مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا وائرس اور سرمایہ داری کے جال ۔۔۔ عامر حسینی

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سرمائے کی پیداواری، سماجی اور علامتی مادیت پرستیوں کے پرے تقویت نو سے باہر نکلنا چاہئیے-

کورونا وائرس پر لکھا گیا یہ شاندار تحقیقی مضمون چار سائنس دانوں نے مل کر لکھا ہے جن میں سے ایک سائنس دان وبائی امراض کے ارتقاء کے علم پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرا نوجوان سائنس دان ہیومن جیوگرافی میں پی ایچ ڈی کررہا ہے اور تیسرا سائنس دان بھی وبائی علوم کا ماہر ہے جبکہ چوتھا سائنس دان جہاں اپیڈیمولوجی کا ماہر ہے وہیں وباؤں کے انسانی نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے کا بھی کافی وسیع تجربہ رکھتا ہے…. چاروں سائنس دانوں نے اپیڈیمولوجیز اور سرمایہ داری نظام کے درمیان پائے جانے والے تعلق اور رشتے کی کھوج لگائی ہے- ساتھ ساتھ بہت تفصیل سے انھوں نے ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داری کے حامی سائنس دانوں کی جانب سے وباؤں سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے ماڈل کا جائزہ بھی لیا ہے، ان سائنس دانوں نے کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا چاہے وہ سارس ہو یا میرس ہو یا کوویڈ-١٩ ہو اسے حادثاتی و قدرتی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور بہت مضبوط دلائل کے ساتھ یہ کہا ہے کہ کورونا وائرس ایگری بزنس اور فوڈ انڈسٹری کے سرمایہ دارانہ جال سے پھیلا ہے اور سرمایہ داری کے جو سرکٹس ہیں وہی اس کے پھیلاؤ کے زمہ دار ہیں…… یہ سائنس دان اس وبا سے نمٹنے کے ایمرجنسی اور طویل المیعاد دونوں حل بتاتے تجویز کرتے ہیں- ان سائنس دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ

پوری دنیا میں سرمایہ دار طبقات اور اُن طبقات کے مفادات کی محافظ ریاستیں کورونا سے نمٹنے کے لیے جس ماڈل پر عمل پیرا ہیں اُس میں ‘سب کے لیے صحت کا تحفظ ثانوی حثیت رکھتا ہے اور سرمایہ داروں کا مفاد اولین ترجیح’ (پاکستان میں ہم دیکھ چُکے کہ عمران خان کی حکومت ابتک 1200 ارب سے زائد کی سبسڈیز سرمایہ داروں کو دے چُکی اور کورونا وبا کے دوران اُس نے پہلے فوڈ ٹریڈ سے وابستہ سرمایہ داروں کو سبسڈیز دی اور اب کنسٹرکشن انڈسٹری کو سبسڈیز دی ہے جبکہ عوام کے لیے اس کے مقابلے میں زیرہ سبسڈی ہے-)
ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے جس ماڈل کو سرمایہ داری ممالک نے اپنایا ہے اس میں لاکھوں افراد جو سب سے کمزور ہیں وہ اس ماڈل میں صحت کے تحفظ کو ثانوی حثیت دینے کے سبب مرجائیں گے-

سائنس دانوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ تیسری دنیاکے ممالک کی عوام کے بعض ثقافتی رویوں یا اُن کے کسی بھی مذھبی اعتقاد یا پریکٹس کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب نہیں بلکہ فوڈ اور ایگری کلچر کی پروڈکشن اور ٹریڈ کے مراکز اور پھر اس ٹریڈ کے روٹس اس کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہیں- اور یہ روٹ مشرقی علاقوں سے گلوبل ساؤتھ تک مربوط ہے- ان سائنس دانوں نے نیویارک جوکہ اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی امریکی ریاستوں میں سب سے آگے ہے میں کورونا کے پھیلنے میں ہاؤسنگ سٹرکچر کے زمہ دار ہونے کا اشارہ کیا ہے…..

مضمون طویل ضرور ہے اور اسے قسطوں میں پڑھا جاسکتا ہے لیکن یہ مضمون ہماری بہت سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں، کلیشے دور کردیتا ہے.


راب ولاس، الیکس لیب مان، لوئس فرنانڈو شاویز، راڈرک ولاس

مترجم / عامر حسینی

بائیں سے پہلی قطار میں راب ولاس ،الیکس لیب مان ،دوسر قطار میں لوئس فرنانڈو اور راڈرک ولاس
راب ولاس ایک ایولوشنری ایپڈیمولوجسٹ ہیں جنھوں نے فوڈ اینڈ ايگری کلچر آرگنائزشن اور سنٹرز فار ڈییزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے کنسٹلنٹ رہے ہیں- الیکس لیب مان رٹجرز یونیورسٹی میں ہیومن جیوگرافی میں پی ایچ ڈی کے اسٹوڈنٹ ہیں اور ایم ایس سی اگرانومی میں مینسوٹا یونیورسٹی سے کی ہے- لوئس فرنانڈو شاویز ڈیزیز ایکلوجسٹ ہیں اور وہ ٹریس ریوز میں کوسٹا ری کین انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن آن نیوٹریشن اینڈ ہیلتھ میں ریسرچر ہیں- راڑرک ولاس کولمبیا یونیورسٹی نیویارک اسٹیٹ سائیکٹرک انسٹی ٹیوٹ کے ڈیویژن آف ایپڈیمیولوجی کے ریسرچ سائنس دان ہیں۔

کوویڈ-19 جو کہ کورونا وائرس سارس –کویو-2 کے سبب ہونے والی بیماری ہے 2002ء سے ابتک دوسری انتہائی شدید سانس کی بیماری کا سینڈروم ہے جسے سرکاری طور پر ایک بڑی وبا قرار دیا جاچکا ہے- مارچ کے آخر تک تمام شہروں میں ‘قرنطینہ’ بنائی جارہی ہیں- ہسپتالوں میں مریضوں کے اژدھام کے سبب جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔

تخمینے

چین جہاں ابتدا میں یہ وبا پھوٹ کر پھیلی تھی، وہاں اب سانس لینا آسان ہورہا ہے-1 جنوبی کوریا اور سنگاپور میں بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن یورپ خاص طور پر اٹلی اور اسپین جن کے علاوہ اور ممالک بھی اس لسٹ میں شامل ہورہے ہیں وبا کے پھوٹنے پڑنے کے ابتداء میں ہی اموات کے بوجھ سے جھکے جاتے ہیں- لاطینی امریکہ اور افریقہ میں اب کورونا بیماری کے کیسز اکٹھے ہونے شروع ہوگئے ہیں، بعض ممالک دوسروں سے زیادہ اچھے سے تیار ہیں- امریکہ جو کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے امیر ترین ملک ہے جس کا مستقبل بہت تاریک نظر آرہا ہے- مئی کے آغاز میں جاکر یہ وبا امریکہ میں کہیں عروج پر ہوگی لیکن ہیلتھ کئیر ورکرز، ہسپتال وزیٹرز پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ/ پی ای پی کی گھٹتی ہوئی سپلائی تک رسائی پر پہلے سے ہی لڑنا شروع ہوگئے ہیں-2 نرسیں جن کو بیماری کنٹرول کرنے کے مراکز- سی ڈی سی پہلے ہی سختی سے بندانہ/ریشمی رومال اور سکارف کو بطور ماسک کے استعمال کرنے کی سفارش کرچکے ہیں، پہلے کہہ چکی ہیں کہ نظام برباد ہوچکا ہے۔3 امریکہ نے جن ریاستوں سے پہلے طبی ساز و سامان خریدنے سے انکار کیا تھا،اب ان سے خریدنے کے لیے بولی دینے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے- امریکہ نے بڑے پیمانے پو پبلک ہیلتھ مداخلت کے طور پر بڑے سرحدی کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جبکہ ملک کے اندر بیماری سے نمٹنے کے لیے ٹھیک کام نہ ہونے کے سبب وائرس بڑھتا جاتا ہے-4 امپریل کالج کے ماہرین وبائی امراض کی ایک ٹیم نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگر پتاچلائے گئے کورونا کیسز سے قرنطین کے زریعے سے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ نمٹ بھی لیا گیا اور بڑی عمر کے لوگوں کو سماجی میل جول سے دور بھی کرلیا گیا تب بھی امریکہ میں 11 لاکھ لوگ مریں گے اور اس ملک کی جو فی بستر مریضوں کو دیکھنے کی گنجائش ہے اس سے آٹھ گنا زیادہ کیسز کا امریکہ کو سامنا ہوگا-5 بیماری کا خاتمہ کرنے اور اس کے پھوٹ پڑنے کو ختم کرنے کے لیے پبلک ہیلتھ کو مزید چینی طرز کیس اختیار کرنا اور خاندانی ارکان کو قرنطینہ میں رکھنا اور کمیونٹی سطح تک سماجی میل جول کی دوری بشمول اداروں کو بند کرنے جیسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے- اس سے امریکہ تخمینہ لگائی اموات سے دو لاکھ اموات کو کم کرسکے گا-

