا اور مجھے سرخرو کیا- ہم نے بے سروسامانی کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی اور کئی کچے مزدور آخرکار مستقل ہوئے- اور ہم واپس اپنی روٹین کی زندگی کی طرف لوٹ گئے- اس کے بعد سے میں اور میرا دوست بہت سے ایڈونچرز کرچکے ہیں-
میرا دوست نجانے کتنا غم اور دکھ اپنے سینے میں چھپائے بیٹھا تھا کہ ایک دن پتا چلا کہ اس کے دل کی کئی شریانیں بند ہیں اور فوری بائی پاس کی ضرورت ہے- سچی بات ہے میں گھبرا گیا تھا- میں اس کے چھوٹے معصوم بچوں اور گھر والوں کی طرف دیکھتا تھا تو کلیجہ منہ کو آتا تھا لیکن میں نے کہا نا کہ امین وارثی نے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے یاران وفا بنائے ہیں جنھوں نے اس کو کہیں جھکنے نہ دیا اور ایسے ہی دوستوں کی مشترکہ کاوشوں اور خاص طور پر ڈاکٹر شیر زمان لنگڑیال کی بے پناہ محبت اور تعاون نے اس کا نہ صرف بائی پاس ممکن بنوایا بلکہ بعد از آپریشن اس کی بحالی میں اپنا کردار ادا کیا-
اب میرا دوست زیادہ تر سردار پور میں رہتا ہے اور اس نے وہاں اپنے لیے بہت سی مصروفیات ڈھونڈ لی ہیں- کورونا لاک ڈاؤن کے سبب وہ زیادہ تر گھر رہتا ہے لیکن اس دوران بھی وہ مسلسل مظلوموں اور غم ذدوں کے لیے آواز اٹھاتا رہتا ہے- میرا دوست کبیروالہ کی عوام کے لیے ڈھارس اور امید کا نام ہے- اس کی اولاد بتدریج اپنا تعلیمی سفر تیزی سے طے کررہی ہے- اپنے ماں باپ سے اسے ذہانت و ذکاوت اور سخت محنت کرنے کی عادت ورثے میں ملی ہے- مجھے یقین ہے کہ میرا دوست ایک دن اپنے بچوں کو اعلی مقام پر دیکھے گا اور وہ انسانیت کی خدمت اپنے باپ کی طرز پر کریں گے-
میرے بس میں ہوتا تو میں کبیروالہ کے لوگوں سے کہتا کہ میرے دوست اور اپنے اس محسن کی تاج پوشی کی تقریب رکھیں اور اس کی عزت افزائی کریں- افسوس کسی قومی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیم علاقائی و مقامی صحافت کے میرے دوست جیسے نگینوں کو کبھی پریس فریڈم کا ایوارڈ دینے کا کوئی میکنزم نہیں بنایا – اگر ایسا ہوتا تو میرے دوست کو کئی ایوارڈ مل چکے ہوتے- میں یہ نہیں کہتا کہ میرا دوست خامیوں سے پاک ہے- وہ صحافت و ادب کے میدان کا کوئی یوٹوپیائی ہیرو ہے- لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس کی خوبیاں اس کی خامیوں سے کہیں زیادہ بھاری اور بڑی ہیں اور یہی اسے بڑا آدمی بنانے کے لیے کافی ہے-
میرے اس دوست کو دنیا امین وارثی کے نام سے جانتی ہے جبکہ اس کا اصل نام محمد نعیم ہے- اس کا آج جنم دن ہے- اسے جنم دن کی شبھ کامنائیں- وہ یونہی ہنستا رہے اور لوگوں میں خوشیاں بانٹتا رہے-
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر