مئی 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم جنگل سے گزررہے تھے ۔۔۔ احمد اعجاز

باجرہ کے کھیت میں جنگل سے آئے گیدڑ دِن میں پھرتے رہتے، یہ ہماری مرغیوں کے دُشمن تھے مگر ہمارے کتوں سے بہت ڈرتے تھے

اَبا صبح سویرے گھر سے نکل جاتے اور مغرب کی نماز سے ذراقبل لوٹتے۔ وہ کہاں جاتے؟ مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں مگر شاید وہ کھیتوں میں کام کرنے جاتے تھے۔ وہ واپس آکر، صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھتے، سرسے پگڑی اُتارکر ایک طرف رکھتے، کچھ دیر بعد نکڑ میں موجود نلکے پر ہاتھ منہ دھوتے، یہ ہاتھ منہ دھونا، وضو کی صورت ہوتا، اسی اثناء میں دُور کسی مسیت سے مؤذن کی آواز گونج اُٹھتی، اَبا مصلے پر جا کھڑے ہوتے، نماز کے بعد، مصلے پر ہی بیٹھے رہتے، ماں اُدھر کھانا لگا دیتی۔ کھانا بہت ہی سادہ ہوتا، دودھ کی نمکین لسی بھی ہوتی۔ وضو کرنے سے پہلے، ایک گلاس لسی پی چکے ہوتے۔ مغرب سے عشاء تک ابا مصلے پر ہی بیٹھے رہتے، اُدھر ہی ماں سے باتیں کیے جاتے، یہ باتیں روزمرہ کی ہوتیں، اُمید سے بھری ہوئیں، عشاء کی نماز سے ذرا پہلے ماں چائے بنا کردیتی۔ اَباچائے پیتے، پھر نماز پڑھ کر صحن میں بچھی چارپائی پر آ کر لیٹ جاتے۔

اَبا کے لوٹنے سے قبل، تندور گرم ہو چکا ہوتا، اَبا جتنی دیر نماز پڑھتے اتنی دیر میں ماں تندور میں روٹیاں لگاچکی ہوتی۔ تندور میں جلانے کے لیے لکڑیاں ہر تیسرے چوتھے دِن ماں جنگل سے لینے جاتی، مَیں بھی ساتھ جاتا۔ حویلی کے مرکزی دروازے سے باہر باجرے کی فصل کا وسیع کھیت تھا، اس فصل میں تربوزوں کی کئی بیلیں بھی اُگ آئی تھیں۔ اس کھیت کے اُس پارکوئی آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل کے آثار پڑتے تھے۔

باجرہ کے کھیت میں جنگل سے آئے گیدڑ دِن میں پھرتے رہتے، یہ ہماری مرغیوں کے دُشمن تھے مگر ہمارے کتوں سے بہت ڈرتے تھے، لیکن روزانہ ایک آدھ مُرغی اِن کی خوراک بن ہی جاتی، یہاں کتے چُوک جاتے تھے۔ جب رات پڑتی تو اِن کے چیخنے کی آوازیں شاید اس بات کا اعلان ہوتیں کہ آج ہم نے کتنی مُرغیاں شکارکی ہیں؟ اس کے باوجود گیدڑ ہماری مُرغیوں کے دُشمن تھے، مجھے یہ بہت پیارے لگتے تھے۔ ماں کے ساتھ جنگل جانے کی ایک وجہ گیدڑوں کو قریب سے دیکھنا بھی ہوتا تھا۔ یہ غول کی شکل میں ہوتے یا پھر کوئی ایک اکیلا بھی اِدھر سے اُدھر جاتا دکھائی پڑتا تھا۔

ماں کے ساتھ عصر سے پہلے، گھر سے نکل کر، جیسے ہی جنگل کے قریب پہنچتے یہ مجھے اپنی طرف شدت سے کھینچتا محسوس ہوتا۔ مَن کرتا کہ بھاگتا ہوا جاؤں، اِس کے اندرگھس جاؤں اوردوسری طرف جا نکلوں اور اُدھر کی دُنیا دیکھوں۔ اُدھر کی دُنیا میرے تصورات میں بستی تھی اور وہ اِدھر کی دُنیا سے بہت مختلف تھی۔ مگر مَیں جنگل میں گھس کر دوسری طرف نہ نکل پایا، اُدھر کی دُنیا میرے لیے بہت پُراسراررہی، جنگل سے گھر لوٹتے سمے ایک نامعلوم سی اُداسی مجھے گھیرے رہتی، شاید یہ اُداسی گھر سے جنگل کی اور جاتے، جوش کا خاتمہ ہوتی تھی۔ مَیں پیچھے مُڑ کر  دیکھتا تو جنگل مجھے بُلا رہا ہوتا۔ ماں ایک ہاتھ سے سر پر رکھے لکڑیوں کے گٹھڑے اور دوسرے سے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر چلتی گھر پہنچ جاتی۔