امپریل کالج گروپ نے اندازہ لگایا ہے کہ بیماری پر قابو پانے کی مہم کی کامیابی کے لیے کم از کم اٹھارہ ماہ درکار ہوں گے اور اس سے آگے معاشی سکڑاؤ اور کمیونٹی سروسز کی تباہی لازم آئے گی- ٹیم نے بیماری کو کنٹرول کرنے اور معشیت کو قابو میں رکھنے کے مطالبات میں توازن رکھنے کے لیے کمیونٹی قرنطینن سے باہر کرنے اور اندر لانے کے عمل کو ایک دوسرے سے بدلنے پر ضرور دیا ہے تاکہ جب انتہائی نگہداشت کے تمام بستروں پر مریض آجائیں تو اس سے پیدا صورت حال سے نمٹا جاسکے-

دوسرے ماڈلر( بیماری سے نمٹنے کے پیشگی نمونے بنانے والے) بھی سامنے آئے ہیں- بلیک سوان سے شہرت پانے والے نسیم طالب کی قیادت میں ایک گروپ نے اعلان کیا ہے کہ امپریل کالج ماڈل کانٹیکٹ ٹریسنگ اور ڈور ٹو ڈور مانیٹرنگ میں ناکام رہا ہے-6 ان کا کاؤنٹر پوائنٹ یہ دیکھنے میں ناکام رہا کہ ماضی میں ایسی وبا کے پھوٹ پڑنے نے اس طرح کے بیماری سے بچاؤ کے محاصرے کرنے پر رضامند حکومتوں کو ناکام کیا ہے- یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب وبا پھوٹ پڑنے کے بعد زوال پذیر ہوگی اور تب بہت سے ممالک بھی ایسے اقدامات اٹھائیں گے جن میں امید کی جاسکتی ہے کہ فعال اور بالکل ٹھیک اور مناسب ٹیسٹ ہوں گے۔ جیسے ایک مسخرا اسے یوں پیش کرتا ہے: ” کورونا وائرس بہت زیادہ بنیاد پرست/ریڈیکل ہے- امریکہ کو تو ایک اعتدال پسند/ماڈریٹ وائرس کی ضرورت ہے جس کا ہم بتدریج جواب دے سکتے ہیں- 7 – طالب گروپ نے دیکھا ہے کہ امپریل کالج کی ٹیم نے ان حالات کی تحقیق کرنے سے انکار کیا ہے جس میں یہ وائرس ختم ہوجاتا ہے۔ ایسی بیخ کنی کا مطلب کیسز کا صفر ہوجانا نہیں ہے، لیکن بہت زیادہ آئیسولیشن/ علیحدگی کے ہوتے ہوئے سنگل کیسز انفیکشن کا نیا سلسلہ پیدا نہیں کرتے- چین میں ایک مریض کے ساتھ رابطے میں آنے والے 5 فیصد لوگوں میں ہی کورونا کا شبہ پایا گیا- موثر ہونے کے اعتبار سے طالب کی ٹیم چین کے دباؤ پروگرام کی حمایت کرتی ہے جس کے مطابق بیماری کنٹرول کرنے اور لیبر کی کمی نہ ہو معشیت کے لیے اسے ممکن بنانے کے درمیان ٹوگلنگ کی میرا تھن ریس میں داخل ہوئے بغیر جس قدر تیزی سے ممکن ہو وبا کے خاتمے کو ممکن بنایا جاتا ہے- دوسرے لفظوں میں چین کی سخت گیر اپروچ اس کی آبادی کو مہینوں یا سالوں پر مشتمل ناکہ بندی اور محصوری سے آزاد کرتی ہے، جس میں امپریل ٹیم دوسروں ممالک کو حصّہ لینے کی سفارش کرتی ہے-
ریاضیاتی ماہر وبائی امراض راڑرک ولاس جو ہم میں سے ایک ہیں، سارے کے سارے ماڈلنگ ٹیبل کو بدل ڈالتے ہیں- ہنگامی صورت حال ات سے نمٹنے کی ماڈلنگ جو تاہم ضروری تو ہوتی ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ کب اور کہاں سے شروع کیا جائے- سٹرکچرل اسباب بھی ایمرجنسی/ ہنگامی حالت کے بہت زیادہ حصّہ ہوتے ہیں- ان کو شامل کرنے سے ہمیں محض معشیت کو دوبارہ شروع کرنے سے کہیں زیادہ آگے جاکر متحرک ردعمل دینے میں مدد ملتی ہے جس نے نقصان کو پیدا کیا تھا- ولاس کہتا ہے،” اگر فائر فائٹرز کو تشفی بخش وسائل کردیے جائیں تو”۔
نارمل حالات میں، اکثر آگ اکثر کم سے کم ہلاکتوں اور کم سے کم املاک کی تباہی تک محدود کی جاسکتی ہیں-
تاہم نقصان کو کم سے کم رکھنے کا انحصار بہت کم رومانوی اور بہت زیادہ سورما ادارے پر ہوتا ہے جو مستقل اور جاری رہنے والی ایسی ضابطہ جاتی کوششوں کو بروئے کار لاتی ہے جس سے کسی بھی عمارت کو کوڈ ڈویلپمنٹ اور انفورسمنٹ کے زریعے سے خطرے کا کم سے کم شکار ہونا ممکن بناتی ہے اور فائر فائٹنگ ، سینی ٹیشن اور عمارت کو محفوظ بنانے والے وساغل کی تمام ضروری سطحوں پر فراہمی کو ممکن بناتی ہے۔
یہ تناظر وبائی مرض کی انفیکشن اور موجودہ سیاسی ڈھانچوں کے لیے بھی کارآمد ہے جو ملٹی نیشنل ایگری کلچرل انٹرپرائز / کاروباری اداروں کو منافعوں کی نجکاری کرنے دیتے ہیں جبکہ اس کی لاگت کو باہر منتقل کرتے ہیں اور اسے سوشلائز کرڈالتے ہیں- یہ تناظر ان سب اداروں کے لیے ‘نافذ ہونے والا ضابطہ/ کوڈ انفورسمنٹ بن جاتا ہے- جو پھر سے مستقبل قریب میں کسی بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں کرنے والی وبائی بیماری سے بچنے کے لیے ان لاگتوں کو انٹرنلائز( ملٹی نیشنل ایگری کلچرل انٹرپرائز کی ذمہ داری بناڈالتی ہے) کرڈالتی ہے-

وبا کے پھوٹ پڑنے کے سامنے تیار رہنے اور بروقت ردعمل دینے کی ناکامی محض دسمبر سے شروع نہیں ہوتی جب دنیا بھر کے ممالک کویڈ-19 وبا کا جواب دینے میں ناکام ہوئے جب یہ ووہان سے باہر آگئی تھی- مثال کے طور پر امریکہ میں اس کا آغاز اس وقت نہیں ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کی زیلی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار کمیٹی کو تحلیل کردیا یا سات سو سی ڈی سی/مراکز برائے کنٹرول بیماری کی آسامیوں کو پر نہ کیا-9 نہ ہی یہ تب شروع ہوئی جب وفاقی ادارے 2017 وبائی سیمیولیشن کے نتائج پر عمل کرنے میں ناکام رہے جس نے یہ دکھا دیا تھا کہ ملک وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا-10 نہ ہی تب جب رائٹرز خبر رساں ایجنسی کی ہیڈ لائن تھی “امریکہ نے وائرس کے پھوٹ پڑنے سے کئی ماہ پہلے چین میں سی ڈی سی ماہر عہدہ پر کلہاڑا چلادیا تھا- اگرچہ وہآں چین کی سرزمین پر امریکی ماہر کے نہ ہونے سے براہ راست رابطے کے خلا نے یقینی طور پر امریکہ کے ردعمل کو کمزور کیا تھا- نہ ہی یہ پہلے سے دستیاب عالمی ادارہ صحت کی فراہم کردہ حفاظتی کٹس کے زریعے ٹیسٹ نہ کرنے کے بدقسمتی پر مبنی فیصلے سے شروع نہیں ہوئی-بہرحال ابتدائی معلومات ملنے میں تاخیر اور ٹیسٹ کرنے کے ابتدائی مواقع کا ضیاع ہزاروں جانوں کے کھونے کے ذمہ دار بنیں گے-11
ناکامیاں تو اصل میں عشروں پہلے ہی پروگرام کرلی گئی تھیں جب صحت عامہ کے مشترکہ کاز کو مستقل نظر انداز کیا گیا اور اسے قابل خرید و فروختنی جنس بنادیا گیا-12 ایک ایسا ملک جس میں فردیائے گئی رجمنٹ کا قبضہ ہو تو وہ وباؤں کے زمانے میں ایک کھلے تضاد کے ساتھ سامنے آئے جس میں معمول کے آپریشنوں کے لیے کافی بیڈ نہ ہوں تو وہاں قطعی طور پر چینی برانڈ جیسا دباؤ ماڈل نافذ کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہوں گے وہ اکٹھے ہی نہیں ہوں پائیں گے۔

