’تم سر تا پا کرپٹ ہو، چاہتے ہو کہ حکمران پانی سے شفاف آجائیں‘ ہمارے ایک سابق ادارے کے باس دیار غیر میں بیٹھے پہلے کرونا (کورونا) کو کوس رہے تھے، کوستے کوستے بات دانشوروں کی مشکوک دانشوری تک آئی۔ ہر گزرتے لمحے ان کی آواز پہلے سے زیادہ تلخ اور دلائل سخت ہوئے۔ ہماری گفتگو ان کے اس سوال پر ختم ہوئی کہ ’بھلا بتاو سپریم کورٹ چاہتی کیا ہے؟ عمران خان فرشتے کہاں سے لائے؟‘
چلیں پہلے ذرا سا ہلکا پھلکا مذاق کرلیتے ہیں یعنی جو فرشتے عمران خان کو لائے تھے نا، جواب میں خان صاحب کو چاہیے کہ وہ بھی انہی فرشتوں کو لے آئیں۔ ہلدی لگے گی نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے گا چوکھا۔
کرونا نے رُلا رکھا ہے، اور آپ مذاق کے موڈ میں نہیں تو پھر اس سوال پر سر کھجائیں، دماغ کی بتی جلائیں ۔ ذرا سوچ کے گھوڑے دوڑائیں اور بتائیں کہ آپ اگر عمران خان کی جگہ ہوتے اور آپ کی کرسی کے چار پائے خوب ٹھونک ٹھونک کر ہلا دیئے گئے ہوتے تو آپ کتنی دیر جھولتی کرسی پہ بیٹھ کر کھرے بندے ڈھونڈنے کی ہمت کرتے؟
بنی گالہ کی میز پہ رکھے انڈے میدے کے بسکٹ سے لے کر ملک گیر تحریک انصاف کے جلسوں تک کوئی آنے دو آنے کا خرچہ نہیں ہوا۔ طاقت کے لیے بزنس والوں نے روپیہ ٹھیکری کر دیا اور بزنس کے لیے طاقت والے ہر حد تک گئے۔ پیسے والوں اور طاقت والوں کے بیچ گھرا بیچارہ ایک اکیلا خان ملک کے کس کونے سے سچے مچے فرشتے ڈھونڈ کر لاتا؟
سیاست میں فرشتوں کے کردار پر جنہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے وہ کہتے ہیں کُل ملا کر تین اقسام کے فرشتے ہوتے ہیں اور عمران خان صاحب کی حکومت میں تینوں اقسام کے فرشتے موجود ہیں۔
نمبر ایک: وہ فرضی فرشتے جنہیں لانے کا وعدہ ووٹ لینے کے واسطے باندھا جاتا ہے، خان صاحب نے بھی 17 رکنی فرشتہ صفت کابینہ کا بے وفا وعدہ کئی بار عوام سے کیا ۔ ہم سب نے اپنی اپنی اخلاقی استطاعت کے مطابق ایسے فرشتہ نما حکمرانوں کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں کھینچ رکھا ہے۔ یہ فرشتہ صفت حکومتی ٹیم نہ انسانی تاریخ میں کبھی بنی ہے اور نہ کبھی بنے گی۔ ہاں وعدوں پہ جیے جانے کی اک عادت تھی سو وہ اب بھی ہے۔
قسم نمبر دو: یہ فرشتے واقعی دو نمبری ہوتے ہیں۔ یہ نظر نہیں آتے مگر ان کا کام نظر آتا ہے۔ ( اس سے زیادہ لکھا تو وہ کار سرکار میں مداخلت تصور ہوگا)۔
نمبر تین: سیاست میں فرشتوں کی سب سے مشکل قسم تعداد میں سب سے زیادہ۔ ہر دور میں دستیاب ہر کام کے لیے راضی ۔برخلاف قسم نمبر دو یہ خوب نظر آتے ہیں بلکہ ان کا کام ہی نظر آنا ہوتا ہے۔
سیاسی فرشتوں کی یہ تیسری قسم دراصل قسم نمبر دو کے فرشتوں کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ فرشتوں کی یہ ٹیم ایسے سیاسی اور ٹیکنوکریٹ افراد کا مجموعہ ہوتی ہے جنہیں ہر مرض کی دوا، ہر بحران میں ہیرو اور حکومت چلانے کی بھول بھلیوں میں چراغ راہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
