منصف نے چند سوالات کیا پوچھ لیے کہ لوگ ناراض ہی ہو گئے۔ پیپلز پارٹی اورنواز لیگ کی قیادت اور ووٹرز تو پہلے ہی ناراض ہیں‘رہ گئے تحریک انصاف کے لوگ تو وہ بھی اب ناراض ہوگئے ہیں۔پاکستانی قوم کے تین لاڈلے ہیں‘ نواز شریف‘ عمران خان اور زرداری‘ ان تینوں کے بارے جو بھی سوال اٹھا ئے قوم ناراض ہوجاتی ہے۔
عدالتوں اور ججوں کو پارلیمانی سسٹم کی اہمیت اور اس کے تقدس کے لیکچر سننے پڑتے ہیں‘فورا ًامریکہ‘ برطانیہ اور یورپ کی مثالیں شروع ہو جائیں گے۔مگر یہ نہیں بتاتے کہ ٹرمپ کو ابھی صدر بنے تیسرا دن تھا کہ اس نے چھ مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دی تو فورا ًامریکی عدالتیں حرکت میں آگئیں۔ سب نے کہا کہ ٹرمپ کو پہلے دن اور اس کے پہلے حکم سے جج کیا جائے گا۔ جو لڑائی صدر ٹرمپ کی امریکن میڈیا سے پہلے دن شروع ہوئی وہ ساڑھے تین سال بعد بھی جاری ہے۔ ابھی سی این این پر چل رہا تھا کہ ٹرمپ پھر صحافیوں کو رگید رہے تھے۔ جس امریکہ اور برطانیہ کی مثالیں دی جارہی ہیں وہاں بھی ٹرمپ اور بورس جانسن کی نالائقیوں‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور وائرس کے تھریٹ کو سیریس نہ لینے کی وجہ سے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور معیشت تباہ ہو گئی ہے۔
ٹرمپ نے ٹی وی اینکرز کو ہمارے ہاں کی طرح یہ نہیں کہا کہ مجھے آپ نے نوے روز کچھ نہیں کہنا‘ میں جو کچھ کروں آپ لوگوں نے سوالات نہیں اٹھانے۔میرے جیسا آئیڈلسٹ یہ توقع کیے بیٹھا تھا کہ عمران خان کہیں گے کہ مجھے آپ پہلے روز‘ پہلے فیصلے سے جج کریں‘مجھے رعایت نہیں چاہیے‘ نہ میڈیا سے نہ ہی عدالتوں سے‘ اگر عدالتوں اور میڈیا کو لگے کہ میں غلط کررہا ہوں تو وہ تنقید کریں۔ وہ الٹا صحافیوں کو کہتے رہے کہ ان پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔
اس کا جواز وہ یہ پیش کر رہے تھے کہ پچھلی حکومتیں کتنا گند اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھیں جو صاف ہونے میں وقت لگے گا۔پالیسی لیول تک یہ بات مانی جاسکتی تھی‘ لیکن عمران خان شاید میڈیا اور عدالتوں کو اس وجہ سے بھی پہلے روکنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان تعیناتیوں پر اعتراض نہ کریں ‘جو وہ اپنے دوستوں کی کرنا چاہتے تھے۔ مقصد تھا وہ اپنے دوستوں کو ایڈجسٹ کرلیں اور انہوں نے دھڑلے سے ایک کے بعد دوسرا دوست یا ملازم ایڈجسٹ کیا اور کسی کو وزیراور مشیر سے کم کا درجہ نہ دیا۔
اب پتہ چلا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے سولہ مشیر ہیں۔ سپیشل اسسٹنٹس‘ جن کا درجہ وزیر سے کم نہیں۔ ایک ایک وزارت میں دو دو وزیر ہیں۔ ایک بڑا وزیر تو دوسرا چھوٹا وزیر اور پھر تیسرا ایک مشیر جس کا درجہ بھی وزیر کے برابر ہے۔ یوں اس وقت وزیراعظم کی کابینہ پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف چالیس کے قریب وزیر ہیں تو ان سولہ مشیروں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عمران خان صاحب ان مشیروں کی بات سنتے بھی ہیں؟ کیا یہ سب انہیں واقعی ایسے مشورے دیتے ہیں جن سے ان کی حکومت بحران کا شکار نہیں ہوتی؟
باقی چھوڑیں ‘ مشیر صحت ظفر مرزا کے بارے کیا چیف جسٹس صاحب کے سوالات درست نہیں؟ جب اس قابل مشیر کو علم تھا کہ پندرہ جنوری کو وزیراعظم کورونا وائرس کی جان کاری رکھتے تھے تو اس کے بعد ظفر مرزا نے کیا کیا تھا؟پندرہ جنوری سے پندرہ مارچ تک ان کی پرفارمنس دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ موصوف دنیا کی تاریخ کے بدترین بحران کو ہینڈل کرنے میں کتنے سنجیدہ تھے؟ باقی چھوڑیں واقف حال کہتے ہیں کہ یہی ظفرمرزا تھے جنہوں نے تفتان بارڈر پر بحران کو جنم دیا اور وزیراعظم کو سب اچھا کی رپورٹ دی۔
حکومت کی یہ حالت تھی کہ ایران سے آنے والے زائرین ہوں یا سعودی عرب سے عمرہ کر کے آنے والے‘ ان کے لیے ان کے پاس کوئی حکمت عملی نہ تھی۔ یہی کچھ تبلیغی جماعت کے ارکان کے ساتھ کیا گیا۔نالائقی کی انتہا دیکھیں ایرانی سرحد سے زائرین کو عمران خان صاحب کے لاڈلے مشیر کی سفارش پر بغیر ٹیسٹ چپکے سے کلیر کر دیا گیا اور وہ لوگ اپنے بیوی بچوں ‘ محلے داروں اور دوست احباب کے لیے خطرہ بنے۔ وزیراعظم سے جب صحافیوں کی ملاقات ہوئی تو یہ سوال بھی اٹھا اور اس پر وزیراعظم صاحب ناراض ہوگئے کہ ان کے مشیر کا نام کیوں لیا گیا۔
آپ کے پاس دو ماہ تھے‘ ان دو ماہ میں تفتان بارڈر پر بہتریں انتظامات ہوسکتے تھے۔ اسی پریس بریفنگ میں پتہ چلا کہ پاکستان اب چین سے سامان منگوانے کی کوشش کررہا ہے۔ آرڈر اس وقت دیے جارہے ہیں جب بلاسر پر نازل ہو چکی ہے۔ کورونا کی بلا چین‘ ایران‘ اٹلی اور دیگر ملکوں میں تباہی مچا رہی تھی مگر ہمارے ہاں سب نیرو کی طرح بانسری بجا رہے تھے۔ کوئی ایک ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے لگتا ہو کہ اس وائرس کو پاکستان آنے یا اس کے نقصانات کم سے کم رکھنے میں حکومت کو کوئی دلچسپی ہو۔
باقی چھوڑیں جو کام پندرہ جنوری کو کرنا چاہیے تھا وہ اب تین ماہ بعد ہورہا ہے۔ کم از کم ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی لباس اور دیگر سامان کا بندوبست ہی کرلیا جاتا۔ اب حالت یہ تھی کہ پاکستان کے دیگر حصوں کو چھوڑیں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں بھی ڈاکٹروں ‘ نرسوں اور دیگر عملے کے پاس حفاظتی لباس تک نہ تھے۔ پمز کے ڈاکٹروں نے پریس کانفرنس کی کہ حالات کتنے خراب ہیں تو اُلٹا میڈیا پر دبائو ڈال کر ان کی چیخ وپکار کو دبا دیا گیا۔