زیادہ واضح طور پر سیاسی اصطلاحات میں ماڈل کی حکمت عملی کے بارے میں طالب ٹیم کے نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے ،ماحولیاتی بیماریوں کے ماہر لوئس فرنانڈو شاویز، اس مضمون کے ایک اور ساتھی مصنف رچرڈ لیونس اور رچرڈ لیوٹون ماہرین جدلیاتی حیاتیات کے اتفاق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اعداد کو ہی بولنے کی اجازت دینا پہلے سے موجود مفروضات پر نقاب چڑھا دینا ہے۔”13 امپریل اسٹڈی جیسے ماڈل واضح طور پر غالب سوشل آڈر/سماجی ضابطے کے اندر انتہائی محدود طریقے سے وضع کئے گئے سوالوں کے تحزیے کے امکان کو محدود کرڈالتے ہیں- اپنے ڈیزائن کے اعتبار سے وہ ان وسیع تر مارکیٹ فورسز کو دیکھنے میں ناکام رہ جاتے ہیں جو وباؤں کے پھوٹ پڑنے اور ایسی مداخلتوں کے پیچھے سیاسی فیصلوں کی قوت متحرکہ ہوتی ہیں-
شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ایسے منصوبوں کے نتیجے میں سب کی صحت کا تحفظ دوسرے درجے میں ہوتا ہے اور سب کی صحت کے تحفظ میں جو سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں وہ بھی شامل ہوتے ہیں تو ان کا لاکھوں کی تعداد میں مارا جانا یقینی ہوتا ہے- تو ایسے منصوبوں میں ایک ملک کا بیماری کے کنٹرول اور معشیت کے درمیان ٹوگل کرنا ضروری ہے-
ایک ریاست کا فوکو وژن جو اس کی آبادی میں خود اس کے اپنے مفادات کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک اپ ڈیٹ/ تازہ ترین کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ اس سے بھی بہتر حل مالتھس کے ہاں موجود ہے جسے مالتھسی دھکا بھی کہتے ہیں یہ دھکا ریوڑ کا مدافعتی نظام ہے، اس حل کو برطانیہ کی ٹوری حکومت اور اب ہالینڈ نے پیش کیا ہے یعنی بے قابو آبادی کے زریعے وائرس کو جلنے دیا جائے-14 ایک نظریاتی امید سے ماورا کم ہی شواہد اس بات کے ہیں کہ ریوڑ کی مدافعت وبا کو پھوٹ پڑنے سے روکنے کی ضمانت دے گی-وائرس آبادی کے مدافعتی کمبل کے نیچے سے آسانی سے نکل سکتا ہے-
مداخلت
اس کی بجائے کیا کرنا چاہئیے؟ ایمرجنسی کا رسپانس ٹھیک طریقے سے دینے کے دوران ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم اس وقت بھی ضرورت اور خطرے دونوں کے ساتھ ہی نبردآزما ہورہے ہوں گے-
ہمیں ہسپتالوں کو قومیانے/نیشنلائز کرنے کی ضرورت ہوگی جیسے وبا پھوٹ پڑنے پر اسپین نے کیا- 15ہمیں حجم اور بدلے کے اعتبار سے ٹیسٹنگ کو بہت زیادہ کرنا ہوگا، جیسا کہ سینگال نے کیا تھا-16 ہمیں فارماسیوٹکل کمپنیوں کو قومیانا ہوگا-17 ہمیں میڈیکل اسٹاف کی جتنی زیادہ ہوسکے تحفظ کو بڑھانا ہوگا تاکا سٹاف کی تباہی کے عمل کو آہستہ کیا جاسکے- ہمیں وینٹی لیٹرز اور دوسری میڈیکل میشنیری کی مرمت کے حق کو لازمی تحفظ دینا چاہئیے18 ہمیں بڑے بنانے پر اینٹی وائرل کاک ٹیل جیسے ریمیڈیسوائر اور قدیم اینٹی ملیریل کلوروقوائن ہیں کو بڑے پیمانے پر تیار کرنا ہوں گی-(اور کوئی بھی دوسری ادویات جو اس کو کمزور کرنے میں معاون ہوں ان کو بھی بڑے پیمانے پر تیار کرنا ہوگا)-جبکہ ہمیں کلینکل ٹرائلز ٹیسٹنگ کرنا ہوگی چاہے وہ لیبارٹری سے ماورا ہی کام کرتے ہوں-19ایسا پلاننگ سسٹم نافذ ہونا چاہئیے (1) جو کمپنیوں کو درکار وینٹی لیٹرز اور اور ہیلتھ کئیر ورکرز کو درکار پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ تیار کرنے پر مجبور کرے اور(2)وہ زیادہ سہولتوں سے آراستہ جگہوں کو مختص کرنے کو ترجیح دے-
ہمیں بڑے پیمانے انسداد وبا کور/ پینڈیمک کور قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ریسرچ سے لیکر کئیر تک کی ماہر ایک ایسی افرادی قوت ہمیں مہیا کرے جو اس ڈیمانڈ آف آڈر تک پہنچے جو وائرس ہم پر رکھ رہا ہو یا کسی اور بیکٹریائی یا وائرل انفیکشن سے پیدا ہورہا ہو- وائرس کیسز کے لوڈ/وزن کا انتہائی نگہداشت کے بیڈز کی تعداد، اسٹاف ممبران کی تعداد اور ضروری آلات کی تعداد سے موازانہ کریں تاکہ تاکہ دباؤ پروگرام موجودہ تعداد کا جو فرق/ گیپ ہے اسے پاٹا جاسکے- دوسرے لفظوں میں، ہ کویڈ-19 کے جاری فضائی حملے میں بچ جانے کے تصور کو قبول نہیں کرسکتے تاکہ بعد میں ہم اس کے دہلیز سے نیچے پھیل جانے سے روکنے کے لیے کانٹیکٹ ٹریسنگ اور کیس آئسولیشن کی طرف جاسکیں- ہمیں ابھی گھر گھر جاکر کویڈ-19 کی تشخیص کے لیے درکار لوگوں کو ہائر کرنا ہوگا اور ان کو ضروری حفاظتی آلات سے لیس کرنا ہوگا جیسے ان کے لیے کافی رہنے والے ماسک کی فراہمی- ہمیں قبضہ کرنے کے گرد جمع اس منظم سوسائٹی کو معطل کرنے کی ضرورت ہوگی جو مالکان کی معطلی سے لیکر دوسرے ممالک پر پابندیوں تک پر مشتمل ہو تاکہ لوگ بیماری سے بھی بچیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کوعلاج کی ضرورت ہی نہ پیش آئے-
جب تک ایسا پروگرام نافذ نہیں ہوسکتا، اس وقت تک ہم بڑی آبادی کو یونہی چھوڑ بیٹھیں گے- یہاں تک کہ ضدی اور سرکش حکومتوں دباؤ جاری رکھتے ہوئے ہمیں محنت کشوں/پرولتاریہ کی گمشدہ روایت جو ڈیڑھ سو سال کی تاریخ رکھتی ہے کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہر شخص کو جو اہلیت رکھتا ہو اسے ابھرتے ہوئے امداد باہمی کے گروپوں اور پڑوسی بریگیڈز کے ساتھ شامل ہوجانا چاہئیے-20 پروفیشنل ہیلتھ سٹاف جن کو ٹریڈ یونینز مختص کرسکتی ہوں ان کو ان گروپوں کی تربیت کرنا چاہئیے تاکہ وہ اپنے مہربانی کے عمل اور وائرس سے لوگوں کو بچانے کی کوششیں جاری رکھیں-
یہ اصرار کہ ہم وائرس کی سٹرکچرل اصل کو ایمرجنسی پلاننگ کے ساتھ ملائیں، ہمیں منافعوں کے سامنے لوگوں کو بچانے میں ایک قدم آگے بڑھانے کی کلید پیش کرتا ہے-