وقت کا پہیہ گھوما، میرے اور جنگل کے درمیان چارسو ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ آن پڑا۔ زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا یہ بہار کے دِن تھے مگر ایک رات کی بات ہے کہ عشاء کی نماز ادا کر کے ہم گہری نیند میں تھے کہ مسجدوں سے اذانیں گونج اُٹھیں، ہم سب گھبرا کر اُٹھ بیٹھے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہرگھرکے بڑے بوڑھے اپنے اپنے گھرکی چھتوں پر پہنچ کر اذانیں دینے لگ پڑے۔ خوف نے رات کی تاریکی کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ رات ہمارے بدن سے رینگ رینگ کر گزرتی رہی، صبح کا اُجالا پھوٹا، مَیں نے سفر باندھا۔ مجھے چار سو ساٹھ کلومیٹر کا سفر کر کے وہاں پہنچنا تھا جہاں جنگل کے آثار پڑتے تھے۔

میرا ٹھکانہ وہ حویلی تھی جس کے صحن کے بیچوں بیچ تندور میں جنگل کی لکڑیوں کے شعلے بلند ہوتے تھے لیکن حویلی کئی حصوں میں بٹ چکی تھی، ہر حصہ قرنطینہ بن چکا تھا۔ دروازے اندر سے بند تھے، کوئی باہر آ سکتا تھا اور نہ کوئی اندر جا سکتا تھا۔ جہاں باجرہ کا وسیع کھیت تھا اُس جگہ ایک ٹیلی فون کا کھمبا، ٹاہلی اور مسیت کے مینار سے بھی اُونچا چلا گیا تھا۔ قطار میں دُکانیں تھیں مگر سب بند۔ مسیت نمازیوں سے خالی مگر میناروں پر پرندے تھے۔ چند ایک کوے ٹیلی فون کے کھمبے پر بیٹھے کائیں کائیں کر رہے تھے۔ جنگل جو پیچھے کو سمٹ چکا تھا اس سے ذرا پہلے زمین کے سینے پر قبرستان اُگ آیا تھا۔ قبروں کی ایک قطار میں ماں کی قبر تھی جس پر خودرَو پھول اُگے ہوئے تھے۔ ماں کی قبر کے ساتھ مجھے اپنے دونوں ہاتھ دَفن کرنا تھے۔ دُشمن جو رات کی تاریکی میں سرحد پار کر کے ہمارے گھروں تک پہنچا تھا سب سے پہلے ہاتھوں پر قبضہ کرتا تھا، ہاتھوں سے آنکھوں میں اُتر کر بدن کے اندر کہیں بہت اندر جا کر بچے دیتا، اس کے بچے لحظہ بھر میں بڑے ہوتے جاتے اور ہمارے پھیپڑوں میں گھر بناتے جاتے۔ ہمارا سارا اندر اِن کا گھر بنتا جاتا اور ایک دِن ہمیں اپنا بدن چھوڑنا پڑتا۔ یہ نظر نہ آنے والا دُشمن، انسانی بدن میں ہی رہ پاتا اس کا معاملہ جوؤں جیسا تھا، سر کے بالوں میں چھپی جوؤں کو پکڑ کر باہر پھینک دیا جائے تو یہ کسی دوسری جگہ زندہ نہیں رہ پاتیں، یہ بھی انسانی بدن کا محتاج ٹھہرا۔

مَیں ماں سے پوچھتا ہوں ”ماں! ہم جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کب جائیں گے؟“ماں جواب دیتی ہے ”مَیں تو اپنے حصے کی لکڑیاں کاٹ چکی ہوں“ پھر ماں کہتی ہے”مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟“ ”ماں!مجھے جنگل پار کرنا ہے۔ ماں!جن ہاتھوں کو تم تھامتی تھی، وہ بیگانے ہو چکے ہیں۔ یہ وہی ہاتھ تھے جن سے مَیں جنگل سے لکڑیاں توڑتا تھا، پرندوں کو پکڑتا تھا اور گندم کی بالیوں کو چھوتا تھا۔ یہ وہی ہاتھ تھے جن پر تتلیاں آن بیٹھتی تھیں اور جگنو جگمگاتے تھے۔ یہ وہی ہاتھ تھے جن سے مَیں نے قلم پکڑا اور کتابوں کے صفحات پلٹے اور یہ وہی ہاتھ تھے جنہیں تھام کر میرے بچے بڑے ہورہے تھے“

مَیں اپنے ہاتھوں کو ماں کی قبر کے سا تھ کی جگہ میں دَفن کرتا ہوں اورجنگل میں گھستا چلاجاتا ہوں۔ جنگل پارکرنے کے لیے ہاتھوں سے زیادہ پیروں کی ضرورت تھی جو سلامت تھے ۔۔۔۔ پھریہ کہ جنگل رہ ہی کتنا گیا تھا؟

%d bloggers like this: