وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ہم ایمان کی طاقت اور ٹائیگر فورس سے کورونا کی وبا کے خلاف جنگ جیتیں گے، انہوں نے ٹائیگر فورس کے قیام کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ فورس لاک ڈائون والے علاقوں میں جا کر عوام میں کرونا کے حوالے سے نہ صرف آگاہی پھیلائے گی بلکہ غریب اور مستحق افراد میں راشن اور امدادی سامان بھی پہنچائے گی۔
وزیراعظم کے اعلان کے بعد سٹیزن پورٹل کے ذریعے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے لیے نوجوانوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے تاہم اپوزیشن نے وزیراعظم کے ٹائیگر فورس کے اعلان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
اپوزیشن کا موقف ہے کہ ٹائیگر فورس کے ذریعے متاثرہ افراد کو امداد دینے کا عمل بھی سیاست زدہ کر دیا گیا ہے۔ کورونا ریلیف فورس کو ٹائیگر سے موسوم کرنے کے وزیراعظم کے اعلان کو اپوزیشن اس لیے سیاسی آنکھ سے دیکھ رہی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان بطور چیئرمین تحریک انصاف اپنی پارٹی میں شامل نوجوانوں کو ہمیشہ ٹائیگر کے نام سے ہی پکارتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کے اس اعلان سے ایسا تاثر گیا کہ یہ فورس صرف تحریک انصاف کے پارٹی ورکرز پہ ہی مشتمل ہو گی اور امدادی کام بھی سیاست کی نذر ہو جائیں گے۔
ٹائیگر کے نام کی اس تشبیہ بارے اینکر پرسن ارشد شریف نے تحریک انصاف کے ایک سابق کارکن کی ایک نجی ٹی وی پہ کی گئی گفتگو کو سوشل میڈیا پہ شیئر کیا تو انہی ٹائیگرز نے ان کے خلاف گالیوں سے بھرا ٹرینڈ چلا دیا، یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی صحافی نے تحریک انصاف سے متعلق تنقید کی ہو اور اسے ایسی مغلظات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
وزیراعظم سے رئوف کلاسرا، ارشاد بھٹی اور نسیم زہرہ جیسے سینئر صحافی کوئی ایسا سوال پوچھ بیٹھیں جو ان کی طبع نازک پہ گراں گزرے یا ان کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ کر دے تو پھر یہی ٹائیگرز اپنی تربیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے ان صحافیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے، جہاں انہیں اس مادر پدر آزادی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ الگ بات ہے کہ یہی میڈیا خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے ان کی آنکھ کا تارہ ہوا کرتا تھا اور جس میر شکیل الرحمٰن کے ادارے جنگ؍ جیو کے متعلق ان کے صوتی لہروں پہ محفوظ ارشادات آج بھی ان کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہیں۔
آج وہی ادارہ ان کی آنکھ کا ایسا شہتیر بن چکا ہے کہ بڑے بھائی کے وینٹی لیٹر پہ زندگی کی آخری سانسیں لینے کے دوران بھی حکومت نے نیب کی تحویل میں موجود چھوٹے بھائی کو ان سے آخری ملاقات تک کرنے کی اجازت نہیں دی اور میر جاوید رحمٰن اپنے بھائی سے ملنے کی خواہش دل میں لیے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
بات خان صاحب کے ٹائیگرز کی ہو رہی تھی تو ان کی صلاحیتوں کا مظاہرہ تو عوام تحریک انصاف کے حکومت مخالف طویل دھرنے اور اس کے بعد اکبر ایس بابر سے جسٹس وجیہ الدین تک خان صاحب سے اختلافِ رائے کرنے والوں کے ساتھ روا رکھے گئے حسنِ سلوک کے ضمن میں بخوبی دیکھ چکے ہیں، اس لیے ہم اس کی تفصیل میں جائے بغیر ٹائیگر فورس کے قیام تک ہی تحریر کو محدود رکھتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے دیگر اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ رابطوں کے بعد اس ٹائیگر فورس کو سیاسی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افواجِ پاکستان، رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں اس فورس کا قیام محض سیاسی مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے اپوزیشن کی طرف سے مطالبہ کیا کہ ٹائیگر فورس پہ قوم کا پیسہ اور قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے لوکل گورنمنٹ فوری بحال کی جائیں۔ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بھی سرکاری سرپرستی میں ٹائیگر فورس کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کو تجویز پیش کی کہ وہ سندھ کی طرز پہ محلہ کی سطح پہ ریلیف کمیٹیاں قائم کرے۔
اس وقت جبکہ کورونا سے متاثرہ دہاڑی دار اور غریب افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی طرح مقامی افراد تک رسائی کا سب سے بہترین میکانزم مقامی حکومتوں کا نظام ہی ہو سکتا ہے اور خان صاحب سے زیادہ بہتر یہ کون جان سکتا ہے جو مقامی حکومتوں کے مضبوط نظام کے سب سے بڑے داعی رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں بھی مقامی حکومتوں کے قیام اور ان کی مضبوطی کا پورا فریم ورک دیا گیا ہے لیکن قول و فعل کے تضاد کا نمونہ یہاں بھی نمایاں ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح بطور وزیراعظم عمران خان نے بھی مقامی حکومتوں کے قیام کو اپنی حکومت کو کمزور کرنے کے مترادف گردانتے ہوئے اسے سرد خانے میں ڈال دیا۔
خان صاحب کے دورِ اقتدار میں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی مدت اگست جبکہ بلوچستان میں جنوری 2019میں پوری ہو گئی جبکہ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ بل 2019ءمنظور کرکے مقامی حکومتوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 140اے اور الیکشن کمیشن کے ایکٹ 2017کے سیکشن 219کی ذیلی دفعہ 4کے تحت لازم ہے کہ مقامی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد 120دن کے اندر نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں؛ تاہم تحریک انصاف کی جو کارکردگی رہی ہے اس پہ عوامی ردعمل کے خوف کے پیش نظر یہ آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کورونا سے متاثر ہونے والے ان 25فیصد انتہائی غریب افراد تک بروقت امداد نہ پہنچنے کے ذمہ دار بھی مقامی حکومتوں کو ناکارہ کرنے والے وزیراعظم عمران خان خود ہی ہیں جن کا ذکر وہ لاک ڈائون نہ کرنے کے اپنے اقدام کے دفاع کے طور پہ بڑے دلگرفتہ انداز میں کرتے ہیں۔
کورونا کی ہر روز تشویشناک حد تک پھیلتی ہوئی وبا کے دوران اشد ضروری ہے کہ غریب افراد کی مدد کے اقدامات ہنگامی بنیادوں پہ کیے جائیں کجا کہ ٹائیگر فورس جیسے اعلانات کے ذریعے انہیں مزید گنجلک بنایا جائے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