بہت سے خطرات میں سے ایک خطرہ ‘بیٹ شٹ کریزی’ (پاگل پن کی انتہا) کو معمول پر لانے میں چھپا ہوا ہے- جو حال ہی یں موجود سینڈروم کی خصوصیت ہے جس کے مریض شکار ہوتے ہیں اور یہ محاورہ جاتی پاگل پن پھیپڑوں میں پایا جاتا ہے- ہمیں اس صدمے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اس وقت ملا جب ہمیں معلوم ہوا کہ ایک اور سارس وائرس اپنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ سے باہر نکل آیا اور آٹھ ہفتوں میں ساری انسانیت میں پھیل گیا ہے-21 وائرس غیرملکی کھانوں کی رسد کی ایک سمت سے نکلا اور کامیابی سے چین کے صوبے وہاں کے دوسرے سرے پر ایک سے دوسرے انسان میں انفیکشن کی صورت میں پھیلتا چلا گیا-22 وہاں سے یہ وبا مقامی اور عالمی سطح پر جہازوں، ٹرینوں کے زریعے سے سفری روابط کے رابطوں سے بنے جال کے زریعے پوری دنیا میں پھیل گیا اور بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں جانے کی اس نے درجہ بندی قائم کی-23
روایتی اورئنٹلزم میں وائلڈ فوڈ مارکیٹ کو (اس وائرس کا سبب) بتانے کے سوا بہت کم کوشش بہت زیادہ واضح سوالوں کے جواب تلاش کرنے پر صرف کی گئی- غیر ملکی کھانے تیار کرنے کا سیکٹر کیسے اس مقام تی پہنچا جہاں وہ ووہان کی بہت بڑی مارکیٹ میں روایتی لائیوسٹاک کے ساتھ اپنا مال بھی بیچنے کے قابل ہوپایا؟ جانور کسی ٹرک میں یا کسی گلی میں بیجے نہیں جارہے تھے-اس میں شامل پرمٹ اور ادائيگیوں
( اور ڈی ريگولیشن) کے بارے میں سوچیے24 ماہی گیری سے پرے دنیا بھر میں پھیلی وائلڈ فوڈ تیزی سے فارملائزڈ سیکٹر ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ ایسے ہی وسائل سے صنعتی پیداوار کی مدد کرتے ہوئے سب سے زیادہ سرمایہ داری کا شکار بھی ہے-25 اگرچہ پیداوار کی وسعت میں کہیں بھی اس کے قریب نہیں ہے لیکن امتیاز اب بھی مبہم اور دھندلا ہے-
ایک دوسرے پر چڑھا ہوا معاشی جغرافیہ ووہان مارکیٹ سے مشرقی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں پر غیر ملکی اور روایتی کھانے آپریشنوں کے زریعے اس قدر بڑھائے گئے ہیں کہ ان کی سرحد ایک پھیلتی وحشت انگیزی سے جاملتی ہے-26 ایک صنعتی فوڈ پروڈکشن آخری جنگل تک پھیل جاتی ہے، وائلڈ فوڈ آپریشن کو اپنی نزاکتوں کو بڑھانے اور آخری مقام تک چھاپہ مارنے کی ضرورت ہوتی ہے- نتیجے کے طور پر جرثوموں کے بہت زیادہ اجنبی قسمیں جیسا کہ سارس-2 وائرس رکھنے والے کیس میں پائے گئے اپنا راستا ٹرک میں تلاش کرلیتے ہیں چاہے اس پر لدھی فوڈ اینمل ہوں یا وہ لیبر جو ان کی دیکھ بھال کررہی ہو، یا اس شاٹ گن میں جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک میں اپنا سرکٹ بناکر ورلڈ اسٹیج کو نشانہ بنائے اس میں یہ جا شامل ہوتے ہیں-27
دراندازی
ربط میں وسعت ہوتی ہے جتنا زیادہ ہماری مدد اس وبا کے پھوٹ پڑنے کے دوران پلان کو آگے بڑھانے میں کرتی ہے جیسے یہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کیسے انسانیت اپنے آپ کو ایسے جال میں پھنسایا۔
مرض پھیلانے والے کچھ جرثومے پروڈکشن کے مراکز میں جنم لیتے ہیں- فوڈ سے جنم لینے والے بیکٹریا جیسے سالمونا اور کیمپائیلوبیکٹر ذہن میں آتے ہیں- لیکن بہت سارے جیسے کویڈ-19 سرمایہ کی پیدائش / کیپٹل پروڈکشن کی سرحدوں پر جنم لیتے ہیں- اصل میں نئے اور انجان بیماری پھیلانے والے انسانی جرثوموں کے ساٹھ فیصد ایسے ہیں جو جنگلی جانوروں سے مقامی انسانی گروہوں پھیلنے سے نکلتے ہیں-( اس سے پہلے کہ ان میں سے سب سے کامیاب وہ ہیں جو باقی دنیا تک پھیل جاتے ہیں)-28
ایکوہیلتھ کے میدان میں بہت سے روشن ستاروں کو جزوی فنڈنگ کولگیٹ پامولیو اور جانسن اینڈ جانسن سے ملتی ہے-یہ کمپنیاں لہولہان کرنے والے ايگری بزنس کو چلاتی ہیں جنھوں نے جنگلات کو ختم کرنے کے خطرے تک کو جنم دیا ہے اور اس کاروبار نے ایک عالمی نقشہ ترتیب دیا ہے جس کی بنیاد 1940 سے پھیلنے والی گزشتہ وباؤں پر ہے جسے بیماری پھیلانے والے نئے جرثومے آگے کی طرف بڑھارہے ہیں-29 نقشے میں جسقدر کوئی گرم تر رنگ نظر آتا ہے اسی قدر زیادہ ایک نیا بیماری پھیلانے والا جرثومہ پیدا ہوجاتا ہے- لیکن اسقدر مطلق جغرافیوں میں الجھانے والی ٹیم کا نقشہ جو چین، ہندوستان، انڈویشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے کچھ علاقوں کو گرم سرخ دکھاتا ہے ایک اہم نکتہ نظر انداز کرجاتا ہے- جہاں سے بیماری پھوٹتی ہےان زونوں پر فوکس کرنا عالمی معاشی ایکٹروں سے پیدا ہونے والے رشتوں کو نظر انداز کردیتا ہے جو ایپی ڈی مالوجیز/ مہا بیماریوں کی صورت گری کرتے ہیں-30 سرمایہ دارانہ مفادات کی حمایت یافتہ ترقی/ڈویلمپمنٹ اور پیداوار کے ساتھ آنے والی زمین میں تبدیلیاں اور دنیا کے ترقی پذیر علاقون میں بیماریوں کا جنم ان کوششوں کا صلہ ہیں جو ان وباؤں کے پھوٹ پڑنے کی زمہ داری مقامی آبادیوں اور ان نام نہاد گندے ثقافتی طور طریقوں پر عائد کرتی ہیں-ریشنل جغرافیوں کی تقسیم اچانک نیویارا،لندن اور ہانگ گانگ جیسے عالمی سرمایہ کے سرچشموں کو دنیا کے تین بدترین وبائی مرکز میں بدل ڈالتی ہے-
وبا کا شکار علاقے اب روایتی سیاست کے تحت منظم نہیں رہے-غیر مساوی ماحولیاتی تبادلے نے ریاستی سامراجیت کی قیادت میں وسائل کے مقامی علاقوں کو بڑے پیمانے پر اور اجناس کے اعتبار سے نئے کمپلیکس رکھنے والی جگہ میں بدل دیا ہے- یہ جو غیر مساوی ماحولیاتی تبادلہ ہے یہ بدترین نقصان کو صنعتی ایگری کلچر سے گلوبل ساؤتھ/ترقی یافتہ ممالک کی طرف موڑ رہا ہے-32 ایگری بزنس اپنے غیر معمولی سرگرم آپریشنوں کو مختلف پیمانے کے علاقوں میں مکانی طور پر منقطع نیٹ ورک کی شکل دے رہا ہے-33 مثال کے طور پر ملٹی نیشنل کی بنیاد پر ایک ‘سویا بین ری پبلک بولیا،پیراگوئے، ارجنٹینا اور برازیل کو قطع کرتی ہے-نئے جغرافیہ کی تجسیم کمپنی منیجمنٹ سٹرکچرمیں ہونے والے بدلاؤ، سرمایہ کاری ، ست کانٹریکٹنگ، متبادل سپلائی چین، لیزنگ اور ٹرانس نیشنل لینڈ پولنگ کی مرہون منت ہے- قومی سرحدوں کو مضبوط بناتے ہوئے، یہ ” اجناسی ممالک/ کاموڈیٹی ممالک” لچک دار ہونے کے سبب ماحولیاتی اور سیاسی سرحدوں کو اپنے اندر سموتے ہوئے ساتھ ساتھ نئے وبائی بیماری بھی پیدا کررہے ہیں-35