پمز میں ایک دوست کا بیٹا کورونا کے شک میں دو راتیں داخل رہا اور ہسپتال کے پاس پیرا سیٹا مول تک کی گولیاں نہ تھیں ۔ اس باپ نے جو پمز کی حالت زار ایک ویڈیو میں بیان کی وہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کس طرح کی تیاریاں ہمارے مشیرِ صحت تین ماہ سے کررہے تھے۔ اب ہر ہسپتال میں ڈاکٹروں کے بارے خبریں آرہی ہیں کہ ان کے پاس نہ گلوز ہیں‘ نہ ماسک اور نہ حفاظتی لباس اور درجنوں کے حساب سے ڈاکٹرز کورونا کا شکار ہورہے ہیں۔ جب ڈاکٹرز خود شکار ہورہے ہیں تو وہ مریضوں کا کیا علاج کریں گے؟
کوئی پوچھے ظفرمرزا سے کہ آپ نے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور عملے کو محفوظ بنانے کے لیے ان دو ماہ میں کوئی اقدامات کیے یا چپ چاپ بیٹھے رہے۔ حالت یہ ہے کہ کوئٹہ میں ڈاکٹرز پر تشدد کر کے تھانے میں بند کر دیا گیا کہ وہ حفاظتی سامان نہ ہونے پر احتجاج کررہے تھے۔ یہ وہ تیاریاں ہیں جو وفاقی حکومت پندرہ جنوری سے پندرہ مارچ کے درمیان کررہی تھی۔یہ کام صوبے کا نہیں تھا کہ وہ ڈاکٹروں اور عملے کے لیے مطلوبہ لباس اور دیگر ماسک وغیرہ کابندوبست کرتے۔ یہ سب چیزیں امپورٹ ہونی تھیں‘ لیکن دو ماہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ اب اچانک ایسی اداکاری کی جارہی ہے جیسے وہ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں اور اگر کسی نے ان کی نالائقی اور سستی پر سوالات اٹھائے تو اس پر تبرا شروع ہوجائے گا۔
اب اچانک سب کو ظفرمرزا سے ہمدردی ہوگئی ہے۔ جب ڈاکٹرز کو ماسک اور حفاظتی لباس مانگنے پر مارا جارہا تھا اس وقت کسی کو خیال نہیں آیا کہ یہ سب بندوبست کرنا کس کا کام تھا؟ویسے کبھی سوچتا ہوں عدالتوں اور میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو ان بے پروا حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیں۔ عدالتوں اور میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو اپنے لیڈروں سے جڑا رومانس پورا کرنے دیں‘ان کو کھل کر لوٹنے دیں‘ اپنی نالائقی اور نااہلی سے اسی عوام کی جانیں خطرے میں ڈالنے دیں۔کوئی عدالت یا میڈیا نہ پوچھے کہ آپ اربوں روپے ان چالیس وزیروں اور سولہ دوستوں کو مشیر بنا کر کیوں خرچ کررہے ہیں؟ حالانکہ ضرورت صرف دس وزیروں کی ہے۔ اسلام آباد میں اس کام کیلئے بھی وزیر اعظم نے وزیر اور مشیر رکھے ہوئے ہیں جو اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر دفتر میں سیکشن افسر کا کام ہے۔
اپنے ذاتی دوستوں کو مشیر لگانے اور عوام کی جیبوں سے چالیس پچاس بیکار وزیروں پر سارا پیسہ خرچ کرنے کے بعد اب دنیا سے چندہ مانگا جارہا ہے۔ جو ٹیکس عوام پر لگنا چاہیے وہ مشیروں وزیروں پر لگ رہا ہے‘ جن کی ضرورت تک نہیں۔ جس دن دنیا بھر سے چندہ مانگا گیا اسی دن لاہور میں سیاسی ضروریات کے نام پر پہلے سے برطرف وزیر کو پھر وزیر کا حلف دلوادیا گیا۔ عوام کے اپنے اپنے نالائق لاڈلے اور اپنے اپنے فیورٹ لٹیرے ہیں۔ مان لیں‘ عوام کو اپنے لٹیروں اور قاتلوں سے پیار ہے‘ صحافی ایسے ہی بیگانی شادی میں دیوانے ہورہے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