قسم نمبر تین کے فرشتوں کو ایک مخصوص پروگرام کے تحت ڈیزائن کیا جاتا ہے، ان نام نہاد راہبروں رہنماوں اور جھوٹ موٹ کے فرشتہ صفت سیاستدانوں کے جُٹ کو حکومت بنانے، گرانے اور ستانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ کبھی گاڑیوں میں بٹھا کر لائے جاتے ہیں اور کبھی جہاز میں ہوا کے دوش پر۔ ایسے نام نہاد سیاسی فرشتے ہر پارٹی کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں، انہیں حلقے سے کامیاب کرانا پہلے سے طے شدہ پروگرام کا حصہ ہوتا ہے۔
لے دے کر درجن دو درجن بندہ ہے جو ہر حکومت کی مجبوری بن جاتا ہے وہ یہی تیسرے نمبر کے فرشتوں کا جتھہ ہے جو اس وقت خان صاحب کو دستیاب ہے۔
شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کا دماغ سمجھے جاتے تھے، اب بھی وہی ہیں۔ جہانگیر ترین مشرف دور میں شوکت عزیز کی کابینہ کا اٹوٹ انگ تھے سو عمران خان کے خالی ہاتھوں میں بھی یہی گڑ کی ڈلی ڈالی دی گئی۔ حفیظ شیخ کی ذہانت پر مشرف نے بھروسہ کیا، پیپلز پارٹی نے بھی انہیں کابینہ کا حصہ بنایا اب اگر جوہری نے خان کو بھی یہی ہیرا تھما دیا تو کیا برا ہوا؟
فردوس عاشق اعوان پیپلزپارٹی کی خاص الخاص بندی آج ٹیم آئی کے کی جانب سے کھیل رہی ہیں اور دے باونسر پہ باونسر مار رہی ہیں۔ خسرو بختیار مشرف کابینہ کا حصہ تھے، ن لیگ میں بھی ان کی جڑیں تھیں، آج گر عمران خان کو بھی یہی فطین جاگیردار سپوت بھا گئے تو؟
عمر ایوب گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر آج اگر عمران خان کی ٹیم کا حصہ بن گئے تو اس میں تعجب کیسا؟ شیخ رشید ابن الوقت ہیں ہر نظام کی انگوٹھی میں ہیرے کی طرح فٹ ہو جاتے ہیں اب بھی چمک رہے ہیں۔ فخر امام کو لے لیجیے، انہوں نے بھی ہر پارٹی کا ذائقہ چکھا آج کل تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔
خان صاحب انگشت بہ دنداں ہیں اور ان کے چاہنے والے پریشاں ہیں کہ حکومت فرشتوں کے اس حسیں و جمیل جھرمٹ میں گھری ہے پھر ڈلیور کیوں نہیں ہو پا رہا۔
ادھر سپریم کورٹ کو حکومت چلانے کے لیے وزیراعظم کی اہلیت کافی نہیں لگتی۔ وزیراعظم کی کابینہ کے کام پر اعتراض ہے۔ وزیروں مشیروں کی فوج کو شطرنج کے مہروں سے تشبیہ دے ڈالی۔
خاں صاحب اور ان کے چاہنے والے انگشت بہ دنداں ہیں۔ ارے اللہ والو! کچھ تم ہی کہو۔ اس ملک میں جتنی قسم کے فرشتے میں موجود تھے، حکومت بنانے کے لیے خان صاحب نے سب آزمالیے اب حکومت چلانے کے لیے سچے کھرے فرشتے کہاں سے لائیں؟
اگلے زمانے میں میر صاحب کہہ گئے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