مثال کےطور پر، اجناس زدگی/ کاموڈیٹائز دیہی علاقوں سے شہری کچی آبادیوں/ سلم میں تبدیل ہونے کے رجحان جو آج پوری دنیا میں جاری ہے کے باوجود وبائی بیماری بارے ابھرنے والی بحث میں دیہی-شہری تقسیم پر زیادہ فواس رکھتی ہے- یہ بحث دیہی علاقوں میں مرتکز لیبر اور دیہی قصبوں کے تیزی کے ساتھ ‘شہری گاؤں/ سٹی ویلج میں بدل جانے یا دوشہروں کے درمیان کا علاقہ بن جانے کو نظرانداز کردیتے ہیں-مائیک ڈیوس اور دیگر کئی نے پہچان کرائی ہے کہ کیسے یہ نئی اربنائزنگ لینڈ اسکیپ بطور مقامی مارکیٹ اور گلوبل ایگری کلچرل کاموڈیٹیز/ اجناس کے ذخیروں کے کام کرتی ہیں-36 کچھ ایسے خطے تو “پوسٹ ایگری کلچرل” ہوچکے ہیں-37نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جنگلی بیماری کی حرکیات،بیماری پھیلانے والے جرثوموں کے ابتدائی سرچشے اب صرف مشرقی علاقوں تک محدود نہیں رہے- ان کی شراکت دار وبائی امراض نے اپنے آپ کو ایسے رشتے میں ڈھال لیا ہے جو ایسا لگتا ہے کہ زمان و مکان کو عبور کرنے لگے ہیں۔ ایک سارس اچانک سے اپنی غار سے باہر آنے کے چند دن بعد بڑے شہر میں انسانوں کے جسم میں خود کو داخل کرسکتا ہے-
ایکوسسٹم جن میں ایسے جنگلی وائرس ٹراپیکل فاریسٹ/باران خیز استوائی جنگل کی پیچیدگیوں کے سبب جزوی طور پر کنٹرول میں رہتے تھے کو سرمایہ کے زیر اثر ہونے والی جنگلات کی کٹائی نے بے قابو کردیا اور اس نے پبلک ہیلتھ اور ماحولیاتی صفائی ستھرائی کو نقصان پہنچاتے ہوئےدوسرے سرے پر پیری- اربن ڈویلپمنٹ بلندیوں پر پہنچادیا-38
نوٹ: پیری اربن علاقے دراصل دو اربن مراکز کے درمیان کے مضافاتی / دیہی علاقوں کی اربنائزڈ شکل کا نام ہے-
جبکہ بہت سارے جنگلی/سیلواٹک اپنی میزبان انواع کے ساتھ ہی مررہے ہیں، انفیکشن کا ایک حصّہ تیزی سے جنگلات میں جل جاتا تھا-اگر صرف ان کی روایتی میزبان انواع کے ساتھ انکاؤنٹر اب مشتبہ انسانی آبادیوں میں پھیل رہی ہیں جن کا انفیکشن سے متاثر ہونے کا خطرہ اکثر و بیشتر کٹوتی پروگرام اور کرپٹ ریگولیشن کے زریعے اور بڑھ جاتا ہے- حتیکہ موثر ویکسئین کے ہوتے ہوئے بھی پھوٹ پڑنے والی وبائیں بڑے پیمانے ، دورانیے اور بڑی تیز رفتاری سے پھیلتی ہے- اور جو کبھی انفیکشن مقامی لوگوں تک رہتی تھیں اب وہ سفر اور تجارت کے عالمی جال کے زریعے سے اپنا راستا دنیا بھر میں بنارہی ہیں-39
(باران خیز استوائی جنگل جنوبی امریکہ، وسطی امریکہ، کئیربیئن ، ساحلی مغربی امریکہ، ہندوستان برصغیر کے کچھ علاقوں اور بہت سارے انڈوچین علاقوں میں پائے جاتے ہیں-یہ پیچیدہ ترین علاقے ہیں اور نباتاتی اور حیوانی تنوع سے مالا مال ہیں اور سطح مرتفع پر قائم ہوتے ہیں)
اختلاف منظر کے اثر سے / پیرالیکس ایفیکٹ یعنی صرف ماحولیاتی پس منظر کے بدلنے سے پرانے معیارات جیسے ایبولا، زکا، ملیریا اور زرد بخار نسبتا کم ظاہر ہورہے ہیں اور وہ سب اب علاقائی خطرات میں بدل چکے ہیں-40 اب وہ اچانک بڑے شہروں میں ہزاروں میں ظاہر ہونے کے دور دراز کے دیہاتوں میں ظاہر ہوتے ہیں- کسی دوسری ماحولیاتی سمت کی کسی چیز کے اندر یہاں تک کہ جنگلی جانور جو عام طور پر کافی لمبے وقت تک بیماریوں کے جرثومے کا ذخیرہ رکھتے تھے(جو ان میں فعال نہیں ہوتا تھا) ان کو بھی شدید دھجگا لگا ہے، جیسے اب نئے عالمی بندروں میں جنگلی ٹائپ زرد بخار کا شبہ ہے جس سے وہ کم از کم سو سلوں سے واقف تھے وہ اپنی ریوڑ والی مدافعتی قوت کھورہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مررہے ہیں-41
پھیلاؤ
کاموڈیٹی ایگری کلچر صرف اپنے عالمی پھیلاؤ کے زریعے سے بطور ثابت قدم اور گٹھ جوڑ کے جو خدمت سرانجام دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے زریعے سے مختلف اصل رکھنے والے جرثومے بہت دورافتادہ ذخیروں سے ہجرت کرکے آبادی کے سب سے زیادہ بین الاقوامی مراکز کی طرف منتقل ہوتے ہیں-42 یہی وہ مقام ہے سفر کے ساتھ جہاں پر نت نئے ،انجان وبائی امراض پھیلانے والے جرثومے اگری کلچر کی چار دیواری میں بند کمیونٹیز میں درانداز ہوجاتے ہیں-جتنی لمبی شراکتی سپلائی چین ہوتی ہیں اور جتنا ساتھ ملحقہ جنگلات کی کٹائی کے ساتھ کمی ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ متنوع حیوانی وبائی امرا پھیلانے والے جرثومے فوڈ چین میں داخل ہوجاتے ہیں- حال ہی میں نئے ابھرنے والے اور پھر سے ابھرنے والے زرعی فارموں اور فوڈ انڈسٹری سے پیدا ہونے والے جرثومےجو بشریاتی ڈومین سے نکلتے ہیں وہ افریقی سوائن فیور، کیمپائیلوبیکٹر، کرپٹوسوڈریم،سائیکلوسپورا، ایبولا ریسیٹون، ای کولی0157:ایچ7،منہ کھر بیماری، ہیپا ٹائٹس ای،لسٹیریا، نپاح وائرس، کیو فیور، سالمونیلا، وائبرو،یرسینیا اور انفلوئنزا کی مختلف شکلیہ بشمول ایچ ون این2 وی وغیرہ-43
تاہم نہ جاہتے ہوئے بھی، ساری پروڈکشن لائن ایسے اقدامات کے گرد منظم ہوتی ہے جو ہلاکت خیز زھریلے وبائی جرثوموں کا ارتقا اور ان کی دوسروں میں منتقلی کی شرح کو تیز کردیتے ہیں-44 جینٹک مونو کلچرز یعنی فوڈ اینمل اور پودوں کے یکساں جینوم کی تیز نشونما مدافعتی دیواروں کو ہٹادیتی ہیں جبکہ متنوع جینٹک کلچر کی صورت میں زیادہ متنوع آبادی کے اندر زھریلے جرثوموں کی منتقلی کی رفتار سست رکھتے ہیں-47 زھریلے جرثومے اب تیزی سے مشترکہ مقام پر میزبان مدافعتی جینو ٹائپ کے گرد نمودار ہوسکتے ہیں- اس دوران ہجومی حالات مدافعتی ردعمل کو اور دباؤ میں لے آتے ہیں-46 بڑے بڑے فارومن پر جانوروں کی آبادی کے سائز اور فیکٹری فارموں کی گنجانیت بڑے پیمانے پر جرثوموں کی منتقلی اور انفیکشن کو ممکن بناتے ہیں-48
ہائی تھروپٹ، جو کہ کسی بھی صعنتی پروڈکشن کا حصّہ ہوتی ہے،مشکوک اجزا کی مسلسل احیائی سپلائی کو پنجرے،فارم اور علاقائی سطحوں پر ممکن بناتی ہے اور جرٹوموں کی ہلاکت انگیزی پر لگی مہر کو ہٹادیتی ہے- بہت سارے جانوروں کو اکٹھے رکھنا ان دباؤ کا تحفہ دیتے ہیں جن کو دوسری صورت میں جانوروں کے زریعے سے ہی آسانی سے جلایا جاسکتا ہے-49 زبح کرنے کے لیے عمر میں کمی جیسے چکن کے لیے چھے ہفتے کرنا زھریلے جرثوموں کو جانوروں کے مضبوط مدافعتی سسٹم سے بچ کر نکلنے کے قابل بنانے کاانتخاب کرنے جیسا ہے-زندہ جانوروں کی تجارت اور برآمد کی جغرافیائی حد کو بڑھاتے جانے سے جینومک حصوں کا تنوع بڑھ جاتا ہے جو ان کے شریک زھریلے جرثوموں کا تبادلہ کی شرح بڑھا دیتا ہے جس شرح پر بیماری کے ایجنٹ اپنے ارتقائی ممکنات کو دریافت کرلیتے ہیں-50
جبکہ وبائی جرثوموں کا ارتقا راکٹ کی سی تیزی کے ساتھ ان تمام راستوں سے آگے بڑھتا ہے- انڈسٹری کی خود اپنی ڈیمانڈ کے طور پر بھی تاہم کوئی مداخلت نہیں ہوتی، بس کسی بھی چوتھائی مہینوں کے مالیاتی مارجن کو کسی بھی اچانک وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں بچایا جاتا ہے-51 جہاں رجحان فارموں اور پروسسینگ پلانٹ کی چند حکومتی انسپکشن کی طرف مڑتا ہےوہیں یہ حکومتی نگرانی اور ایکٹوسٹ کے سامنے بے نقابی کے خلاف قانون سازی اور یہاں تک کہ میڈیا آؤٹ لیٹس میں چند خاص تباہ کن وباؤں کے پھوٹ پڑنے کی رپورٹنگ کو روکنے کے لیے قانون سازی کی طرف بھی مڑتا ہے-
پیسٹی سائیڈز اور فوگ آلودگی کے خلاف حالیہ چند عدالتی فتوحات کے باوجود پروڈکشن/پیداوار کی پرائیویٹ کمانڈ ساری کی ساری منافع پر فوکس رہتی ہے- نقصانات جو وباؤںکے پھوٹ پڑنے سے ہوتے ہیں وہ لائیوسٹاک، وائلڈ لائف، ورکرز، لوکل اور نیشنل گورنمنٹ، پبلک ہیلتھ سسٹم اور متبادل ايکڑو سسٹم کو قومی ترجیح کے طور پر ایکسٹرنلائز کرنے کا نتیجہ ہیں- انسداد امراض سنٹرز /سی ڈی سی کی رپورٹ ہے کہ متعدد ریاستوں میں خوراک سے پھوٹ پڑنے والی وباؤں سے افراد زیادہ سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں-52
یہ ہے سرمائے کی تنہائی جو جرثوموں کے حق میں تجزیہ کرتی ہے-جبکہ عوام کا مفاد تو فارم اور فوڈ فیکڑی گیٹ کے باہر ہی رہ جاتا ہے-وبائی جرثوموے بائیو سیکورٹی کو ختم کرڈالتی ہے جس کی انڈسٹری تلافی کرنے اور عوام کو لوٹانے کو تیار ہوتی ہے- روز مرہ کی پیداوار ہمارے مشترکہ صحت کے زریعے ایک پرکشش خطرناک کھابے کی پیشکش کرتی ہے-
آزادی/ لبریشن
نیویارک جو دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے ميں ستم ظریفی ہے کہ وہاں پر کوویڈ-19 سے بچاؤ کی پناہ گاہ بنائی جارہی ہے جو کہ وائرس کی جو جنم بھومیاں ہیں ان سے بہت دور ہمپشائر ہے- لاکھوں نیویارکر ان گھروں میں سر چھپائے ہوئے ہیں جن کی نگرانی الیشیا گلین کرتا ہے جو کہ ہاؤسنگ و ڈویلپمنٹ کے لیے ڈپٹی مئیر ہے-53 گلین گولمین ساش کا سابق ايگزیگٹو ہے جو کمپنی کے اربن انوسمنٹ گروپ کی سرمایہ کاری کی نگرانی کرتا رہا تھااوریہ گروپ کمیونٹیز کی اقسام کے منصوبوں کو فنانس کرتا رہا ہے جو فرم کے دوسرے یونٹوں کی ریڈ لائن میں مدد دیتے ہیں-54
بہرحال گلین کو ذاتی طور پر وبا کے پھوٹ پڑنے کا الزام نہیں دیا جاسکتا، لیکن لیکن وہ ایک سمبل/علامت ضرور ہے اس ربط کی جو گھر کے زیادہ قریب سے ہٹ کرتا ہے- شہر کی طرف سے اسے ہائر کرنے سے تین سال پہلے، ایک ہاؤسنگ بحران اور ‏عظیم کساد بازاری پر جو اس کی اپنی لائی ہوئی تھی، اس کے سابقہ مالک نے جے پی مارگن، بینک آف امریکہ، سٹی گروپ، ویلز فارگو اینڈ کو اور مارگن سٹینلے کے ساتھ فیڈرل ایمرجنسی لان فنانسنگ کا 63 فیصد لیا تھا-55 گولڈمان ساش نے اپنے اوپر سے قرضوں کو صاف کیا اور بحران سے بچی ہوئی اپنی ہولڈنگ کو متنوع بنانے کی قدم بڑھا دیا- گولڈ مان ساش نے شنگھائی انوسمنٹ ایںڈ ڈویلپمنٹ میں 60 فیصد اسٹاک لیا جو کہ چینی ایگری بزنس جائنٹ کا ایک حصّہ ہے جس نے امریکی سمتھفیلڈ فوڈز کو خرید لیا- یہ دنیا کی سب سے بڑی خنزیر کے گوشت کی پیداوار کرنے والی کمپنی ہے-56
اس نے 300 ملین ڈالر کے عوض فیوجان اور ہنان میں دس پولٹری فارم خریدے اور ان کی ملکیت لی اور ہنان ان صوبوں میں سے ایک ہے جہاں ووہان صوبے سے وائلڈ فوڈز کے لیے سپلائی جاتی رہی-57 انہی صوبوں میں اس نے ڈویچے بینک کے ساتھ ملکر خنزیر کی پیداوار میں اضافے کے لیے مزید 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی-58
اوپر دریافت کی گئی باہم مربوط جغرافیے سارے کچھ کو واپس سرکولیٹ کردیا- حال میں پینڈیمک گلین کے حلقوں میں اپارٹمنٹ سے اپارٹمنٹ سے ہوتی ہوئی سارے نیویارک کو بیمار کررہی ہے-اور نیویارک امریکہ کی کورونا سے متاثر سب سے بڑی آبادی ہے-لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ جزوی طور پر اس وبا کے پھوٹ پڑنے کے ڈھیلے ڈھالے اسباب کو نیویارک سے باہر تک بڑھانا ہوگا کیونکہ چین کے ایگری کلچر کے سائز جو سسٹم میں ہے اس اعتبار سے گولڈمان ساش کا حصّہ بہت ہی چھوٹا نظر آتا ہے-
قوم پرستانہ انگلی کے اشارے ‘ٹرمپ کے نسل پرستانہ’ طعنے ‘چینی وائرس’ سے لیکر لبرل کا تسلسل ریاست اور سرمایہ کے باہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے گلوبل ڈائریکٹرز کو صاف چھپالیتے ہیں-59 کارل مارکس نے ان کو ‘ دشمن بھائی’ کہا تھا-60
موت اور نقصان جو مزدور جنگ کے میدانوں اور معشیت میں برداشت کررہے ہیں اور اب اپنے تختوں میں اپنے سانس کو قابو کرنے کے لیے لڑتے ہوئے اشراف کی پینترے بازی کے درمیان مسابقت کی تجسیم کرتے ہیں- اور یہ جو پینترے بازی ہے یہ کمیاب قدرتی وسائل اور زرایع کی حصّہ داری اور ان مشینوں کے گئیر میں پھنسے انسانیت کے آیک بڑے حصّے کو فتح کرنے کے لیے ہے-
درحقیقت پینڈیمک/ وبائی تباہی سرمایہ دارانہ طریق پیداوار سے جنم لیتی ہے اور ریاست جس سے توقع کی جاتی ہے کہ ایک سرے پر وہ اسے مینج کرلے گی ایک موقعہ فراہم کرسکتی ہے جس سے سسٹم کے مینجرز اور بینفیشیرز/ فائدہ اٹھانے والے دوسرے سرے پر خوشحال ہوسکتے ہیں- فروری کے وسط میں پانچ امریکی سینٹرز اور 20 امریکی کانگریس ممبرز نے ان صنعتوں میں ملین ڈالر انویسٹ کیے جو آنے والی پینڈیمک سے تباہ ہونے والی تھیں-61 یہ ان کی سیاست پر استوار نان پبلک انٹیلی جنس انسائیڈر ٹریڈنگ تھی اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ امریکی نمائندگان تو پبلک میں امریکی حکومت کے غلط اندازوں کو بھی بار بار دوہراتے کہ پینڈیمک سے ان کو ایسا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا-
توڑنے اور پکڑنے کی ایسی حساسیت سے اوپر ریاستی سمت کی کرپشن ایک انتہائی منظم ارتکاز کے امريکی چکر کے خاتمے کی نشانی ہے جب سرمایہ کیش آؤٹ/ زر کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے-
سرمائے کی بارش کرنے کی کوششوں میں کوئی چیز مقابلتا ازکار رفتہ ہے چاہے یہ پرائمری ایکوجیز کی حقیقت اور اس سے متعلقہ ایپڈیملوجیز (وباؤں کا علم) پر فنانس کی تجسیم کے گرد ہی منظم کیوں نہ ہوں جس پر اس کی بنیاد ہے- خود گولڈن ساش کے لیے پینڈیمک جیسا کہ اس نے بحران سے پہلے کہا تھا سرمائے کی بڑھوتری کے لیے جگہ بناتی ہیں-
(سرتاج احمد انٹرنشنل سوشلسٹ کے کامریڈ اس پیراگراف کو لیکر کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرمایہ داری حرکیاتی وصف رکھتی ہے- پھر جیسا کہ 1918، دو عالی جنگوں کی بربادی، 1929 اور 2007ء کے معاشی بحران سب کے دوران برباد سرمایہ داری ریاست کی مداخلت سے ہی کھڑے ہونے کے قابل ہوئی اور اس بحران میں بھی ریاست کی مداخلت سے سرمایہ داری بحال ہوگی مگر محنت کشوں کی قیمت پر- کچھ سرمایہ برباد ہوگا لیکن نئے شعبے پھلے پھولیں گے مگر ایسا تب ہی ہوگا جب عوام کا پیسہ ریاست خرچ کرے گی- امریکہ اور یورپ نئی تحقیق اور بحالی میں رقم ڈالیں گے)
ہم بایوٹیک کمپنیوں میں موجود مختلف ویکسین ماہرین اور محققین کی امیدوں کو اس اچھی پیشرفت کی بنیادماننے میں شریک ہیں ہیں جو اب تک مختلف علاج معالجے اور ویکسینوں پر کی جا چکی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خوف اس طرح کی پیشرفت کے پہلے اہم شواہد سے کم ہوگا۔
ممکنہ حد تک نچلی سطح کے ہدف تک تجارت کرنا جبکہ سال کے آخر تک کا ہدف کافی حد تک ڈے ٹریڈرز، مومینٹم فالورز اور کچھ ہیج فنڈ مینجرز کے لیے فائدہ مند ہوگا لیکن لانگ ٹرم انویسٹرز کے لیے نہیں۔ مساوی اہمیت کے لیے کوئی ضمانت نہیں کہ مارکیٹ نچلی سطحوں تک پہنچ پائے گی جسے آج کی فروخت کے لیے بطور جواز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہو- دوسری طرف ہم زیادہ پراعتماد ہیں کہ مارکیٹ بتدریج امریکی معشیت کی اپنی لچک اور استحکام کے سبب ہائر ٹارگٹ تک پہنچ ہی جائے گی-
اور آخر میں ہم اصل میں سوچتے ہیں کہ موجودہ سطحیں اہستگی سے پورٹ فولیو کے رسک لیول میں اضافہ کرنے کے لیے ایک موقعہ فراہم کرتی ہیں- ان کے لیے جو قابل رسائی کیش پر بیٹھے ہوسکتے ہیں اور رائٹ سٹریٹجک اثاثوں پر پاور کے ساتھ قیام کرتے ہیں ، یہ وقت ہے کہ وہ اایس اینڈ پی ایکویٹیز میں اضافہ کریں-62
جاری قتل عام سے پریشان دنیا بھر کے لوگ مختلف نتائج تک پہنچ رہے ہیں-63 سرمایہ کا سرکٹ/ چکر اور وبائی جرثوموں کی پیداوار جیسے ریڈیو ایکٹو ٹیگ ایک بعد دوسرا لاشعوری خیال ہیں-
ایسے نظاموں کی بے قاعدگی اور حادثاتی کرداری خصوصیت کو کیسے بیان کریں، جیسے ہم نے اوپر کیا؟ ہمارا گروپ ایک ایسے ماڈل کو بنانے کے درمیان میں ہے جو ایکو ہیلتھ میں اور ون ہیلتھ میں جدید کالونیل میڈیسن کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو ننگا کرتا ہے جو مقامی اور لوکل سمال ہولڈرز جنگلات کے خاتمے کا الزام دیتی ہیں جو ہلاکت انگیز بیماریوں کا سبب بنتی ہے-64
نیو لبرل بیماری کے جنم ،جی ہاں بشمول چین کے بارے ہمارا عمومی نظریہ:
سرمائے کے عالمی سرکٹ، علاقائی ماحولیاتی تنوع جو تباہ کن بے قابو وبائی جرثوموں پر چیک رکھتی کو تباہ کرنے والے سرمائے کی تعیناتی، نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے وبائی واقعات کی شرح اور اصول صف بندی میں اضافہ، پیری اربن کاموڈیٹی سرکٹ کا پھیلاؤ جو لائیو سٹاک اور لیبر میں ابل پڑنے والے وبائی جرثوموں کو گہرے مشرقی علاقوں سے علاقائی شہروں تک شپنگ کرتے ہیں،بڑھتا ہوا گلبل ٹریول(اور لائیو سٹاک ٹریڈ) نیٹ ورک جو وبائ جرثوموں کو مخصوص شہروں سے باقی دنیا میں ریکارڈ ٹائم میں منتقل کرتے ہیں، وہ طریقے جن کے زریعے سے یہ نیٹ ورک ٹرانسمشن/منتقلی کی مزاحمت کو کم کرتے ہیں، لائیو سٹاک اور لوگوں میں بڑے ہلاکت انگیز جرثوموں کے ارتقا کے لیے سلیکشن/ انتخاب، دوسرے اطلاقات کے درمیان، انڈسٹریل لائیو سٹاک میں آن سائٹ ری پروڈکشن کی کمی، قدرتی انتخاب بطور ایک ایکوسسٹم کے ہٹانے کو جو بروقت اور قریب قریب مفت بیماری سے تحفظ دیتا ہے کو شامل کرتا ہے-
زیر غور فعال مقدمہ یہ ہے کہ کوویڈ-19 اور اس جیسے دوسرے وبائی جرثومے صرف کسی ایک انفیکشن کرنے والے ایجنٹ والی شئے میں نہیں پائے جاتے یا یہ محض کلینکل راستے سے نہیں آتے بلیہ ان کی جڑین ایکوسسٹم کے اس میدان میں ہیں جن کو سرمایہ اور دوسرے سٹرکچرل اسباب اپنے فائدے کے لیے دوبارہ کام میں لاتے ہیں-65وبائی جرثومے، مختلف انواع کی نمائندگی کرنے والے، سورس ہوسٹس، منتقلی / ٹرانسمشن کے طریقوں، کلینکل راستے اور ایپڈیمولوجیکل /وبائی نتائج وہ تمام نشان ہیں جب وبا پھوٹ پڑتی ہے تو ہمیں وحشت ناک آنکھوں کے ساتھ ہمارے سرچ انجنوں تک لیجاتے ہیں- اور ایسے مختلف حصوں اور راستوں کو نشان زد کرتے ہیں جن کے ساتھ ایک ہی قسم کے زمین کے استعمال اور ارتکاز کی قدر ہوتے ہیں۔
مداخلت کا ایک عام پروگرام ايک خاص وائرس سے ماورا متوازی طور پر چلتا رہتا ہے-
بدترین نتائج و عواقب سے بچنے کے لیے، صفائی کا عمل عظیم انسانی سفر کا اگلا پڑاؤ ہے: پہلے سے قآئم آئیڈیالوجیز/ نظریات کو ترک کرنا، انسانیت کی دریافت نو کرکے کرہ ارض کی گردشوں کی طرف پلٹانا اور سرمائے اور ریاست سے ماورا ہجوم میں ہمارے احساس انفرادیت کو دوبارہ سے پانا-66 تاہم معشیت پسندی/ اکنامک ازم یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ سارے اسباب کی جڑ تنہا معشیت ہے ناکافی آزادی ہے- عالمی سرمایہ داری نظام ، تقویت پکڑتا ہوا، اندر تک سرایت کرتا ہوا اور سماجی تعلقات کی ملٹی پل تہوں منضبط کرنے والا کئی منہ والا سانپ ہے۔ علاقائی اہمیت کی حکمرانی کو عملی شکل دینے کے دوران سرمایہ داری نسل ، طبقہ اور صنف کے پیچیدہ اور باہم مربوط علاقوں میں کام کرتی ہے۔
ہم ان ادراک کو قبول کرنے کے خطرے کو مول لیکر جن کو ماہر تاریچ ڈونا ہاروے نے ‘ نجات کی تاریخ ‘ کہہ کر رد کردیا تھا –” کیا ہم بروقت بم کو ڈی فیوز کرسکتے ہیں؟”— صفائی کے عمل کو جبر کی تہہ دار درجہ بندیوں اور مقامی خاصیت رکھنے والے طریقوں کو ختم کرنا ہوگا جو ارتکاز سرمایہ سے انٹریکٹ کرتے ہیں-68
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سرمائے کی پیداواری، سماجی اور علامتی مادیت پرستیوں کے پرے تقویت نو سے باہر نکلنا چاہئیے-69مطلق العنانیت کا جو خلاصہ بنتا ہے یہ اس سے باہر کی چیز ہے- سرمایہ داری ہر شئے کو جنس خریدنی و فروختنی بناڈالتی ہے-(کاموڈوفیکشن) جیسے یہاں مریخ کی دریافت ۔ وہاں سونا، یہاں لتھیم لگون،وینٹی لیٹر کی مرمت یہاں تک کہ پائیداری و استحکام کو بھی یہ کاموڈیٹی/ جنس بنا ڈالتی ہے-یہ پرمیوٹیشن تو کارخانوں اور فارموں کے باہر پائے جاتے ہیں- سارے طریقوں سے ہر کوئی اور ہر جگہ سب کے سب منڈی کی چیز بن جاتے ہیں، جو کہ ایک زمانے کے دوران جیسے یہ ہے کو صاف نہیں کیا جاسکتا اور اس عمل کو تیز سیاست دان کرتے ہیں-70
المختصر، ایک کامیاب مداخلت جو ایگرواکنامک سرکٹ میں سے گزرنے والے بہت سارے جرثوموں میں سےکسی ایک کو بھی پرے رکھتے ہو ایک ارب لوگوں کو مرنے سے روکتی ہو اسے سرمائے اور اس کے مقامی نمائندوں سے عالمی تصادم کے دروازے سے ضرور گزرنی چاہئیے- تاہم سرمایہ داروں / بورژوازی کا پیدل سپاہی جیسے گلین ہے وہ نقصان کو کم کرکے دکھانے کی لازمی کوششیں کرتا ہے-جیسا کہ ہمارے گروپ نے اپنے تازہ ترین ریسرچ ورک میں دکھایا ہے کہ ايگری بزنس پبلک ہیلتھ سے حالت جنگ میں ہے-71 اور پبلک ہیلتھ یہ جنگ ہار رہی ہے-
تاہم عظیم انسانیت کو ایسے نسلیاتی تصادم میں جیتنا چاہیے، ہم اپنے آپ کو واپس کرہ ارض کے میٹابولزم سے واپس جوڑ سکتے ہیں، تاہم اس کا اظہار مقام بہ مقام مختلف ہوگا، ہم اپنی ایکولوجیز/ ماحولیات اور معاشیات کو دوبارہ سے باہم مربوط بناسکتے ہیں-72 ایسے آدرش یوٹوپیا سے کہیں زیادہ حقیقی ہیں- ایسا کرنے سے ہم فوری حل قریب لاسکتے ہیں- ہم جنگل کے تنوع کی حفاظت کرتے ہیں تو وہ تباہ کن وبائی جرثوموں ان کو میزبانوں کی صف کرکے دنیا کے سفری نیٹ ورک کے زریعے پھیلنے سے روکے رکھے گا-73 اگر ہم لائیوسٹاک اور فصلوں کے تنوع کو دوبارہ متعارف کراتے ہیں اور اینمل و کراپ فارمنگ کو ان سطحوں پر ایک دوسرے سےے مربوط رکھتے ہیں جن سے وبائی جرثومے بے قابو ہوکر جغرافیائی حدود کو پار نہ کرسکیں- ہم آن سائٹ ہی فوڈاینمل کو ری پروڈیوس کرنے کی اجازت دیں اس طرح کہ قدرتی انتخاب کو دوبارہ شروع کردیں جو مدافعتی نظام کے ارتقا کو بروقت جرثوموں کو ٹریک کرنے کی اجازت دیتا ہے-بڑے منظرنامے میں، ہمیں فطرت اور کمیونٹی سے کھیلواڑ کرنا ترک کردینا ہوگا تو ہمیں سب سے زیادہ ضررورت اپنی بقا کی ہے تو اس کے لیے ہمیں ویسا کرنا ہوگا جیسے ہم مسابقتی منڈی میں کڑتے ہیں کہ ایک دوسرے مدمقابل کو مارکیٹ سے بھگانا ہوگا-
دنیا کی تخلیق نو یا شاید زمین کی طرف واپس پلٹنے کے خطوط کے ساتھ جانے کا راستا مختصر نہیں ہے- کام کے لیے تیاری مکمل ہے اور ممکنہ راستا ہمارے سب سے سے زیادہ اہم مسائل کو بھی حل کرنے میں ہماری مدد کرے گا- ہم سے کوئی بھی بیجنگ سے نیویارک تک اپنے لیونگ رومز میں پھنسا بیٹھا نہیں رہ سکتا یا وہ بس بیٹھ کر اپنے مرنے والوں کا ماتم نہیں کرتے رہنا چاہتا اور نہیں ایسی وبائی تباہی سے پھر گزرنا چاہتا ہے- ہاں، انفیکشن والی بیماری جو انسانی تاریخ میں زیادہ تر وقت سے پہلے موت کا عظیم ترین سرچشمہ رہی ہے، ایک خطرہ بنی رہے گی-لیکن اب جبکہ وبائی جرثوموں کے حیوانی قصّے گردش میں ہیں، بدترین وبائیں قریب قریب ہر سال ہی پھوٹ رہی ہیں، اور 1918ء کے بعد محض سو سال بعد ہی ہم بہت بڑی تباہ کن وبا /پینڈیمک کا سامنا کررہے ہیں تو کیا ہم ایسے طریقے ایڈجسٹ کرسکتے ہیں جن کے زریعے ہم فطرت سے مناسبت پیدا کرسکیں اور ان وبائی بيماریوں سے ہماری جنگ بندی ہوجائے؟

%d bloggers like this: